اس رات گنگو واپس نہیں آیا ۔میں سمجھ گیا کہ اسکو خوف کھا گیا ہے ۔خوف اور حیرت کے ناگ نے تو مجھے بھی ڈس لیا تھا ۔ صبح ماں جگانے آئی اور میرے بستر پر بیٹھ گئی ۔پیار سے میرے بالوں کو سہلایا ۔مجھے ماں کے لمس کا احساس ہوگیا تھا لیکن میں نے آنکھیں یونہی موندھے رکھیں ۔بولی’’ کیا ہوا میرے بابر حسین کو ،اٹھ میرے لال سکول جانا ہے ‘‘
میں نے کروٹ بدل لی تو ماں نے میرا بازو ہلایا ’’ اٹھو بھی ۔دیر ہوجائے گی ‘‘
میں نے لیٹے لیٹے ہی کہہ دیا ’’ میں سکول نہیں جایا کروں گا‘‘
ماں چونک اٹھی’’ نہ میرا بچہ ۔ ایسے نہیں کہتے۔سکول نہیں جائے گا تو بڑا افسر کیسے بنے گا ‘‘
جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر 35 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔’’ ماں میں سکول نہیں جاوں گا بس ۔مجھے نہیں بننا افسر‘‘
’’ کیا ہوا تجھے ‘‘ ممتا کی ماری میری ستم رسیدہ ماں نے چونک کر میرا ماتھا چھوا اور جلدی سے بولی ’’ لگتا ہے تجھے بخار ہوگیا ہے ۔آگ میں تپ رہا ہے تو۔۔اسی لئے تجھے سمجھ نہیں آرہی کیا کہہ رہاہے ‘‘ ماں یکایک میری آنکھوں میں دیکھنے لگی ’’ تیری آنکھیں کیوں اتنی لال ہیں‘‘
’’ پتہ نہیں‘‘ میں ماں کو رات کا واقعہ نہیں سنانا چاہتا تھا ۔اس وقت تک میرا حال یہ تھا کہ پورے بدن میں ناتوانی تھی۔بدن ٹوٹ رہا تھا ۔ایسا لگ رہا تھا میرے اندر سے کوئی چیز نکل گئی ہے ۔ہلکا ہلکا سالرزا بھی محسوس ہورہا تھا۔
ماں اٹھی اور بولی’’ لگتا ہے تجھے نظر لگ گئی ہے ۔اچھا ٹھہر تو میں تیرے لئے نوروالاپانی لاتی ہوں ‘‘
اس سے پیشتر کہ ماں سے کچھ کہتا ہے وہ دیوانی سی ہوکر اپنے کمرے میں گئی اور چند منٹ پر گلاس میں پانی بھر کر لے آئی اور لبوں سے لگادیا ،اسکا پہلا گھونٹ ابھی حلق سے نہیں اترا تھا کہ بولی ’’ لے میرے چاند۔آیت الکرسی والا پانی پی لے ‘‘
یہ سنتے ہی مجھے زوردار ہچکی لگی ۔میرے سینے اور کانوں کے لووں میں چیونٹیاں سی رینگنے لگیں ۔بے چینی یکایک بڑھ گئی ،ایسا لگا جیسے آنکھیں چڑھ گئی ہیں ۔میں نے ماں کا ہاتھ پرے کیا ،اس نے پھر گلاس میرے لبوں کے ساتھ لگانا چاہا تو میں نے بہتیرا منہ آگے پیچھے کیا،مجھے پتا گرو نے بتایا تھا کہ نوری علم سے دور رہنا ہے، ورنہ تیرے اندر آگ لگ جائے گی۔میں نے تو کبھی بسم اللہ پڑھ کر کھانا نہیں کھایا تھا نہ پانی پیا تھا ۔اعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم پڑھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا حالانکہ ماں اپنے ہر کام سے پہلے یہ پاک کلمات پڑھا کرتی تھی۔ماں نے بسم اللہ شریف پڑھ کر گلاس میرے لبوں سے لگایا تو میری رگوں میں دوڑتی شیطانی قوتوں نے جیسے کلکاریاں مارنی شروع کردیں۔ان کے لئے یہ مقدس پانی موت کا پیامبر تھا ۔میں نے سر پیچھے کیا اور ناگواری سے کہا’’ ماں مجھے پانی نہیں پینا ‘‘
’’ نہ میرے لال ،پی لے ۔تجھے نظر لگی ہوئی ہے۔ابھی تیری طبیعت ٹھیک ہوجائے گی‘‘
’’ کہا ناں نہیں پینا ‘‘ اچانک میں خونخوار غراہٹ کے ساتھ بولا تو ماں نے پریشان ہوکر مجھے دیکھا ۔
’’ تو اپنے باپ کے کالے کرتوتوں کا پھل کھارہا ہے بابر حسین ۔لگتا ہے اس نے ہی تجھے جادو کردیا ہے ۔اس لئے تو نور والا پانی نہیں پینا چاہتا‘‘ ماں اتنا توسمجھ گئی تھی لیکن یہ نہ جان سکی کہ اسکا بابرحسین ببر بن چکا ہے ۔کالی دنیا کا اسیر ۔۔۔ جسے نور والا پانی نہیں ،گنگا کا گندہ پانی راس آتا ہے ۔۔میں نے گرم و گستاخ آنکھوں سے ماں کو دیکھا اور خاموش رہا ۔ماں میرے تیور بھانپ کر غصہ سے کانپی ،پہلی بار اسکو میں نے اس حالت میں دیکھا ۔اس نے پانی میرے سر پرانڈیل دیا اور پھر درود پاک پڑھتی باہر نکل گئی۔میں غصہ اور بے بسی کی چکی میں پستی ماں کے جذبات کو اس وقت نہیں سمجھ پایا تھا مگر اب یہ احساس کچوکے لگاتا ہے کہ میں نے ماں کے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا ۔
