اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر30

Oct 14, 2018 | 01:33 PM

ایک دفعہ حضرت مولانا رومؒ بازار میں جا رہے تھے۔ لڑکوں نے دیکھا تو ہاتھ چومنے کے لیے بڑھے۔ آپ کھڑے ہوگئے۔ لڑکے ہر طرف سے آتے اور ہاتھ چومتے جاتے، مولانا بھی ان کی دلداری کے لیے اُن کے ہاتھ چومتے۔
ایک لڑکا کسی کام میں مشغول تھا۔ اس نے کہا۔ ’’ مولانا ! ذرا ٹھہریئے میں کام سے فارغ ہولوں۔‘‘مولانا اس وقت تک وہیں کھڑے رہے۔ جب تک لڑکا اپنے کام سے فارغ نہ ہوگیا جب وہ فارغ ہوا تو اس نے آگے بڑھ کر دست بوسی کی عزت حاصل کی۔
***

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر29پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضرت فضیل بن عیاضؒ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ کوفہ کی جامع مسجد میں تین دن رہا ۔ ان تین دنوں میں نہ میں نے کچھ کھایا اور نہ ہی کچھ پیا۔ بھوک اور پیاس نے مجھے شکستہ حال کر دیا۔ اسی حالت میں بیٹھا تھا کہ ایک دیوانہ مسجد کے دروازے سے نمودار ہوا۔ اس نے اپنے ایک ہاتھ میں بڑا پتھر پکڑ رکھا تھا۔ اور گلے میں طوق پڑا تھا۔
لڑکے اُس کے گرد تھے۔ وہ دیوانہ مسجد میں چکر کاٹنے لگا۔ جب وہ میرے سامنے آیا تو مجھے گھورنے لگا۔ میں اپنے جی میں گھبرایا اور دل میں کہا۔’’ خدا وند! آپ نے مجھے بھوکا بھی رکھا اور پھر ایسے شخص کو مجھ پر مسلط کر دیا جو مجھے قتل بھی کر سکتا ہے۔‘‘
میں اسی سوچ میں تھا کہ دیوانے نے میری جانب دیکھتے ہوئے یہ شعر پڑھا۔
ّ(ترجمہ) تجھ میں صبر کے ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ اے کاش مجھے خبر ہوتی کہ تیرے صبر کا کوئی اختتام بھی ہے۔
یہ سن کر میرے ہوش ٹھکانے لگے اور میرا گھبرانا جاتا رہا۔ میں نے اُس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ ’’ اے مخدوم ! اگر امید نہ ہوتی ، تو میں صبر نہ کرتا۔‘‘
میں نے جواب میں کہا۔ ’’ میری اُمید کی جائے قرار وہی ہے جہاں عارفین کے انکار قرار پاتے ہیں۔‘‘
وہ بولا۔ ’’ اے فضیل ! تم نے خوب کہا ۔ بے شک عارفین کے قلوب کی آبادی افکار ہیں اور حزن و غم اُن کے اوطاق ۔ میں نے اُس حزن کو پہچان کیا ہے۔ اس لیے اس سے اُنس حاصل کیا ہے۔ عارفین کے دل انوارِ الٰہی میں ڈوبے ہوئے اور اُن کی ارواح ملکوتِ اعلیٰ میں معلق ہیں۔‘‘
حضرت فضیل فرماتے ہیں کہ اُن کے متاز کلام نے مجھے ایسا بے خوب بنا دیا کہ اس دن میں متواتر بے آب و دانہ پڑا رہا۔
’’ اسے بڑی خوش حالی نصیب ہو جو مخلوق سے وحشت پکڑے اور حق سے اُنس حاصل کرے۔ ‘‘
***
ایک مرتبہ حضرت عثمان حیریؒ اپنے مریدوں کے ہمراہ بازار میں تشریف لے جا رہے تھے کہ کسی نے اپنے مکان کی چھت سے راکھ پھینکی جو پوری کی پوری آپ پر پڑی ۔ یہ دیکھ کر مریدوں نے بہت پیچ و تاب کھائے۔مگر آپ نے فرمایا۔ ’’ یہ بہت قابلِ شکرامر ہے جو سرآگ کا سزا وار تھا اس پر صرف راکھ ہی پڑی۔ ‘‘
