پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ قسط نمبر 31
بھٹو صاحب نے جس خندہ پیشانی کے ساتھ اپنی پھانسی کی خبر سنی اس پر میں نہ صرف حیران ہوا بلکہ میرے اندر میرا ضمیر مجھ سے بغاوت کر رہا تھا۔ میں اپنے آ پ سے کہہ رہا تھا کہ اس لیڈر کو ہم پھانسی لگا رہے ہیں جو اپنی موت کی خبر اس خندہ روئی اور بے نیازی سے سن رہا ہے۔ مجھے اپنے اندر سے آواز سنائی دے رہی تھی کہ اس شخص کی موت ہماری قوم اور ملک کیلئے سب سے بڑا المیہ ثابت ہوگی۔ میں شاید زندگی میں پہلی دفعہ خود پر ہر طرح کا کنٹرول ختم ہوتا محسوس کر رہا تھا۔ بھٹو صاحب نے جیل سپرنٹنڈنٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حاکمانہ انداز میں کہا
ا۔ پھانسی سے 24گھنٹے پہلے مجاز اور مستند حاکم کے ذریعے مجھے بتایا جانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کے بر خلاف جب آج ساڑھے گیارہ بجے میری بیٹی اور میری بیوی مجھ سے ملیں تو ان کو بھی یقین نہ تھا۔ میں نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو بلایا اور اس سے ضروری وضاحت کیلئے کہا‘ تب اس نے مجھے غیر مشروط طور پر بتایا کہ میری پھانسی کا حکم اسے مل گیا ہے جو اس کے پاس ہے۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ میرے دوسرے رشتہ دار جن میں میری بہن منورالا سلام اور میرا چچا زاد بھائی ممتا ز علی بھٹو‘ میری بیوی اور میری بیٹی چلے جانے کے بعد مجھ سے ملیں گے۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ ملاقاتیوں کے بعد وہ خود بعد دوپہر ایک بج کر پچاس منٹ پر میری وصیت کیلئے آئے گا۔
ب۔ میری پھانسی کا کوئی لکھا ہوا حکم مجھے ابھی تک نہیں دکھایا گیا۔.
تھوڑے وقفے کے بعد انہوں نے خود کلامی کے انداز میں کہا!
میرے وکلاء نے اس کیس کو خراب کیا ہے۔ یحییٰ میری پھانسی کا ذمہ دار ہے۔ وہ مجھے غلط بتاتا رہا۔ اس نے اس کا ستیاناس کیا ہے۔ اس ہمیشہ سبز باغ دکھائے۔
پھر کہنے لگے میری پارٹی کو پردہ بھٹو کی ضرورت تھی زندہ بھٹو کی نہیں۔ جب میں نے افسوس ظاہر کیا تو انہوں نے میرا ہاتھ تھام کرکہا!’’ مجھے افسوس ہے کہ میرے وکلاء کا برتاؤ آپ کے ساتھ اچھا نہ تھا‘‘
میں نے فوراً کہا’’ نہیں جناب انہوں نے میرے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی‘‘
انہوں نے جواباًکہا’’ پیرزادہ اور یحییٰ نے آ پ کے خلاف پریس میں سٹیٹسمنٹس دیں‘‘
میں نے جواب میں بتایا’’ مجھے سے کبھی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی اور آپ اس بات کا خیال نہ کریں‘‘ انہوں نے میری خوش اخلاقی اور ان کے ساتھ ہمیشہ شریفانہ برتاؤ کا شکریہ ادا کیا۔ میں نے بھی ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں یاد دلایاکہ وہ اپنی وصیّت لکھنا شروع کریں۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ان کے پاس بیٹھوں مگر مجھے سخت ہدایات مل چکی تھیں کہ ان کو اکیلا نہ ملوں۔ حالانکہ ان کے ساتھ کچھ اور وقت گزارنا بڑا مفید ہوتا اور میں بہت کچھ اس نازک وقت میں سن پاتا۔ اسی اثنا میں ایک وارڈر کچھ کاغذات اور کچھ لکھنے کا سامان لے کر اندر آ گیا اور میں با دِلِ نا خواستہ ان کی مرضی کے بر عکس سیل سے باہر آ گیا۔