ماں تو چلی گئی تھی لیکن میری حالت بگڑ گئی ۔سر پر نور والا پانی تھا اور نیچے شیطانی آگ میں ڈھلا ہوا ماس۔۔۔میرا سر بھاری ہوگیا ،طبیعت پہلے سے زیادہ بے چین ہوگئی ،آخر میں بچہ ہی تو تھا ،یکایک گھبرا گیا اور بھاگتا ہوا باہر نکلا اور ماں ماں پکارنے لگا ۔میری آواز سنتے ہی ماں دیوانوں کی طر ح باہر نکلی ۔وہ اپنے دکھ اور آنسو بھول گئی اور میری حالت دیکھ کر پریشان ہوگئی ۔’’ کیا ہوا میرے بچے کو‘‘
’’ ماں سر چکرا رہا ہے ‘‘ میرے اندر کا معصوم سا بچہ بول اٹھا ۔نہ جانے اس وقت میری سرکش سوچیں کہاں چلی گئی تھیں ۔یقینی طور پر اس نوروالے پانی کا اثر تھا ۔
ماں نے مجھے اپنے سینے سے لگایا تو میرا پورا بدن کانپنے لگا ۔ماں تڑپ اٹھی اور اس ناتواں عورت نے مجھے اپنے ساتھ چمٹا کر اٹھا لیا۔میں حیران ہوتا ہوں کہ ماں بھی کتنی طاقتور مخلوق ہے ۔یہ عورت نہیں ہوتی ۔بس ماں ہوتی ہے ۔کوئی عورت ماں سے طاقتور نہیں ہوتی۔وہ بھول جاتی ہے کہ خود ایک ناتواں اور کمزور سی جان ہے لیکن اپنے سے قوی اور بھاری وزن بیٹے کو سینے سے لپٹا کر اٹھا لیتی ہے ۔ماں مجھے لیکر باہر نکلی تو اتفاق سے ہمارا ایک نیک دل ہمسائیہ مل گیا ۔ماں اسکی مدد سے مجھے محلے کی مسجد کے امام کے پاس لے گئی۔امام مسجد کو سب حافظ صاحب کہتے تھے،نام معلوم نہیں کیا تھا لیکن سب ان کا نام لینے کی بجائے احتراماً حافظ صاحب کہتے تھے ۔
حافظ صاحب اس وقت حجرے میں تھے ۔ماں نے انہیں میری کیفیت بتائی اور کہا ’’ مجھے لگتا ہے اس کو نظر لگ گئی ہے ‘‘
حافظ صاحب بڑے متقی درویش اور ماہر عملیات تھے۔میں اس وقت نیم غنودگی کی کیفیت محسوس کررہاتھا۔آنکھیں بوجھل ،بدن پر رعشہ ۔مگر دماغ میں جیسے کوئی جاگ رہا تھا ۔حافظ صاحب نے ہاتھ میں عصا تھا رکھا تھا ۔انہوں نے مجھے دیکھتے ہی چٹائی پر لٹا دیا اور کچھ پڑھ کر مجھ پرتین بار پھونک ماری تو میری لرزہ خیز حالت کو قرار آنے کی بجائے مزید بے چینی بڑھ گئی ۔میں ایک دم اٹھ بیٹھا اور انتہائی متوحش نظروں سے حافظ صاحب کو دیکھا اور چلایا’’ اوئے مولوی تو کیا سمجھتا ہے مجھے قابو کرلے گا ‘‘یہ آواز میری نہیں تھی لیکن میں جانتا تھا کہ میں ہی بول رہا ہوں ۔
’’ نہ میرا پتر حافظ صاحب سے ایسے بات۔۔۔‘‘
’’ آپ خاموش بیٹھیں بہن ‘‘حافظ صاحب نے ماں کو اشارہ کیا اور نہایت تحمل سے میری جانب دیکھا اور پھر کچھ پڑھا اور ساتھ ہی اپنے ہاتھ میں پکڑے عصا سے میری گرد دائرہ لگا دیا ۔انہوں نے میرے گرد حصار قائم کردیا تھا ۔مجھے نورانی علم سے باندھ دیا تھا’’ میں دیکھ رہا ہوں یہ تو نہیں تیرے اندر کوئی اور بول رہا ہے بابرحسین ‘‘ حافظ صاحب نے حصار قائم کرنے کے بعد چھوٹی سی عطر کی شیشی لی اور انگشت شہادت کی پور پر اسکا عطر لگا کرکچھ دم کیا اور ہاتھ میری جانب بڑھانا چاہا تو میں یکایک غضب ناک ہوگیا ۔پیچھے ہٹنا چاہا مگر حصار کی لکیر تک پہنچتے ہی بے بسی سے خود کو رگیدتا رہ گیا ،اس لمحہ انہوں نے عطر میرے نتھنوں پر لگا دیا ۔میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر روکنے کی لا کھ کوشش کی لیکن عطر کی مہک میرے نتھنوں سے ہوتی ہوئی میرے دماغ تک پہنچی تو میں بھی کسی اور دنیا میں پہنچ گیا (جاری ہے )