پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ قسط نمبر 29
کور کمانڈر کی تشویش: آخیر جون یا اوائل جولائی میں ایس ایم ایل اے ‘ نے مجھے بلایا اور کہا کہ کور کمانڈر صاحب کافی متفکر ہیں کہ کہیں ساتھی قیدی ( Co-Prisonners ) ہائیکورٹ میں بھٹو صاحب کے خلاف دیئے ہوئے بیانات سے منحرف نہ ہو جائیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جنرل صاحب چاہتے ہیں کہ میں ان سے جیل میں ملوں اور ان کے خیالات معلوم کروں اور ان کی ڈھارس بندھواؤں کہ وہ اپنے بیانوں پر ثابت قدم رہیں اور ان کو یقین دلاؤں کہ اگر وہ اپنی دی ہوئی گواہی پر مستقل رہے تو ان کو پھانسی ہر گز نہیں لگایا جائے گا۔ اسی کے ساتھ مجھے یہ بھی کہا گیا کہ کور کمانڈر صاحب چاہتے ہیں کہ ان کا خاص خیال رکھا جائے تا کہ ان کو کوئی تکلیف نہ ہو۔
میں نے ایس ایم ایل اے صاحب کو بتایا کہ چونکہ وہ سیکیورٹی وارڈ میں نہیں ہیں اس لئے ان کی کسی طریقے سے دیکھ بھال نہیں کر سکتا۔ میں نے اس معاملے میں جیل حکام سے کبھی کسی قسم کی بات نہیں کی تھی‘ پھر میں ان کے ساتھ کس اتھارٹی سے بات چیت کر کے ان کو یقین دہانی کرا سکتاتھا کہ ان کی جان بخشی ہو گی‘ بشرطیکہ وہ اپنی دی ہوگواہی سے نہ پھریں۔ میں نے انہیں لارنس آف عریبیا کا قصہ سنا یا کہ اس نے عربوں کے ساتھ پہلی جنگِ عظیم میں کتنے وعدے کیے تھے۔ لیکن جنگ کے بعد انگریزوں نے ان میں سے ایک وعدہ بھی پور انہ کیا اور لارنس آ خر کار ایک گمنام موت مرا۔ جس شخص نے اتحادیوں کیلئے پوری جنگ کا پانسا پلٹ دیا تھا اس کے ساتھ کئے وعدے اور یقین دہانیا ں کہاں گئیں؟ چونکہ بریگیڈ ئیر ممتاز ملک ایک نیک دل انسان تھے‘ انہوں نے مجھ پر زور نہ دیا اور پھر یہی کہا کہ میاں کم از کم ان کے خیالات اور مورال کا معلوم کر کے بتا دیجئے تاکہ کو ر کمانڈر صاحب کو کچھ تو بتایا جائے۔ یوں میرے اور وہ راز کھلتے گئے جو گہرائیوں میں پنہاں تھے۔
جب بھٹو صاحب کو اکیلا پھانسی لگانے کا حکم آیا اور ان کے ساتھی قیدیوں کے اکٹھے بلیک وارنٹ کو تبدیل کر دیا گیا تو مجھے اس ملک میں انصاف کرنے والوں پر بے حد افسوس ہوا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ رفیع تم نے تو اپنے ضمیر کو خوش کر دیا تھا کہ میں کیوں غلط وعدہ کروں لیکن اس ملک میں حکومت کے پاس اپنے کام کروانے کے بے شمار ذرائع ہوتے ہیں۔ بہرحال میری یونٹ کے افسروں کو ساتھی قیدیوں کے پھانسی نہ لگنے پر بہت افسوس ہوا اور انہوں نے اپنے خیالات مجھ تک پہنچائے جس پر میں نے حکامِ بالا کو لکھا لیکن کچھ دنوں بعد عقل کی فتح ہوئی ا ور تمام قیدی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اپنے انجام کو پہنچے۔
آخری لمحات
آخرکار حکام نے دو اپریل 1979ء کی شام آخری فیصلہ کی کہ بھٹو صاحب کو 3 اور4اپریل 1979ء کی درمیانی رات دو بجے پھانسی دیدی جائے۔ جیل کی کتاب قوانین(Jail Manual) کے مطابق پھانسی کا وقت صبح سویرے کا ہوتاہے‘ لیکن حکومت نے بھٹو صاحب کی پھانسی کا وقت رات کو مقرر کیا۔ جس کی وجہ مجھے معلوم نہ ہو سکی۔ جیل کے قوانین کی اسی کتاب کے مطابق پھانسی پانے والے کے رشتہ دار وں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ وہ اس سے آ خری ملاقات وقت مقرر کے مطابق جیل میں کر لیں۔ بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو سہالہ ریسٹ ہاؤس میں احتیاطی نظر بندی کے قانون کے تحت بند تھیں۔ بھٹو صاحب کے چند نزدیکی رشتہ داربھی ان دنوں پنڈی میں موجود تھے۔ بھٹو صاحب کے ان تمام رشتہ داروں کو تین اپریل1979ء کو ان سے جیل میں آخری ملاقات کرنا تھی۔ جس کا بندوبست کر لیا گیا تھا۔
بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی بھٹو صاحب کے ساتھ آخری ملاقات!