جیسا کہ میں پہلے کئی بار لکھ چکا ہوں کہ بھٹو صاحب کو کبھی پھانسی کے پھندے تک جانے کا خیال تک نہ آیا اور وہ اس مقدمے کو ہمیشہ ایک سیاسی سٹنٹ ہی سمجھتے رہے۔ تین اپریل کو ان کی بیگم اور بیٹی کو تو معلوم ہو گیا تھا کہ حکومت ان کو پھانسی لگانے کا تہیہ کر چکی ہے لیکن بھٹو صاحب کو ابھی تک سب کچھ دکھاواہی معلوم ہو رہا ہو گا کیونکہ جیل حکام نے پھانسی لگنے سے سات دن پہلے ان کو سرکاری اطلاع نہ دی تھی۔ بیگمات کے انٹر ویو کے دوران بھٹو صاحب نے جب جیل سپرنٹنڈنٹ کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ میرے باقی رشتہ داروں کی ملاقات کب ہونی ہے توان کو بتایا گیا کہ بیگمات کی ملاقات کے بعد ہو گی۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے یہ بھی بتایا تھا کہ دوپہر دو بجے کے لگ بھگ وہ ا ن سے وصیّت لکھوانے آئے گا‘ اسی وقت جب انہوں نے اپنی پھانسی کے حکم کے متعلق دریافت کیا تو بھی بتایا گیا تھا کہ تحریری حکم جیل سپرنٹنڈنٹ کو مل چکا ہے جو ان کو بیگمات کی ملاقات ختم ہونے پر دکھایا جائے گا۔
بعد میں شام چھ بجے کے فوراً بعد سرکاری حکام نے ان کو سرکاری طور پر سب کچھ بتادیا تو بھی ان کو کچھ شک ضرور رہا ہو گا۔ لیکن جب انہوں نے مجھ سے اکیلے میں پوچھا کہ یہ کیا ڈرامہ ہو رہا ہے اور میں نے صاف بتا دیا توکسی شک کی گنجائش باقی نہ رہی کیونکہ مجھ پر میرے خیال میں ان کا پورا اعتماد ہو چکا تھا۔ تب انہوں نے خود کو موت کے سامنے پایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آ خر وہ انسان تھے‘ موت کا سامنا کرتے وقت گھبراہٹ ایک فطری بات ہے۔ سرکاری افسران اور میرے ان کے سیل سے باہر جانے کے بعد انہوں نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ خواجہ غلام رسول‘ جن کو میں نے ایک بڑا منجھا ہوا اور عقل مند جیل حاکم پایا‘ کی نگرانی میں شام سات بج کر پانچ منٹ پر شیو بنوائی۔ شیو کے دوران انہوں نے ڈپٹی سے مندرجہ ذیل بات چیت کی۔
مسٹر بھٹو’’ ڈپٹی صاحب آپ لوگوں کو ایسا لیڈر کہاں سے ملے گا۔ مگر آپ کو ضرورت ہی کیا ہے ضرورت تو غریبوں کو تھی۔ میں موچی دروازے میں موچیوں کے سامنے تقریر یں کیا کرتا تھا کیونکہ میں خود موچی ہوں۔ تم لوگ غریبوں کا لیڈر چھین رہے ہو۔ میں انقلابی آدمی ہوں۔ غریبوں کا حامی۔ یار مجھے مارنا ہی تھا تو دو سال خراب کیوں کیا۔ میری عزت کیوں نہیں کی جو ساری دنیا میں ہے۔ مجھے کسی ریسٹ ہاؤس یا کسی کوٹھی میں رکھتے اور عزت سے مار دیتے۔ آج اسلامی کانفرنس کے چیئرمین کو جسے ساری دنیا کے مسلمانوں نے منتخب کیا ہے شیو کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ ساتھ کھڑے ہو تاکہ بلیڈ سے خود کو ضرب نہ لگا لوں۔ دوسری بات‘ ہاں تجھے یار میں نے بہت تنگ کیا ہے۔ مجھے معاف کر دینا‘ دوسرے مجرموں سے جھوٹ بکواس کرا کر مجھے پھانسی کے پھندے پر چڑھا کر انہیں چھوڑنا چاہتے ہو‘‘
