پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ قسط نمبر 28

پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی ...
پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ قسط نمبر 28

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بھٹو صاحب سے ملنے پر پابندی: 6فروری1979 ء کو سپریم کورٹ نے بھٹو صاحب کی اپیل مسترد کر دی تھی۔ اس دن سے بھٹو صاحب کے بارے میں جیل سٹاف کا رویہّ بدلنے لگا تھا۔ جب رحم کی اپیل بھی مسترد کر دی گئی تو ہر شخص کا روّیہ بالکل بدل گیا۔ اس کے بعد جب بھی میں بھٹو صاحب سے ملا ‘ انہوں نے یہی گلا کیا کہ ان کی بے عزتی ہو رہی ہے۔ اور عام وارڈر بھی ذرہ برابر پرواہ نہیں کرتا۔ میں نے کوشش کی کہ جیل حکام اتنی سختی نہ کریں لیکن سب نے آنکھیں پھیر لی تھیں۔ میں نے اشارتاً بھٹو صاحب کو بتانے کی کوشش لیکن وہ ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے کہ یہ ان کی عزت کا معاملہ ہے۔ وہ جواب میں کہا کرتے تھے کہ ان کے متعلق فیصلہ جو بھی ہو‘ کم از کم جیل سٹاف تو ان سے اس طرح کا برتاؤ نہ کرے۔ مارچ1979ء کے مہینے میں انہوں نے سیل سے باہر نکلنا بھی کم کر دیا تھا۔ مارچ کے چو تھے ہفتے میں مجھے اور چودھری یار محمد کوایس ایم ایل اے نے اپنے صدر دفتر بلایا جہاں سپرنٹنڈنٹ جیل نے انہیں علیحدگی میں بتایا کہ نامعلوم کرنل رفیع بھٹو صاحب کے ساتھ کیا باتیں کرتا رہتا ہے اور نہیں معلوم ان کے درمیان کیا کچھڑی پک رہی ہے کیونکہ کرنل رات کئی کئی گھنٹے ان کے سیل میں رہتا ہے اور عموماً بعد دوپہربھی ان سے باہر صحن میں ملاقات کرتا ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ قسط نمبر27 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں


ایس ایم ایل اے نے مجھ سے پوچھاتو میں نے انہیں بتایا کہ بھٹو صاحب میری راست نگرانی میں ہیں اور جب میں ان کے پاس ہوتا ہوں تو میں سمجھتاہوں کہ یہ ذمہ داری بہت احسن طریقے سے پوری کی جا رہی ہے۔ دراصل ایس ایم ایل اے صاحب کو میرے بھٹو صاحب کے ساتھ اتنا وقت گزارنے کی خبر ہی نہ تھی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ کرنل رفیع آپ کو کس نے حکم دیا کہ آپ بھٹو صاحب کے ساتھ ملا کریں۔ میں نے انہیں بتایا کہ گزشتہ ایس ایل ایم اے ( بریگیڈئیرایم ممتاز ملک) نے مجھے کہا کہ میں کبھی کبھار اندر جا کربھٹو صاحب کو ضرور دیکھا کروں اور اس دن سے میں بھٹو صاحب سے ہمیشہ ملتا رہا ہوں‘ وہ حیران ہو گئے۔
6 فروری کے واقعہ ( جب میں نے بیگم بھٹو صاحبہ کو جیل کے اندر آنے کی اجازت دی تھی) کے بعد مجھ پر انہیں کچھ شک تو ہو ہی گیا تھا انہوں نے اسی وقت مجھے اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو سختی سے منع کر دیا کہ ہم دونوں میں سے کوئی بھی بھٹو صاحب سے اکیلا نہیں مل سکتا اور اگر ضرورت ہوئی تو ان کے حکم پر ہم دونوں اکٹھے جا کر بھٹو صاحب سے ملیں گے اور ضروری کارروائی کے بعد سیکیورٹی وارڈ سے باہر آ جائیں گے۔
اس دن سے میرا اکیلے بھٹو صاحب کے سیل میں جانا بند ہو گیا۔ مجھے اس حکم پر افسوس ہوا کیونکہ جیل حکام کا یہ خیال تھا کہ میں شاید مارشل لاء حکومت کا خاص الخاص نمائندہ تھا جو تقریباً سال بھر بھٹو صاحب کے ساتھ کھلا ملتا رہا۔ مجھے افسوس اس بات پر ہوا کہ میں بھٹو صاحب کے آخری چند دنوں میں ان سے اکیلا نہ مل سکا اور شاید وہ یہ سوچتے ہوں گے کہ میں بھی دوسروں کی طرح خود غرض ہی نکلا۔ بہرحال ہفتہ بھر میں ان کو پھانسی پر لٹکادیا گیا اور میری یہ تاریخی ڈیوٹی جیل کے اندر ختم ہو گئی۔
مقدمے کے ساتھی قیدی: نواب محمد احمد خاں قصوری کے قتل کے مقدمے میں بھٹو صاحب کو پنڈی جیل منتقل کرنے کے چند روز بعد ان کے مندرجہ ذیل ساتھی قیدیوں کو بھی راولپنڈی جیل میں لایا گیا اور وہیں قید رکھا گیا۔
ا۔ میاں غلام عباس سابقہ ڈائیریکٹر جنرل فیڈرل سیکیورٹی فورس
ب۔ صوفی غلام مصطفی
ج۔ رانا افتخار ان سب کا تعلق فیڈرل سیکیورٹی فورس سے تھا(ب‘ج‘د)
د۔ ارشد اقبال
ان قیدیوں کو سیکیورٹی وارڈ سے ملحق جنوب کی جانب مگر کچھ فاصلے پر قیدیوں کی بیرک میں الگ الگ کوٹھڑیوں میں رکھا گیا تھا۔ یہ بیرک بھی باقی جیل کی طرح سیکیورٹی وارڈ سے کانٹے دار تاروں وغیرہ کے ذریعے الگ کر دی گئی تھی۔ میاں غلام عباس ایک پرانے پولیس افسر تھے۔ انہوں نے اس مقدمے میں مسٹر قربان صادق اکرام کو اپنا وکیل مقرر کیا ہوا تھا۔ میاں عباس دل کے مریض تھے۔ وہ کافی کمزور حالت میں تھے اور ہر روز دل کی بیماری کی دوا کھایا کرتے تھے۔ میں نے ان کو ایک خاموش اور حلیم طبع انسان پایا۔ میرا خیال تھا کہ اگر سپریم کورٹ کا آ خری فیصلہ ان کو پھانسی لگانے کا ہوا تو وہ شاید اسے برداشت نہ کر سکیں۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد جب ان قیدیوں کو بھی کچھ دنوں بعد پھانسی دیدی گئی تو ایک دن میرے جیل کے چکر لگانے پر جیل حکام نے بتایا کہ میاں غلام عباس جسمانی کمزوری اور دل کی بیماری کے باوجود پھانسی لگتے وقت بڑے حوصلے میں تھے۔ پھانسی کا پھندا ان کے گلے میں ڈالنے سے پہلے انہوں نے پوچھا کہ مجھے کہاں کھڑا ہونا ہے۔ پھٹّے پر کھڑے ہو کر انہوں نے کلمۂ شہادت پڑھا۔ اسیری کے دوران وہ باقاعدگی سے نماز پڑھتے رہے اور ان کا برتاؤ بڑا چھا تھا۔
صوفی غلام مصطفی سپیشل سروس گروپ کے ایک جوان تھے‘ انہوں نے میرے ہوتے ہوئے چراٹ میں سروس کی تھی۔ جب میں ان قیدیوں کی بیرک میں پہلی دفعہ معائنہ کیلئے بھیجا گیاتوصوفی غلام مصطفی نے مجھے دور سے پہچان لیا اور میرا نام لے کر مجھے خوش آمدید کہا اور پھر پوچھاکہ میں وہاں کیسے آ یا ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں فوج سے تبدیل ہو کر جیل خانہ جات میں آ گیا ہوں اور سپیشل سیکیورٹی سپرنٹنڈنٹ کا کام کر رہا ہوں۔ وہ اپنے انداز میں مسکرایا ااور بولا جناب ایک ایس ایس جی کا میجر جو آج کل لیفٹیننٹ کرنل ہونا چاہئے جیل کے محکمہ میں اس پوسٹ پر! پھر کہنے لگاکہ آپ کی کور اتنی اچھی نہیں جتنی کہ امریکن ہمیں سکھلائی کے دوران پڑھا گئے تھے۔ صوفی غلام مصطفی کی جسمانی حالت اتنی اچھی نہیں تھی۔ وہ مثانہ کی بیماری میں مبتلا تھا اور اسے بار بار باتھ روم جانا پڑتا تھا۔ سپریم کورٹ میں اپیل کے دوران بھی اسے یہ پرابلم تھا۔ وہ جسمانی لحاظ سے کافی کمزور ہو چکا تھا لیکن دماغی طور پر بہت ہوشیا ر تھا۔
مسٹر ارشداحمد قریشی کو صوفی غلام مصطفی‘ رانا افتخار اور ارشد اقبال نے مشترکہ وکیل کیا ہوا تھا۔ میں جب کبھی اس بیرک میں جاتا تو غلام مصطفی سے ضرور ملتا۔ ہم ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح تو نہیں جانتے تھے کیونکہ وہ میری کمپنی میں نہ تھا بلکہ ابراہیم کمپنی میں تھا لیکن ایس ایس جی کے ناطے ہمارا رشتہ ضرور تھا۔ ایک دن میں نے صوفی غلام مصطفی سے پوچھا کہ وہ قتل کے کیس میں کہا ں تک ملوث تھا۔ کہنے لگا مجھے بھٹو صاحب کی شمولیت کا بالکل علم نہیں ۔ ہمیں کہا گیا کہ ان کی شمولیت سے ہم بچ جائیں گے۔ اس نے مجھے بتایا کہ محکمہ کے افسرانِ اعلٰی کے حکم پر اس نے ہتھیار اور ایمونیشن قاتلوں کو دیا تھا تا کہ مسٹر قصوری کو قتل کر دیا جائے لیکن فائرنگ کے دوران ان کے والد نواب احمد خان بھی مارے گئے۔ مجھے اس نے بتایا کہ وہ اس کیس میں بے گناہ ہے کیونکہ بالا حکام کے حکم پہ اس نے ہتھیار اور بارود دیا تھا۔ بہرحال کہنے لگا کہ اسے پتا ہے کہ اسے اللہ تعالٰی کیوں سزا دے رہا ہے کیونکہ اس نے بالا افسروں کے احکامات پر بہت سے بے گناہ‘ صالح اور خدا پرست لوگوں پر ظلم ڈھائے تھے جن کا اسے افسوس ہے اور اس کا ضمیر اسے بے حد لعنت ملامت کرتا رہتا ہے۔ اس نے اپنی آ نکھوں میں ایک خاص معنی خیز حا لت لاتے ہوئے مجھے دھیمی آ واز میں بتایا کہ اسے قول دیا گیا ہے کہ وہ اس کیس میں بچا لیا جائے گا۔
بعد میں جیل حکام نے مجھے بتایا کہ صوفی غلام مصطفی پھانسی کے پھندے تک بڑی دلیری اور بہادری سے گیا۔ وہ آخیر تک مسکراتا رہا اور کلمۂ طیبہ و درود شریف پڑھتا رہا۔
رانا افتخار اور ارشد اقبال بھی اسی مقدمے میں ساتھی قیدی تھے۔ یہ دونوں قدرے کم عمر ہونے کی وجہ سے جسمانی لحاظ سے بہت چست اور چالاک تھے۔ پہلے دن ہی ان کو دیکھنے کے بعد میں نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو بتایا کہ یہ کافی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں اور ان دونوں کو اکٹھا نہلائی کیلئے کوٹھڑیوں سے باہر نہ نکالا جائے ۔ وہ دونوں اس قابل تھے کہ سنتری سے رائفل چھین لیں اور کوئی ناخوشگوار واقعہ کر بیٹھیں۔ علاوہ ازیں وہ دونوں اس قدر چست اور پھرتیلے تھے کہ مل کر جیل کی دیوار کو ‘ جس پر بعد میں کانٹے دار تار لگا دی گئی تھی‘ پھلانگ سکنے کے قابل تھے۔ اس دن سے ان قیدیوں کی نہلائی کے وقت اوپر والی پوسٹ پر ایک سنتری خاص پر ان کر نظر رکھنے کیلئے مقرر کر دیا گیا۔ چند ماہ بعد ان میں سے ایک اپنی التجا پر فیصل آباد جیل منتقل کر دیا گیا۔ جہاں اسے پھانسی دیدی گئی۔

(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)

کمپوزر: طارق عباس