پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ قسط نمبر 30
بیگم بھٹو نے مجھے اپنے نزدیک بلا کر بتایا کہ وہ جنرل ضیاء الحق سے ذاتی رحم کی اپیل کرنا چاہتی ہیں اور میں ان کی اس سلسلے میں کیا مدد کر سکتا ہوں۔ اس سے پہلے حکام نے مجھے سختی سے حکم دیا تھا کہ میں اکیلے میں بھٹو صاحب سے نہیں ملوں گا‘ جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں۔ میں کچھ اچنبھے میں پڑ گیا۔ پھر میں نے انہیں بتایا کہ میرا جنرل ضیاء صاحب کے ساتھ کوئی ذاتی رابطہ ( Contact )نہیں ہے‘ بہرحال میں کوشش کروں گا کہ ان کی اس خواہش کو جنرل صاحب تک پہنچا دوں۔ مجھے محترمہ بے نظیر نے بتایا کہ اگر فیصلہ یہی رہا تو بھٹو صاحب اپنے علاقہ لاڑکانہ میں دفن ہونا چاہیں گے۔ اسی وقت بیگم بھٹو نے کہا کہ اگر ان کی رحم کی اپیل منظور نہیں ہوتی تو ان دونوں کی درخواست ہے کہ انہیں بھٹو صاحب کی میت کے ساتھ جانے دیا جائے تاکہ وہ ان کی آخری رسومات میں حصہ لے سکیں۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ہمارے بہت ہی قریب آ کر ہر لفظ کو سننا چاہتا تھا اس لیے میں کھل کر کوئی بات نہ کر سکتا تھا۔ بہرحال میں نے انہیں بتایا کہ وہ دفتر میں انتظار کریں‘ میں کوشش کرتا ہوں کہ ان کی درخواست صدر صاحب تک پہنچا دوں۔
جب ہم ڈیوڑھی سے گزر رہے تھے تو موقع پا کر میں نے بیگم بھٹو کے کان میں کہاکہ بھٹو صاحب کی میت لاڑکانہ ہی کی طرف لے جائی جائے گی۔ انہیں ڈپٹی کے دفتر میں بٹھایا اور میں نے جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفترسے صدر صاحب کے ڈپٹی سیکرٹری کو دو تین مرتبہ ٹیلیفون کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار ان کا ٹیلیفون مصروف ملا۔ میں اور وقت ضائع کرنے کے بجائے جیل سے باہر نکلا اور سڑک پار کر کے سامنے ایس ایس پی کے دفتر گیا جہاں ایس ایم ایل اے بریگیڈئیر خواجہ راحت لطیف( بعد میجر جنرل)ڈی سی راولپنڈی اور ایس ایس پی راولپنڈی بیٹھے تھے۔ میں نے ایس ایم ایل اے صاحب کو بیگم بھٹو کی درخواست سنائی۔ وہ مجھے پر برس پڑے کہ ان کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میں بھٹو بیگمات سے کیوں ملا ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے آپ نے جیل میں رکھا ہو ا ہے۔ بھٹو صاحب سے بیگمات کی ملاقات کے بعد وہ سیدھی میرے پاس آئیں اور مجھے یہ درخواست جنرل ضیاء صاحب تک پہنچانے کیلئے دی ہے۔ انہوں نے تھوڑی دیر خاموش رہ کر کچھ سوچااور پھر کہنے لگے لیکن آپ کو ان سے نہیں ملنا چاہئے تھا۔ میں نے دوبارہ ان کو وہی جواب دیا۔ اتنی دیر میں ڈی سی راولپنڈی‘ محمد سعید مہدی نے ایس ایم ایل اے سے کہا کہ جناب آپ یہی درخواست ڈی ایم ایل اے کو پہنچا دیں اور اگر انہوں نے مناسب سمجھا توجنرل ضیاء الحق صاحب کو پہنچا دیں گے۔ خدا خدا کر کے بات ان کی سمجھ میں آ گئی اور میری خلاصی ہوئی۔ مجھے بعد میں پتا چلا کہ ڈی ایم ایل اے جنرل صغیر حسین سید نے جنرل ضیاء الحق صاحب کو بیگم بھٹو کی اپیل پہنچا دی اورانہیں جنرل ضیاء الحق صاحب نے بیگمات سے ملنے کیلئے سہالہ ریسٹ ہاؤس بھیجا جہاں بیگم بھٹو نے تحریری اپیل کی درخواست صدر صاحب کیلئے پیش کی مگر ان کی رحم کی اپیل کا بھی وہی حشر ہوا جو پہلے والی اپیلوں کا ہو چکا تھا۔