***
محمد بن صباح فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم بصرہ میں تھے کہ وہاں بارش نہ ہوئی۔ اس پر بصرہ والے دعائے باراں کے لیے شہر سے نکل کر جنگل میں آئے۔ جنگل میں پہنچ کر کیا دیکھتے ہیں کہ سعدون مجنوںؒ سرِ راہ بیٹھے ہیں۔ جب اُنہوں نے لوگوں کا ہجوم دیکھا تو اُٹھ کر کھڑے ہوگئے اور پوچھا کہ تم لوگ یہاں کیوں آئے ہو؟
میں نے آگے بڑھ کر کہا۔ ’’ بارش کی دعا کے لیے۔‘‘
اس پر انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ ’’ کیا کدورتِ ارضی اور نفرت سے پاک دلوں کے ساتھ آئے ہو یا خالی دلوں کے ساتھ ۔‘‘
میں نے جواب دیا۔ ’’ ہم کدورت ارضی اور نفرت و حقارت سے پاک دلوں کے ساتھ حاضر ہوئے ہیں۔ ‘‘
آپ نے فرمایا۔ ’’ اگر یہ بات ہے تو بیٹھو اور دعا کرو۔ ‘‘
اس پر ہم سب بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنے لگے ۔ دعا کرتے کرتے دن چڑھ آیا۔ دھوپ چمکنے لگی ، کہیں ابر کا نام و نشان تک نظر نہ آیا۔ بلکہ آسمان پہلے سے بھی زیادہ صاف دکھائی دینے لگا۔ سورج کی تیزی بڑھ گئی۔ سعدونؒ نے یہ حالت دیکھ کر ہماری طرف دیکھا۔ پھر فرمایا۔’’ ارے بے ہودہ لوگو! اگر تمہارے دل کدورتِ ارضی اور نفرت و حقارت سے پاک ہوتے تو کیا اب تک بارش نہ ہوجاتی۔‘‘
اس کے بعد آپ خود اُٹھے ، وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑھی ۔ نماز پڑھنے کے بعد آسمان کی جانب کچھ دیکھ کر فرمایا جسے میں مطلق نہ سمجھا۔
خدا کی قسم سعدون نے ابھی اپنا کلام ختم بھی نہ کیا تھا کہ بادل گرجا ، بجلی چمکی اور خوب زور سے بارش ہوگئی۔ پھر ہم نے سعدونؒ سے دریافت کیا کہ آپ نے آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے کیا کہا تھا۔ ‘‘
آپ نے فرمایا۔ ’’ ہم نے جو کچھ بھی کہا اور کیا محض اپنے رب پر توکل کرتے ہوئے کہا اور کیا۔ ‘‘

***
حضرت با یزیدہ بسطامیؒ نے کسی امام کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب آپ نماز ادا کر چکے تو امام نے آپ سے پوچھا۔ ’’ آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے؟‘‘اس پر آپؒ نے فرمایا۔ ’’ پہلے میں اپنی نماز کی قضا کرلوں اس کے بعد تمہیں جواب دونگا ۔ ‘‘
امام نے کہا۔ ’’ آپ نماز کی قضا کیوں کر رہے ہیں؟‘‘
آپ ؒ نے فرمایا۔ ’’ جو رزق دینے والے سے آگاہ نہیں ، اس کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں۔ اس لیے میں جو نماز تیرے پیچھے پڑھی، وہ قضا ہوگئی۔ دوبارہ نماز پڑھنا فرض ہوگیا ہے۔ ‘‘
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)

مزیدخبریں