بھٹو صاحب کی پھانسی آ خری فیصلہ ہو جانے پر تین اپریل 1979ء صبح سویرے بھٹو خواتین کو سہالہ ریسٹ ہاؤس میں ملاقات کی اطلاع کر دی گئی تھی۔ ان کو لانے والی گاڑی جیل میں صبح گیارہ بج کر پندرہ منٹ پر داخل ہوئی۔ جیل سپرنٹنڈنٹ انہیں گیٹ سے سیکیورٹی وارڈ تک لے گیا‘ اس دوران انہوں نے چودھری یار محمد سے پوچھا کہ یہ ملاقات کس سلسلے میں ہے اس نے انہیں بتایا کہ یہ آخری ملاقات ہے۔
بیگم بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے بھٹو صاحب کے ساتھ ملاقات ساڑھے گیارہ بجے شروع کی۔
مجھے بتایا گیا کہ قانون کے مطابق بھٹو صاحب سیل کے اندر رہے اور باہر سے لوہے والے جنگلے پر تالا لگا رہا۔ بیگم نصرت بھٹو کیلئے سیل کے دروازے کے ساتھ باہر کرسی لگا دی گئی جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو سیل کے جنگلے کے باہر دالان کے فرش پر بیٹھ گئیں اور باپ بیٹی کے درمیان سیل کے آ ہنی گیٹ کی سلاخیں حائل رہیں۔ یہ ملاقات بعد دوپہر دو بجے تک جاری رہی۔ ملاقات شروع ہونے کے چند لمحوں بعد بھٹو صاحب نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ کیا یہ آخری ملاقات ہے؟ جس کا اس نے ہاں میں جواب دیا۔ بھٹو صاحب نے پھر پوچھا کہ ان کے باقی رشتہ داروں کی ملاقات کا کیا ہو گا۔ چودھری یار محمدنے انہیں بتایا کہ خواتین کی ملاقات کے بعد ان کو ان سے ملا دیا جائے گا۔ بھٹو صاحب نے مس بے نظیر کو ایک طرف ہونے کو کہا اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو اشارے سے اپنے بالکل نزدیک بلایا اورپوچھا کہ کیا واقعی یہ آخری ملاقات ہے۔ انہوں نے جواب میں بتایا کہ ہاں یہ درست ہے۔ پھر مسٹر بھٹو نے پوچھا کہ آخری فیصلے کا کیا ہوا۔ اس پر یار محمدنے جواب دیا کہ وہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ پھر بھٹو صاحب نے پوچھا کہ کس وقت؟ انہوں نے جواب دیا‘ معمول کے مطابق یعنی صبح ساڑھے پانچ بجے۔ واپسی پر جیل سپرنٹنڈنٹ نے مجھے بتایا کہ بھٹو صاحب نے ہاتھ کے اشارے کے ساتھ کہا کہ بس سب ختم Thats All ) اور اس نے جواب دیا ۔ جی جناب
اس پر بھٹو صاحب نے کہا کہ میں نے شیو کرنی ہے اور میرے کپڑوں کا کیاہو گا اور پھر کہنے لگے میری وصیت کا کیا ہو گا جس پر چودھری یار محمد نے انہیں بتایا کہ ان کو وقت دیا جائے گا تا کہ وہ اپنی وصیت لکھ سکیں۔
جیل سپرنٹنڈنٹ کے ہٹ جانے کے بعد باپ ‘ بیٹی نے اپنی باتیں شروع کر دیں ۔ مجھے بعدمیں بتایا گیا کہ بیگم نصرت بھٹو تقریباّ پوری ملاقات میں خاموش رہیں ۔ محترمہ بے نظیر زیادہ وقت روتی رہیں اور بھٹو صاحب سے باتیں کرتی رہیں۔ بھٹوز نے چاہا کہ وہ ملاقات جاری رہے لیکن جیل حکام نے دو بجے بعد دوپہر ملاقات ختم کرا دی۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ بھٹو صاحب کے باقی رشتہ داروں نے بھی ان سے ملنا ہے۔ یہ آخری ملاقات تقریباًاڑھائی گھنٹے جاری رہی۔
ملاقات کے فوراً بعد بیگم نصرت بھٹو نے جیل ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سے‘ جو ان کے ساتھ سیکیورٹی وارڈ سے آرہا تھا‘کہا کہ وہ کرنل رفیع سے ملنا چاہتی ہیں۔ میں اس وقت جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں بیٹھا تھا۔ اطلاع ملنے پر ماں‘ بیٹی سے ڈیوڑھی کے گیٹ سے جیل کی جانب ملا۔ میں نے ان دونوں کو غم میں ڈوبا ہوا اور کافی نڈھال پایا۔ محترمہ بے نظیر نے سن گلاسز پہن رکھے تھے جن کے شیشے اوپر گہرے نیچے ہلکے رنگ میں تھے۔ ان کی آنکھیں رونے کی وجہ سے سرخ اور سوجی ہوئی دکھائی سے رہی تھیں۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
کمپوزر: طارق عباس