پاکستان اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے وہ یقیناً ہماری سیاسی تاریخ میں پہلی بار دیکھے جا رہے ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ نون،یہ دونوں پرانی سیاسی جماعتیں ہیں جو اپنی باہمی لڑائی کی وجہ سے کئی بار مارشل لاء کا نفاذ دیکھ چکی ہیں۔ان جماعتوں کے قائدین کو پتا ہے کہ سیاسی قوتوں کوکرش کرنے اور سیاسی قوتوں کی آپس میں لڑائی کے کیا نتائج نکلتے ہیں مگرافسوس وہ بھی موجودہ حالات میں صرف پوائنٹ سکورنگ کے چکر میں ہیں۔ہاں اس بات پر،پورا پاکستان متفق ہے کہ تخریب کاری اور غنڈہ گردی میں ملوث سہولت کاروں،منصوبہ سازوں اورمجرموں کو اُن کی سیاسی مضبوطی اور عوامی مقبولیت کے باوجود سزا ملنی چاہیے۔قابل افسوس بات یہ ہے کہ سیاست دان تو پہلے ہی بدنام تھے اب ریاستی اداروں کے دامن پر بھی پسندیدگی اور اقرباء پروری کے داغ لگ رہے ہیں۔ان الزامات میں کتنی حقیقت ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر دوسری جانب یہ بھی سچ ہے کہ کہیں نہ کہیں اداروں کے سربراہان کی جانب سے بھی دانش مندانہ اقدامات کی کمی رہی ہے۔ان دنوں سخت تنقید کا نشانہ بننے والے ادارے، عدلیہ نے ماضی میں نامساعد حالات میں بھی عمدہ اور بہتر کارکردگی دکھائی ہے اور ہماری عدالتی تاریخ میں کئی نام سنہری حروف سے لکھے گئے ہیں جنہوں نے وقت کے جابروں کے آگے سرنگوں نہیں کیا اورانصاف کا بول بالا رکھا مگر دوسری جانب سپریم کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق، پچھلے ایک سال کے دوران سب سے زیادہ سیاسی مقدمات سننے والے پہلے تین معزز جج صاحبان وہ ہیں جن پر سابقہ پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے جانبداری کے الزامات لگائے گئے تھے جبکہ بادی النظر میں باقی کے غیر متنازعہ سینئرجج صاحبان کو جان بوجھ کرسیاسی مقدمات سے دور رکھا گیا حتیٰ کہ نئے نامزد چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ کو کسی بھی بنچ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔اسی طرح عوامی تنقید کا شکار دوسرا ریاستی ادارہ پاک فوج ہے جس نے ریاست،آئین اور عوام کی جانب سے عائد کردہ ذمہ داریوں کو ہر قیمت پر پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔پاکستانی افواج قربانیوں کی ایک لمبی داستان کی امین ہے ہماری خوش نصیبی ہے کہ پاک فوج کو ہمیشہ سے دلیر،امن پسند اور پیشہ ور سپاہی کی قیادت دستیاب رہی ہے۔
موجودہ سپہ سالار جنرل عاصم منیر بھی اپنی ذمہ داریاں احسن انداز میں ادا کر رہے ہیں وہ ہر لمحہ اور ہر جگہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے میدان عمل میں مصروف نظر آتے ہیں۔جنرل عاصم منیر اپنی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ عمدہ سفارت کاری کرتے ہوئے پاکستان کے ہمسائیہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے میں بھی اہم کردار اداکر رہے ہیں۔