جیل کے حکام باہر عوام کا اچھاخاصا ہجوم‘ جس میں ملکی و غیر ملکی اخباری نمائندے بھی موجود تھے‘ اکٹھا ہو چکا تھا۔ حکام نہیں چاہتے تھے کہ کسی کو بھٹو کی پھانسی کی خبر ہو اور ڈر تھا کہ بیگم بھٹو جیل سے نکلتے وقت کار کی کھڑکی کا شیشہ نیچے کر کے اخباری نمائندوں کو ان کی پھانسی کی اطلاع دیدیں گی۔ ایس ایس پی سے کہا گیا کہ پولیس ہجوم کو جیل کے بڑے گیٹ سے جنوب کی جانب یعنی آرمی ہاؤس کی طرف ہٹوا دے اور بھٹو خواتین کی کار شمال کی جانب براستہ ائیر پورٹ نکال لی جائے۔ یوں ان کی کار عوامی ہجوم سے بچا کر شمالی سمت سے سہالہ ریسٹ لاؤس لے جائی گئی۔
ادھر سہالہ ریسٹ ہاؤس کی باہر کی دنیا سے کاٹ دیا گیا۔ اس علاقے کو پولیس نے گھیرے میں لے لیا‘ نہ کوئی اندر جا سکتا تھا اور نہ ہی کسی نوکر وغیرہ کو اگلی صبح یعنی چار اپریل تک باہر نکلنے دیا گیا۔ ٹیلیفون وغیرہ کا رابطہ تو پہلے ہی منطقع کر دیا گیا تھا۔
بھٹو صاحب سے ان کے رشتہ داروں کی ملاقات کیوں نہ کرائی گئی؟
بھٹو صاحب کے کچھ رشتہ دار مثلاًمسٹر نبی بخش بھٹو‘ مسٹر ممتاز علی بھٹو‘ مسٹر اور بیگم منورالسلام اور مسٹر پرویز علی بھٹو2اور3اپریل1979ء کو راولپنڈی میں موجود تھے اور انہوں نے 3 اپریل کو بعد دوپہر بھٹو صاحب کے ساتھ آ خری ملاقات کرنی تھی۔ اس کیلئے جیل حکام کو حکم مل چکا تھااور بندوبست بھی کر دیا گیا تھا لیکن جونہی بیگم بھٹو اور محترمہ بے نظیر کی ملاقات ختم ہوئی توحکومت کی طرف سے یہ پیغام ملا کہ بھٹو صاحب سے اب کسی اور رشتہ دار کی ملاقات نہیں کرائی جائے گی۔ شاید حکومت بھٹو صاحب کی پھانسی کی خبر کو پوشیدہ رکھنا چاہتی تھی اور اگر ان رشتہ داروں کی آخری ملاقات ان رشتہ داروں سے کرائی جاتی تو وہ جیل سے نکل کر یہ خبر منتشر کر دیتے۔
مسٹر بھٹو کو پھانسی کی سرکاری اطلاع: ایس ایم ایل اے کے حکم کے مطابق مندرجہ ذیل افسران نے تین اپریل شام چھ بجے مسٹر بھٹو کے سیل میں جا کر انہیں ان کی پھانسی کی اطلاع دینی تھی۔
ا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ ‘ مسٹر یار محمد۔
ب۔ سیکیورٹی بٹالین کمانڈر‘ لیفٹیننٹ کرنل رفیع الدین۔
ج۔ مجسٹریٹ درجہ اول‘ مسٹر بشیر احمد خان۔
د۔ جیل ڈاکٹر‘ مسٹر صغیر حسین شاہ۔
یہ پارٹی شام چھ بج کر پانچ منٹ پر سیکیورٹی وارڈ میں بھٹو صاحب کے سیل میں داخل ہوئی تو وہ گدے کے اوپر‘ جو سیل میں فرش پر شمالاً جنوباً بچھا ہوا تھا‘ لیٹے ہوئے تھے۔ ان کا سر اور کندھے سیل کی شمالی دیوارکے ساتھ آرام دہ حالت میں تھے۔ سپرنٹنڈنٹ جیل ‘ یار محمد نے بھٹو صاحب کو پڑھ کر یہ حکم سنایا۔
’’ آپ ‘ مسٹر ذولفقار علی بھٹو کو لاہور ہائیکورٹ نے 18مارچ1978ء کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ آپ کی اپیل سپریم کورٹ پاکستان نے6فروری1979ء کو نامنظور کر دی اور ریویوپیٹیشن کو بھی24مارچ1979کو نامنظور کر دیا گیا۔ صدر پاکستان نے اس کیس میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لئے آ پ کو اب پھانسی دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔‘‘
جیل سپرنٹنڈنٹ جب یہ حکم سنا رہا تھا تو بھٹو صاحب گدّے پر اسی طرح بغیر کسی گھبراہٹ یا پریشانی کے لیٹے رہے۔بلکہ ان کے جسم اور چہرے پر نرم نازک ڈھیلا پن اور مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اس وقت میں ان کے پاؤں کے نزدیک مغربی رخ اور جیل سپرنٹنڈنٹ ان کے پاؤں کے مشرقی رخ کھڑے تھے۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
کمپوزر: طارق عباس