پھر انہوں نے باہر والے سنتری کو بلایا اور ڈپٹی صاحب سے کہا’’ میرے مرنے کے بعد یہ گھڑی اس سپاہی کو دیدینا‘‘
ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے جواب دیا’’ ٹھیک ہے جناب‘‘(اس وقت فوج کی گارڈ بھی لگ چکی تھی اور وہ جوان حوالدار مہدی خان27پنجاب کا تھا۔)
شام آٹھ بج کر پانچ منٹ پرجب مشقّتی عبدالرحمٰن نے بھٹو صاحب کے کہنے پر کافی کا کپ بنا کر دیا تو بھٹو صاحب کی آ نکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے اس سے کہا‘ رحمٰن مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو مجھے معاف کر دینا۔ پھانسی تو لگ ہی جانا ہے آج میری آخری رات تیرے ساتھ ہے۔ میں صرف چند گھنٹو ں کیلئے تیرا مہمان ہوں۔
بھٹو صاحب آٹھ بج کر پندرہ منٹ سے نو بج کر چالیس منٹ تک اپنی وصیّت لکھتے رہے۔ اس کے بعد تقریباًدس منٹ(نو بج کر چالیس منٹ سے نو بج کر پچاس منٹ تک)وہ ٹیبل پر شیشہ‘ کنگھی‘ بالوں کا برش‘ تیل کی بوتل اور جائے نماز ‘ تولیہ بچھا کر اس کے اوپر رکھتے اور ہٹاتے رہے۔
پھر نو بج کر پچپن منٹ تک اپنے دانت برش کے ساتھ صاٖف کیے اور منہ ہاتھ دھویا‘ بالوں کو کنگھی سے سنوارا۔
پھر تقریباً پانچ منٹ کیلئے سگار کی راکھ اور چند جلے ہوئے کاغذوں کی راکھ ایک کاغذ کی مدد سے صاف کرتے رہے۔
دوبارہ شام دس بج کر دس منٹ سے گیا رہ بج کر پانچ منٹ تک لکھتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے تمام کاغذات جو انہوں نے لکھے تھے جلا ڈالے۔ جلے ہوئے کاغذات کی راکھ سارے سیل میں پھیل گئی۔ انہوں نے مشقّتی عبدالرحمٰن کو بلایا اور اسے سیل صاف کرنے کوکہا۔ انہوں نے سنتری سے پوچھا کتنا وقت رہ گیا ہے۔ سنتری نے جواب دیا کہ جناب کافی وقت ہے۔ کہنے لگے ’’ کتنا؟ ایک گھنٹہ دوگھنٹے‘‘ مگر سنتری خاموش رہا۔ پھر خود ہی کہا کہ ایک دو گھنٹے سوسکتا ہوں۔ سنتری نے جواباًکہاجی جناب۔
پھر کہا’’ کہیں جگا تونہیں دو گے‘‘
گیارہ بج کر دس منٹ پر سیل کھولا گیا اور مشقّتی عبدالرحمٰن اندر آ گیا اور برش سے فرش صاف کیا اور ساری راکھ باہر نکال دی۔ پھر سیل بند ہوا اور بھٹو صاحب خاموشی سے لیٹ گئے۔
گیارہ بج کر پچیس منٹ پر کہا ’’ میں کوشش کرتا ہوں کہ تھوڑی دیر سو لوں کیونکہ میں کل رات نہیں سویا۔ ویسے مجھے پتاہے کہ آ پ لوگ مجھے بارہ بجے جگا دیں گے‘‘ کچھ دیر بعد لیٹے ہوئے انہوں نے صنم‘ صنم‘ پکارا۔
گیارہ بج کر پچاس منٹ پر اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ مجید احمد قریشی اور کاظم حسین بلوچ آئے۔ انہوں نے باہر سے ہی مسٹر بھٹو صاحب کو جگانے کی کوشش کی‘ مگر وہ نہ جاگے۔ مسٹر قریشی نے جیل دفتر ٹیلیفون کر کے پوچھا کہ کیا ‘ کیا جائے۔ انہیں بتایا گیا کہ سیل کھول کر اندر جا کر مسٹر بھٹو کو جگائیں۔ مسٹر قریشی نے سیل کھول کر اندر بھٹو صاحب کو جگانے کی کوشش کی مگر انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ مسٹر قریشی نے ٹیلیفون پر دفتر میں اطلاع دی کہ بھٹو صاحب کوئی جواب نہیں دے رہے‘ جیسے کہ وہ بے ہوش ہیں۔ مجھے اس خبر پر کافی فکر لاحق ہوئی کیونکہ میرے فرائض میں سے ایک فرض یہ بھی تھا کہ بھٹو صاحب کسی حالت میں بھی خود کشی نہ کریں۔
رات بارہ بجنے میں سے ایک منٹ کم‘ جیل سپرنٹنڈنٹ ‘ جیل ڈاکٹر اور مجسٹریٹ کو لے کر سیکیورٹی وارڈ کے سیل میں داخل ہوا۔ بھٹو صاحب سیل میں گدّے پر شمالاً جنوباً بائیں پہلو سے لیٹے ہوئے تھے اوران کا منہ سیل کے دروازے کی طرف تھا۔ جب سیل کا تالا کھولا جا رہا تھا تو چودھری یار محمد اورجیل ڈاکٹر نے دیکھا کہ بھٹو صاحب نے اپنی ایک آنکھ کھول کر ہم سب کو دیکھا اور پھر آنکھ بند کر لی۔ میں نے اور چودھری یار محمد نے اندر داخل ہوتے ہی بار بار بھٹو صاحب کو نام لے کر پکارا مگر انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے جیل ڈاکٹر صغیر حسین شاہ صاحب سے کہا کہ وہ بھٹو صاحب کو چیک کریں۔ ڈا کٹر نے بھٹو صاحب کی نبض محسوس کی ار پھر سٹیتھو سکوپ کے ساتھ ان کے سینے کامعائنہ کیا اور ان کی آنکھ کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے اور میرے کان میں بتایا کہ بھٹو صاحب ٹھیک ہیں۔ میں نے بھٹو صاحب کو پھر آواز دی مگر انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے ان پر جھک کر ان کے کندھے کو ہلایا اور ان کو پھر پکارا مگر کوئی جواب نہ آیا۔ میں نے ڈاکٹر سے پھر کہا کہ ان کو چیک کریں۔ ڈاکٹر نے ایک بار پھر ان کی نبض اور چھاتی کا معائنہ کیا اور اٹھ کر میرے کان میں سرگوشی کے ساتھ بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ میں نے ڈاکٹر کو سیل سے باہر بلایا اور دالان میں ان سے کہا کہ بھٹو صاحب جواب کیوں نہیں دے رہے؟ ڈاکٹر نے مجھے یقین دلایا کہ بھٹو صاحب بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں اور میں فکر نہ کروں ۔ پھر چودھری یار محمد نے مجھے بتایا کہ جب دروازے کا تالا کھولا جا رہا تھا تو بھٹو صاحب نے ایک آنکھ کھول کر ہم سب کو دیکھا اور پھر آنکھ بند کر لی‘ وہ مکر کر رہے ہیں اور بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ ڈاکٹر نے بھی جیل سپرنٹنڈنٹ کی طرح بتایا کہ اس نے بھی بھٹو صاحب کی ایک آنکھ کھلی ‘ بند ہوتے دیکھی تھی۔ پھر کہا ان کا دل‘ نبض اور آنکھ کی پتلی بالکل ٹھیک ہیں اور وہ یہ سب کچھ مکرکے طور پر کر رہے ہیں۔ میں نے ڈاکٹر کو بتایاکہ اگر بھٹو صاحب کو کچھ ہو گیا تو وہ ذمہ دار ہو گا اوراسے فوجی طریقے سے حکم دیا کہ وہ بھٹوصاحب کوپھر چیک کرے۔ ڈاکٹر صاحب نے میرے کہنے پرتیسری بار بھٹو صاحب کو چیک کیا اور دالان میں آ کر مجھے بتایاکہ کرنل صاحب آپ فکر نہ کریں‘ بھٹو صاحب بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں اور وہ جان بوجھ کر اس طرح کر رہے ہیں۔ میں نے ڈاکٹر‘ مسٹر قریشی اور مسٹر بلوچ کوسیکیورٹی وارڈہی میں رہنے دیا اور ہم واپس دفتر آ گئے۔ آتے ہوئے میں نے ڈاکٹر صاحب سے پھر کہاکہ چند منٹوں بعدبھٹو صاحب کو پھر چیک کریں۔
رات ایک بج کر دس منٹ پر بھٹو صاحب خود اٹھ بیٹھے۔ مسٹر قریشی نے انہیں بتایا کہ نہا نے کیلئے گرم پانی موجود ہے مگر بھٹو صاحب نے جواب دیاکہ اب وہ نہانا نہیں چاہتے۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
کمپوزر: طارق عباس