’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 17
ادھر عنصر دل ہی دل میں ریاست کی سلامتی کیلئے دعائیں مانگ رہا تھا۔
جب اسے گئے کافی دیر بیت گئی تو کھیتوں میں سے ہوتا ہوا عنصر نیلی حویلی کے عقب میں پہنچ گیا۔ حویلی کے گرد حفاظت کیلئے بندھا لال تعویذ اب اس کے سامنے تھا۔ وہ اللہ کا نام لے کر اسے پھلانگ گیا۔ نیلی حویلی کی عقبی دیوار کافی شکستہ تھا۔ بالآخر تھوڑی سی تلاش کے بعد اسے حویلی میں گھسنے کا راستہ مل گیا۔ یہ ایک شگاف تھا جو اتنا چوڑا تھا کہ وہ اس میں سے باآسانی داخل ہو گیا۔وہ حویلی میں داخل ہوا تو حسب معمول ہر چیز ساکت تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ہوا کو بھی کسی نے لگامیں ڈال رکھی تھیں۔ ایک پتہ تک نہیں ہل رہا تھا۔ سیانے کہتے ہیں خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے۔ عنصر کے لیے بھی اتنی گہری خاموشی وحشت کا باعث بنی ہوئی تھی۔ اس نے پیشانی پر ابھرنے والے پسینے کے قطروں کو ہاتھ سے جھٹک کر پرے پھینکا۔
چاندنی رات اپنے عروج پر تھی۔ عنصر نے گردوپیش کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ اس کے پاﺅں کے نیچے لمبی لمبی دلدلی گھاس تھی۔ یہ حویلی کے عقب میں واقع باغ تھا۔ ویران ہونے کے بعد کسی نے چونکہ اس کا خیال نہیں رکھا تھا اس لیے گھاس کافی قد کاٹھ نکال چکی تھی۔ گھاس کے نیچے پانی جمع تھا جو پتا نہیں کہاں سے رِس رِس کر آ رہا تھا۔ عنصر نے جوگرز پہن رکھے تھے اور بڑی احتیاط سے قدم اٹھا رہا تھا۔ اس نے ابھی تک اپنی ٹارچ روشن نہیں کی تھی تاکہ کسی کو بھی اس کی موجودگی کا پتہ نہ چلے۔ وہ بڑے غور سے نظریں گھما کر ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ اس کے بائیں جانب حویلی کی بڑی سی عقبی دیوار تھی۔ دائیں جانب راستہ ہوتا ہوا حویلی کے سامنے کی طرف جا رہا تھا۔ عنصر بڑی احتیاط سے دلدلی گھاس پر پاﺅں رکھ رہا تھا کہ کہیں کوئی آواز پیدا نہ ہو جائے۔
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 16 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کے آس پاس ہر چیز ساکن تھی۔ وہ محتاط ہو کر آگے بڑھتا رہا۔ حتیٰ کہ گھاس ختم ہو گئی اور پختہ فرش آ گیا۔تبھی عنصر نے ایک دلدوز چیخ سنی۔ چیخ اتنی ہیبت ناک تھی کہ اسے ایسے لگا جیسے نیلی حویلی کی کالی نحوست بیدار ہو گئی ہو۔ ہر طرف کالی سیاہ چمگادڑیں چنگھاڑتی ہوئی اڑ رہی تھیں۔ یہ چمگادڑوں حجم میں اتنی بڑی تھیں کہ انہیں دیکھ کر بڑے بڑوں کے اوسان خطا ہو جائیں۔ ایک لمحے کے لیے انہیں دیکھ کر عنصر بھی سہم گیا۔ چمگادڑوں کے غول کے غول آسمان پر چھائے جا رہے تھے۔ اتنی زیادہ تعداد میں چمگادڑوں کی آمد نے اس کی حیرانی دوچند کر دی تھی۔
عنصر خوفناک چیخ کا راز سوچنے میں مصروف تھا کہ ایک بڑی سے چمگادڑ نے اس پر حملہ کر دیا۔ عنصر اس ناگہانی آفت سے گھبرا گیا لیکن اس نے فوراً سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سر کو جھکا کر اس کا وار ناکام بنا دیا۔ ابھی وہ اس کے حملے سے صحیح طرح سنبھلا بھی نہیں تھا کہ ایک اور بڑی سے چمگادڑ نے فضا میں غوطہ کھایا اور اس کے چہرے پر حملہ کرنے کے لیے جھپٹی۔ عنصر اس بار بھی بروقت سر نیچے نہ کرتا تو چمگادڑ اس کا چہرہ نوچ چکی ہوتی۔ وہ دونوں چمگادڑوں کے حملے میں بال بال بچ گیا تھا لیکن اس دھینگامشتی کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنا توازن کھو بیٹھا۔ پاو¿ں کے نیچے فرش پر کائی جمی تھی لہٰذا وہ دھڑام سے سر کے بل گر پڑا۔ فرش پر قدرے پانی جمع تھا، اس لیے اس کے نیچے گرنے سے ہلکا سا چھناکا ہوا اور فرش پر بے سدھ لیٹ گیا۔ گرتے ہوئے چونکہ اس نے اپنی کہنیاں زمین کے ساتھ لگا دی تھیں اس لیے اس کا سر زمین سے ٹکرانے سے محفوظ رہا تھا ورنہ اسے اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی تھی۔ اس کا سر پھٹ جاتا اور خدانخواستہ وہ کسی بڑے حادثے سے دوچار ہو سکتا تھا البتہ اس کی کمر سے درد کی شدید ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ بہرحال اس حادثے کے نتیجے میں وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا۔ شدید درد کے باوجود اس نے چیخ و پکار مچانے کے بجائے صبر سے کام لیا تھا۔ اس کے آنکھوں کے سامنے تارے ناچ رہے تھے اور دماغ بالکل ماو¿ف ہو چکا تھا۔ فرش پر گرنے کی وجہ سے وہ بھیگ چکا تھا۔ بدبودار کیچڑ ملے پانی کی بُو بھی اسے برداشت کرنا پڑ رہی تھی۔
ادھر چمگادڑیں بدستور تیز سیٹی جیسی آوازیں نکال کر نیلی حویلی کا طواف کرنے میں مصروف تھیں۔ اچانک بجلی کڑکی، بادل گرجا اور موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ چمگادڑوں کی منحوس آوازیں تتربتر ہونے لگی اور وہ اپنی کمین گاہوں میں جا چھپیں۔ البتہ عنصر بدستور اسی طرح لیٹا رہا۔ اس کے حواس اب کافی حد تک بحال ہو چکے تھے۔ اس نے اپنی آنکھیں زور سی بھینچ رکھی تھیں۔ بارش کے قطرے تیزرفتاری سے اس کے چہرے سے ٹکرا رہے تھے اور اس کے چہرے پر سوئیوں کی طرح چبھ رہے تھے۔ اس نے ہمت کرکے اٹھنے کا ارادہ باندھا جو اسے اگلے ہی لمحے گیٹ کھلنے کی آواز سن کر ملتوی کرنا پڑا۔ اس وقت حویلی میں کون آ سکتا ہے۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ اس کی سوچوں کی تان اس وقت ٹوٹ گئی جب اس نے بہت سارے قدموں کی آواز سنی۔
”نیلی حویلی کی بدروحیں؟“
عنصر کے ذہن میں خیال ابھرا۔
ان میں سے ایک نے اپنے پاو¿ں میں گھنگھرو باندھ رکھے تھے اس لیے اس کے چلنے سے چھن چھن چھن کی آواز بھی آ رہی تھی لیکن ان آوازوں میں ایک اور آواز بھی شامل تھی جس نے اس کی گھبراہٹ میں اضافہ کر دیا تھا۔ اسے لگا جیسے کوئی لوہے کی بھاری بھرکم شے کھینچ رہا ہے۔ نووارد نہایت خاموشی سے اس کی جانب بڑھے چلے آ رہے تھے۔
اس احساس سے عنصر کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہونے لگی۔ اتنے خوفناک ماحول میں، ایک سنسان حویلی میں ایسے حالات کا سامنا کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ عنصر کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اب تک خوف سے ہی اس کی روح پرواز کر چکی ہوتی لیکن چونکہ وہ مضبوط اعصاب کا مالک تھا اور پھر ماسٹر حمید نے ہمیشہ اسے خطرات کا مقابلہ کرنے کا درس دیا تھا اس لیے وہ حتی الامکان کوشش کر رہا تھا کہ خوف کو اپنے آس پاس بھی نہ پھٹکنے دے۔ اس نے تہیہ کر لیا کہ اس کی موت اگر آج اور اسی جگہ لکھی ہے تو کیوں نہ بہادری سے اس کا سامنا کیا جائے۔ اس سوچ نے اس کی ہمت اور طاقت کو مزید تقویت دی۔
