جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر 35
میں تو آخر بچہ تھا ۔طاقت کا ایک کھلونا میرے ہاتھ میں بم کی طرح آچکا تھا ،میں کسی ایسے انجانے خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہتا تھا کیونکہ میں نے ابھی زندگی میں وہ تجربہ حاصل نہیں کیا تھا جس کے بعد انسان برے کاموں سے تائب ہوجاتا ہے ۔گناہ کو گناہ سمجھتا ہے ۔مجھے تو گناہ کا بھی علم نہیں تھا کہ یہ ہوتا کیا ہے ۔بچے کے ہاتھ تو شغل لگتا ہے ۔جو چیز اس کے من کو بھلی لگے وہ اسکی تمنا کرتا ہے ۔کسی کام سے دوسروں کو خیرہ کرنے کا فن جان لے تو اسی کو دہراتا رہتا ہے ۔
تسکین کی مدد کس نے کی تھی ،مجھے اسکا کوئی شعور نہیں تھا کیونکہ میں نیکی کو نہیں جانتا تھا ،میں تو بری قوتوں کا اسیر تھا ،انہیں کے فیڈر پیتا تھا ،اندھیروں میں رہنے والے کو کیا معلوم نور کیا ہوتا ہے ۔ہاں سن گن تھی لیکن عملاً ابھی مجھے اس کا کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن جب گنگو کو اس طرح ہراساں دیکھا تو ایک بار میں سوچ میں پڑا لیکن دوجے ہی لمحے اس پر ہنس دیا ۔” گنگو اتنی سی بات پر تیری جان نکل گئی ہے ،کچھ نہیں ہوتا ،مندرے نے کوئی غلط منتر پڑھا ہوگا اس وجہ سے مارا گیا “
” تیری مت ماری گئی ہے ،مندرا منتر غلط نہیں پڑھ سکتا تھا ۔اگر اس نے پڑھ لیا تھا غلط منتر تو اسکی شکتی کو کالی شکتی آلیتی لیکن وہ قوت تو مہانوں کے مہان نے بھیجی تھی ببرے“ گنگو کے دماغ پر ابھی تک اس واقعہ کے اثرات تھے ۔
”اچھا یہ تو پھر بڑی اچھی بات ہے ۔اگر وہ ہمارے پاس آئے گا تو میں اس سے کہوں گا کہ مجھے بھی وہ منتر سکھا دو جس سے مندرا جل مرا ہے “ گنگو نے حیران ہوکر میرا منہ تکا ۔افسردگی اور خوف سے تھرتھراتے ہوئے میرے کاندھے سے اچھل کر فرش پر کھڑا ہوگیا ۔دونوں ہاتھ پشت پر باندھے اور ٹہلنے لگا ۔” وہ آئے گا ،لازمی آئے گا ،مجھے بھی جلا ڈالے گا اور تجھے بھی ،تجھے کوئی منتر نہ سکھائے گا،سیدھا آگ میں پھینکے گا “
”میںتو وہاں تھا ہی نہیں ،اسکو کیسے پتہ چلے گا کہ ہم تسکین کو لیکر گئے تھے“ میں نے اسے تسلی دی۔
” وہ سب جانتا ہے۔تسکین نے جس درد سے اللہ کو پکارا ،اسکا بندہ زمین پر آگیا اور ........“ گنگو کی بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ اچانک کمرے سے باہر کھٹکا ہوا اور وہ کسی اسپرنگ کی طرح اچھل کر میرے کاندھے پر بیٹھ گیا ” وہ آگیا “اس نے دبی اور شوریدہ آواز میں کہا
”کہاں ہے ؟“ میں پوچھا ۔
” میں دیکھ رہا ہوں ۔اسکے سفید اور لمبے لمبے پر ہیں۔چہرے پر سفید لمبی داڑھی ہے۔آنکھیں سورج کی طرح روشن ہیں ۔ماتھے پر چاند روشن ہے ،دور تک نور کا سیلاب ہے ،وہ ا چکاہے ببرے اور میں جارہا ہوں ........“ یہ کہتے ہی وہ جھپکی مار کر غائب ہوگیا ۔
” اوئے گنگو........“ میں نے اسے پکارا لیکن وہ مجھے پریشان کر کے جاچکا تھا ۔اس وقت بھی میرے دل میں کسی قسم کا خوف نہیں پیدا ہوا ۔میں نے آرام سے کمرے کا دروازہ کھولا ۔کمرے کے باہر ڈیوڑھی کا بلب روشن تھا ۔سناٹا اور خاموشی تھی ،ویسی جیسے پہلے ہوا کرتی تھی ،مجھے کسی وجود کی چمک دھمک دکھائی سنائی نہیں دی۔ماں اپنے کمرے میں تھی ،وہ جاگ رہی ہوگی ،رات کے اس پہر وہ مصلیٰ بچھا لیتی تھی۔
جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر 34
میں نے دل میں گنگو کو کوسا کہ اسقدر بزدل ہوگیا ہے وہ .... میں واپس کمرے کی طرف بڑھا ،میں اب سونا چاہتا تھا ،تھکن اعصاب پر نازل ہورہی تھی ۔میں نے کمرے کا دروازہ کھولا اور پھر حیرت کا اتنا زور دار جھٹکا مجھے لگا کہ میں الٹ کر پیچھے کو گرتے گرتے بچا .... کمرہ روشنی میں نہایاہواتھا ۔اتنی تیز اور دودھیا مہکتی روشنی میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔اس میں راحت اور نرمی تھی۔دروازہ کھلا تھا مگر کمرے کی تیز دودھیا روشنی کی ایک کرن بھی کمرے سے باہر نہیں پڑ رہی تھی ۔میں سنبھل کر کھڑا ہوا ،اس وقت گنگو کا ہر لفظ میرے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برسنے لگا ۔”تو کیا وہ آچکا ہے ۔“
” اندر آجا چھوٹے شیطان “ کمرے سے انتہائی بارعب آواز سنائی دی ۔
بے اختیار میں نے دہلیز پار کی ۔میں نے خود کو روشنی کے اجالے میں پایا ۔پہلے آنکھیں چندیائیں ،پھر دیکھا میرے سامنے سفید چمکدار کھلے لباس میں ایک نورانی وجود کھڑا تھا ۔اسکے چہرے پر محبتوں کا نور تھا لیکن آنکھوں میں بڑی سختی اور سرخی تھی ۔اس سمے مجھے اپنے وجود میں بڑی سرسراہٹ محسوس ہوئی ،کوئی ایسے میرے بدن سے نکل رہا تھا جیسے رسیوں میں بندے جانور خوف سے بھاگنے لگتے ہیں ۔
” تو نے بڑا غلط کام کیا ہے ،چاہئے تو یہ تھا کہ تجھے بھی اس انگشتئے کے ساتھ جلا کر مارڈالوں ۔لیکن اللہ کی مشیت ہوگی تو تیرا وقت بھی پورا ہوجائے گا ۔تونے ایک نیک اور پاکیزہ لڑکی کو گمراہ کرنے کا جرم کیا ہے اسکی سز ا تمہیں ملے گی ،تم ساری عمر جلو گے ،تڑپو گے ،بیٹی کا درد سمجھو گے تو پھر تمہیں تسکین یاد آئے گی۔تمہیں ایک سبق دے رہا ہوں کہ یہ سارے شیطانی کام چھوڑ دے اور اپنی ماں کا بیٹا بن جا ۔تیرا باپ شیطان کا چیلا ہے ۔اس نے تجھے بھی شیطان بنا دیا ہے ۔لیکن کسی کی دعا ہے جو رب ذوالجلال سے تیری زندگی مانگتی رہتی ہے، باز آجا بابرحسین۔آج میں تمہیں یہ ہی سبق دینے آیا ہوں ۔توبہ کرلے ۔ توبہ کرنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے ،ابھی بھی وقت ہے “
میں نورانی وجود کی کشش میں سن ہوکر رہ گیا تھا ۔اسکی باتیں میرے دل پر اثر کرنے لگی تھیں۔وہ چلا گیا ،کمرہ پھر اندھیرے میں ڈوب گیا ،میرا جسم بے جان سا ہوگیا تھا،میں بستر پر ڈھ گیا ،ہنوز بت بن کر ساکت سوچے جارہا تھا کہ یہ کیا ہوا ،وہ کیا کہہ گیا ،میں کس آگ میں جلوں گا ۔اگرچہ مدتوں بعد احساس ہوا ہے کہ وہ آگ دراصل کون سی آگ تھی تو اب یاد کرکے سینہ غم اور شرم سے پھٹے جاتا ہے ،میں گناہوں کی سزا کاٹ رہا ہوں ۔میں توبہ اور صراط مستقیم کا راستہ نہ چن پایا اور گناہوں کی دلدل میں اترتا ہی چلا گیا تھا (جاری ہے )
جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر 36 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں