اللہ والوں کے قصّے۔۔۔قسط نمبر 31

اللہ والوں کے قصّے۔۔۔قسط نمبر 31
اللہ والوں کے قصّے۔۔۔قسط نمبر 31

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حضرت ابراہیم بن ادھمؒ موسمِ سرما میں ایسے پانی سے نہائے جو برف کی مانند ٹھنڈا اور یخ تھا۔ اس کے بعد پوری رات عبادت میں مشغول رہے اور صبح کو جب شاید سردی محسوس ہوئی تو آپ کو آگ کا خیال آیا اور ابھی اسی خیال میں تھے کہ آپ کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے پشت پر گرم پوستین ڈال رہی ہو جس کی وجہ سے آپ سکون کی نیند سوگئے اور بیدار ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا اژدہا ہے ۔ جس کے وجود کی گرمی نے آپ کو سکون بخشا تھا۔ آپ اسے دیکھ کر خوفزدہ ہوگئے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا۔
’’ اے باری تعالیٰ ! تو نے اس اژدہے کو میرے لیے سکون کا سبب بنایا لیکن اب یہ قہر کے روپ میں میرے سامنے کھڑا ہے۔ ‘‘
آپ نے اتنا ہی کہاتھا کہ اسی وقت اژدہا زمین پر پھن مارتا ہوا غائب ہوگیا۔
***
ایک دن حضرت ابراہیم بن ادھمؒ کو کھانا نصیب نہ ہوا۔ آپ نے شکرانے کی چار سو رکتیں ادا کیں اور جب اسی طرح سات دن گزر گئے اور آپ کے ضعف میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے بھوک کااظہار کیا چنانچہ اُسی وقت کہیں سے ایک نوجوان آیا اور آپ کو عزت کے ساتھ اپنے مکان پر لے گیا۔ پھر اس نے عرض کیا ۔ ’’ حضور ! میں نے آپ کا دیرینہ غلام ہوں اور میری تمام جائداد آپ ہی کی ملکیت ہے۔ ‘‘ یہ سن کر آپ نے اسے آزاد کر دیا اور تمام جائداد بھی اسی کے حوالے کر دی اور اس کے بعد اپنے دل میں عہد کر لیا کہ اب کبھی کسی سے کچھ طلب نہ کروں گا کیونکہ روٹی کے ایک ٹکڑے پر پوری دنیا پیش کر دی گئی۔
***

اللہ والوں کے قصّے۔۔۔قسط نمبر 30پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

حضرت سہیل بن عبداللہ تستریؒ فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ حضرت ابراہیم بن ادھمؒ کے ہمراہ سفر کر رہا تھا کہ میں بیمار پڑگیا۔ اس کے پاس جو کچھ تھا وہ سب میرے بیماری پر خرچ کر دیا اور جب سب چیزیں ختم ہوگئیں تو اپنا خچر بھی فروخت کر کے میری بیماری پر خرچ کیا اور جب اللہ نے مجھے صحت دی اور میں نے خچر کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا۔ ’’ وہ تو میں نے فروخت کر دیا۔ ‘‘
میں نے عرض کی۔ ’’ میں سفر کس طرح کر سکوں گا۔ ‘‘
آپ نے فرمایا ۔ ’’ میرے کاندھوں پر ۔‘‘ آپ یقین کریں حضرت ابراہیم بن ادھمؒ نے مجھے اپنے کاندھوں پر بٹھا کر تین منزل تک سفر کیا۔
***
ایک دن حضرت ذوالنون مصریؒ پہا ڑپر سے نیچے اتر رہے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک اندھا پرندہ درخت پر سے اُتر کر زمین پر آ بیٹھا ہے۔ آپ نے اُسی وقت اپنے دل میں خیال کیا کہ نہ جانے اس کو رزق کہاں سے میسر آتا ہوگا؟ لیکن آپ نے دیکھا کہ اس پرندے نے اپنی چونچ سے زمین کریدی جس میں سے ایک سونے کی پیالی برآمد ہوئی اور اس میں تل بھرے ہوئے تھے۔ اور دوسری چاندی کی پیالی گلاب کے عرق سے لبریز برآمد ہوئی۔ چنانچہ وہ پرندہ تل کھا کر اور گلاب پی کر درخت پر جا بیٹھا اور پیالیاں غالب ہوگئیں۔
یہ دیکھ کر آپ نے بھی اُسی دن سے توکل پر کمر باندھ لی اور یقین کر لیا کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والے کو کبھی تکلیف نہیں ہوئی۔
***
حضرت ابو الحسن خرقانی ؒ کے ایک اور بھی بھائی تھے۔ اگر آپ رات کو عبادت میں مشغول ہوتے تو دوسرے بھائی پوری رات اپنی ماں کی خدمت گزاری کرتے رہتے۔ ایک راہ جب دوسرے بھائی کا نمبر ماں کی خدمت کرنے کا تھا تو اس نے آپ سے کہا۔
’’ اگر آپ آج میرے بجائے والدہ کی خدمت میں رہ جائیں تو میں رات بھر عبادت کرلوں۔‘‘
چنانچہ آپ نے ان کو اجازت دے دی اور خود والدہ مبارک کی خدمت میں رہے لیکن اُسی شب عبادت کے دوران آپ کے بھائی نے یہ ندا سنی ۔ ’’ ہم نے تمہارے بھائی کی مغفرت کرنے کے ساتھ تمہیں بھی اُن کے طفیل میں بخش دیا۔‘‘
یہ سن کر انہیں سخت حیرت ہوئی اور خدا سے عرض کیا۔ ’’ یا اللہ ! میں تو تیری عبادت کررہا ہوں اور وہ ماں کی خدمت گزاری میں ہے پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ میری مغفرت کی بجائے اس کی مغفرت کر کے مجھے اس کا طفیل بنایا گیا‘‘
ندا آئی ۔ ’’ ہمیں تیری عبادت کی حاجت نہیں بلکہ محتاج ماں کی خدمت کرنے والے کی اطاعت ہمارے لیے خوشی کا سبب ہے۔ ‘‘

(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)