پراسرار قدموں اور بھاری بھرکم شے کی آواز دھیرے دھیرے اس کی سمت بڑھی چلی آ رہی تھی۔ بارش کے تندوتیز قطرے بدستور اس کے چہرے کو نشانہ بنائے ہوئے تھے۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ لیں اور اٹھنے کے لیے ہمت جمع کرنے لگا۔ اسی اثنا میں حیرت انگیز واقعہ ہوا۔ قدموں کی آواز اس سے چند فٹ کے فاصلے سے آگے بڑھ گئی تھی۔ غالباً نوواردوں نے اس کی موجودگی کو محسوس نہیں کیا تھا۔ عنصر نے بھی موقع غنیمت جانا اور اسی حالت میں بے سدھ لیٹا رہا۔ قدموں کی آواز اس سے چند فٹ کے فاصلے پر جا کر ٹھہر گئی۔ معاً فضا میں گڑگڑاہٹ کی تیز آواز گونجنے لگی جیسے کوئی بھاری سل سرک رہی ہو۔ پھر یکدم سارا منظر روشنی میں نہا گیا۔ اس نے گھبرا کر آنکھیں بند کر لیں۔ گڑگڑاہٹ کی آواز آہستہ آہستہ مدھم ہوتی چلی گئی اور جلد ہی اسے احساس ہوا کہ روشنی آنا بھی بند ہو گئی ہے۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو ہر طرف مکمل اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ بارش کی شدت کم ہو چکی تھی اور باران رحمت کے باقی ماندہ قطرے ہوا کے دوش پر ادھر ادھر لہراتے پھر رہے تھے۔
چاند اپنے پورے جوبن پر تھا۔ کچھ دیر یونہی رہنے کے بعد عنصر آہستگی سے اٹھا۔ ہر طرف ویرانی کا راج تھا۔ چلتے چلتے وہ حویلی کے مرکزی حصے میں آ گیا جہاں سے روشنی کا فوارہ پھوٹا تھا مگر اب وہ پراسرار روشنی غائب ہو چکی تھی۔ اس نے ٹارچ روشن کی اور نوواردوں کے قدموں کا جائزہ لیتے ہوئے مرکزی دروازے پر پہنچا۔ قدموں کے نشانات وہیں سے اندر آ رہے تھے۔ عنصر دوبارہ قدموں کے پیچھے چلتا گیا۔ قدموں کے نشان مرکزی دروازے کے ساتھ ملحقہ دیوار کے ساتھ ساتھ چند فٹ دور جا کر ختم ہو گئے۔ اس سے کچھ فاصلے پر ہی وہ جگہ تھی جہاں وہ پاو¿ں پھسلنے سے گرا تھا۔ آگے دیوار کے اوپر بیلوں کی شاخیں جھکی ہوئی تھیں جس سے اندازہ لگانا مشکل ہو رہا تھا کہ ان کے اندر کیا ہے۔ اُس نے بیلوں کو ہٹایا تو اندر سے دو قبریں برآمد ہوئیں۔ قدموں کے نشان پہلی قبر کے پاس آ کر ختم ہو گئے تھے۔ عنصر نے ٹارچ کی روشنی میں قبر کے سرہانے نصب کتبے کو پڑھنے کی کوشش کی تو اس پر جلی حروف میں لکھا تھا:
”نیک بخت زوجہ چوہدری عمردراز۔“ دوسری قبر چوہدری عمردراز کی ماں کی تھی۔
عنصر نے خوف سے جھرجھری لی۔ عنصر نوواردوں کو دیکھ نہیں سکا تھا لیکن اس کی دانست کے مطابق وہ ان قبروں کے پاس آ کر ہی غائب ہوئے تھے۔ قدموں کے نشانات بھی اسی بات کی گواہی دے رہے تھے۔
”کہیں نیلی حویلی میں سچ مچ بدروحیں تو نہیں رہتیں؟“
عنصر کے ذہن میں یہ سوال بجلی کی طرح کوندا۔
وہ پھٹی پھٹی نظروں سے کبھی قبروں اور کبھی ان بڑے بڑے قدموں کے نشانات کو دیکھ رہا تھا۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ ڈر انسان کی جبلت میں شامل ہے۔ ویران جگہیں ویسے بھی خوف و دہشت کی آماجگاہ ہوا کرتی ہیں اور اگر ان میں ایک آدھ قبر کی موجودگی کا انکشاف ہو جائے تو پھر ڈر آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہوتا ہے۔ انسان جتنا بھی بہادر ہو، ایسے انہونے واقعات کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوتا۔