پاکستانی قوم کواپنے جوانوں پر فخر ہے کہ وہ ہمارے آرام کے لیے خود بے آرام ہوتے ہیں،ہماری نیند کے لیے، وہ جاگتے ہیں اوراپنی جانوں کے نذرانے دے کرملکی سرحدوں کی نہ صرف حفاظت کر رہے ہیں بلکہ ادویات کی فراہمی،زلزلوں سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں،الیکشن کو پُرامن بنانا،دہشت گردی کے خلاف جنگ، شاہراؤں کی تعمیر،سیلاب کے دنوں میں امدادی سرگرمیاں سمیت ہر مشکل میں قوم کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔قارئین! حالت جنگ ہو یا امن،پاک افواج جس مستعدی اور جاں فشانی سے وطن عزیز کے دفاع کے لیے سربکف ہے وہ پوری قوم کے لیے باعث اطمینان اور سرمایہ افتخار ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ ماضی میں بعض سربراہان کی ذاتی دلچسپی اورمفادات کی وجہ سے پاکستانی فوج کسی نہ کسی حد تک پسندیدہ سیاسی قوتوں کی پشت پناہی،سزا و جزا کے عمل میں دخل اندازی اور سیاسی انجینئرنگ میں شامل رہی ہے ا ور اس وقت عوام، افواج پاکستان کے اس کردار سے نالاں ہیں۔
پاکستان کو صرف اندرونی محاذ پر پریشانی نہیں بلکہ بیرونی محاز پر بھی خطرات منڈلا رہے ہیں عالمی طاقتوں کی پاکستانی سیاسی معاملات میں بھرپور دلچسپی ہے کیونکہ جغرافیائی طور پر پاکستان کا محل وقوع بہت اہم ہے ہمارے پڑوس میں دنیا کی دو بڑی معاشی قوتیں آباد ہیں۔چند ماہ پہلے عالمی قوتوں کی جانب سے ہماری سیاسی قوتوں کو یہ بیانیہ دیا گیا کہ پاکستان جلد ڈیفالٹ کر جائے گا اور دوسرا سری لنکا بن جائے گا۔بدقسمتی سے ہماری عاقبت نا اندیش سیاسی قوتوں نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے اس بیانیے کو عوام میں خوب کیش کروایا جبکہ اس میں حقیقت کچھ نہ تھی اس بیانیے کا مقصد سیاسی انتشار پھیلانا اور عوام میں ہیجان پیدا کرنا تھا کیونکہ عالمی طاقتیں اپنے مذموم مقاصدکے حصول کے لیے پاکستان کو چاروں طرف سے دباؤ میں لانا چاہتی تھیں۔یہ تو اللہ پاک کے کرم، آئی ایم ایف اور دوست ممالک کے تعاون سے حالات بہتر ہوئے مگر عوام کواس کی بھاری قیمت، مہنگائی کی صورت میں ادا کرنا پڑرہی ہے۔عالمی طاقتوں کی جانب سے پاکستان کو ڈیفالٹ قرار دلوانے میں ناکامی کے بعد،ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو چکا ہے۔ملک میں سیاسی افراتفری میں اضافہ کرنے کے لیے دفاعی اداروں اورعدالتوں کو متنازعہ بنایا جارہا ہے،عبوری صدر کے آئینی کردار کو سیاسی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے،کل کے اتحادی،آج ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں اور لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہونے کا بیانیہ بنایا جا رہا ہے۔ ان مشکل حالات میں جنرل عاصم منیر نے جس طرح کے اقدامات کئے ہیں اُن سے امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان جلد اپنے پاؤں پر کھڑاہو جائے گا چنانچہ اس مشکل وقت میں پاکستان کی تمام سیاسی قوتیں کو عقل و دانش سے کام لینا ہوگا وگرنہ ریاستی اداروں کو جمہوریت پسند ہوتے ہوئے بھی ملکی سالمیت کو محفوظ رکھنے کے لیے سخت اور غیر مقبول فیصلے کرنے پڑیں گے۔بد قسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت میں بلوغت کی کمی رہی ہے۔ اُن کا غیرجمہوری رویہ، ملوکیت کی ہی ایک شکل ہے،جس پر صرف جمہوریت کا ماسک چڑھادیا گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو چاہیے کہ وہ نسل در نسل قیادت والے فارمولے کو چھوڑ کر حقیقی جمہوریت کے مطابق اپنی سیاسی جماعتوں کی ازسر نو تشکیل کریں اور ملک کے استحکام اور سلامتی کے لیے افواج پاکستان کے سپہ سالار کا ساتھ دیں کیونکہ اسی میں ہماری فلاح ہے۔ ضرورت اب اس بات کی ہے کہ جمہوری سوچ رکھنے واے سیاست دان،کرپٹ اور بے ایمان سیاست دانوں سے اپنے راستے الگ کر لیں کیونکہ جمہوریت کے بچاؤ اورپنپنے کا واحد راستہ یہی ہے۔