عنصر بیلوں کو ہٹا کر باہر نکلا اور کچھ فاصلے پر موجود پتھر پر بیٹھ گیا۔ اتنا تو اس نے اماں کی زبانی سن لیا تھا کہ بڑی چوہدرانی اور چھوٹی چوہدرانی کی قبریں حویلی کے اندر ہیں لیکن ان کی زیارت اس نے آج کی تھی اور وہ بھی ان پراسرار حالات میں کہ بڑے بڑوں کے ہوش اڑ جائیں۔ اس کے ذہن میں بہت سے سوالات منڈلا رہے تھے۔ یہ سوچ کر اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا کہ نیلی حویلی کے پراسرار آسیب کے بارے واقعات ایسے ہی مشہور نہیں ہیں۔ پہلے پراسرار چیخ کے بعد کئی بدروحوں کی نیلی حویلی آمد پھر قبر کھلنے‘ اس میں سے روشنی پھوٹنے اور ان کے قبر کے اندر اترنے کے واقعے کا وہ بذات خود گواہ تھا۔ اگرچہ وہ قبر میں اترنے والی بدروحوں کو نہیں دیکھ نہیں سکا تھا کیونکہ وہ زمین پر گرا ہوا تھا مگر اس نے آج بہت سارے واقعات کا مشاہدہ کیا تھا۔ یہ بات اسے پریشان کر رہی تھی کہ کہیں گاو¿ں میں بدروحوں کے حوالے سے پھیلے واقعات درست تو نہیں ہیں۔ کہیں چھوٹی چوہدرانی اور بڑی چوہدرانی کی بدروحیں گاو¿ں والوں کو ڈرانے اور وارث اور اکرم کی موت کی ذمہ دار تو نہیں ہیں۔ یکے بعد دیگرے اس کے ذہن میں نیلی حویلی سے منسوب واقعات گردش کر رہے تھے۔
عنصر نے ذہن سے تمام خیالات کو جھٹک دیا اور دل ہی دل میں اللہ کو یاد کرنے لگا۔ ماسٹرحمید نے اسے مشکل وقت میں پڑھنے والی کچھ آیات اور دعائیں یاد کروائی تھیں۔ اس نے وہ تمام پڑھ ڈالیں۔ اس سے اسے دلی سکون محسوس ہوا اور کیوں نہ ہو بیشک اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھا کہ آسیبی مخلوقات اللہ کے نام سے گھبراتی ہیں اور اسی لیے سچے مسلمان کے پاس بھی نہیں پھٹکتیں۔
اس نے بلاارادہ نظر اٹھا کر چوہدرانی نیک بخت اور بڑی چوہدرانی کی قبروں کی سمت دیکھا۔ بارش رک چکی تھی لیکن ماحول پر عجیب سی سوگواری چھائی ہوئی تھی۔ اس نے کھڑے ہو کر کپڑے جھاڑے اور واپس جانے کے لیے عقبی دیوار کی سمت قدم بڑھا دیے جہاں سے وہ اندر داخل ہوا تھا۔ ابھی عنصر چند قدم ہی چلا تھا کہ یکدم اسے ایک آواز سن کر رکنا پڑا۔ گڑگڑاہٹ کی آواز دوبارہ ابھر رہی تھی۔ اس نے تیزی سے پیچھے مڑ کر قبروں کی سمت دیکھا مگر آواز وہاں سے نہیں آ رہی تھی۔ اس بار گڑگڑاہٹ کی آواز بہت مدھم تھی اور اس سے کچھ فاصلے سے آ رہی تھی۔ اس نے کان لگا کر سنا تو محسوس ہوا جیسے گڑگڑاہٹ کی آواز حویلی میں موجود کنویں سے بلند ہو رہی ہے اور اسی کی وجہ سے زمین میں ہلکا سا ارتعاش بھی پیدا ہو رہا تھا لیکن جتنی دیر میں وہ اس کے پاس پہنچا آواز آنا بند ہو چکی تھی۔
ویران کنویں کی منڈیرٹوٹی ہوئی تھی اور ایک جانب سے پیپل کا درخت کنویں میں سے ابھرا ہوا تھا۔ اس نے چاروں طرف گھوم کر اچھی طرح دیکھ لیا لیکن وہاں کوئی قبر نہیں تھی۔ اس کے خیال کے مطابق گڑگڑاہٹ کی آواز کا محور کنواں تھا مگر وہاں کچھ نہیں تھا۔ شش و پنج میں مبتلا وہ وہیں کھڑا تھا کہ زمین میں ہلکی تھرتھراہٹ پیدا ہوئی۔ عنصر تھوڑا پیچھے ہٹا اور غور سے آواز کا مرکز ڈھونڈنے لگا۔ گڑگڑاہٹ کی مدھم آواز پھر ابھر رہی تھی۔ اس نے جلدی سے کنویں میں جھانک کر دیکھا۔ آواز ویران کنویں کی تہہ سے نکل رہی تھی۔ اس نے ٹارچ روشن کی اور کنویں کی منڈیر پر کھڑے ہو کر تہہ میں روشنی ڈالی۔ کنواں کافی گہرا اور تاریک تھا۔ کنویں سے درخت نکل آنے کی وجہ سے اسے تہہ میں کچھ نظر نہ آیا البتہ زمین کی تھرتھراہٹ ختم ہو گئی اور گڑگڑاہٹ کی آواز بھی رفتہ رفتہ دم توڑ گئی۔
”یاخدا! یہ کیا ماجرا ہے؟“
عنصر مخمصے میں پڑ گیا۔(جاری ہے)
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 18 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں