پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ قسط نمبر 32
حکم کے مطابق بھٹو صاحب کو4/3اپریل1979ء کی درمیانی شب کو دو بجے‘ انسپکٹرجنرل جیل خانہ جات کی موجودگی میں پھانسی لگانی تھی۔ انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات چودھری نظیر اختر راولپنڈی جیل میں 3 اپریل صبح سے حاضر تھے‘ جبکہ وہ یکم اپریل شام سے راولپنڈی آئے ہوئے تھے۔ بھٹو صاحب کی لمبی بھوک ہڑتال ‘ جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے‘ کی وجہ سے ان کی جسمانی حالت دیکھ کر ایک سٹریچرکا بھی بندوبست کرلیا گیا تھا کہ اگر وہ پھانسی گھاٹ تک چل کر نہ جا سکے تو ان کو اس پر لے جایا جائے گا۔ چند ایک پیٹرو میکسس کا بھی بندوبست کر لیا گیا کیونکہ اس رات آسمان پر کافی بادل موجود تھے اور رات اچھی خاصی اندھیری تھی۔ مندرجہ ذیل افسران رات ایک بج کر پینتیس منٹ پر سیکیورٹی وارڈ گئے۔
ا۔ سپرنٹنڈنٹ جیل چودھری یار محمد
ب۔ کمانڈر سیکیورٹی فورس لیفٹیننٹ کرنل رفیع الدین
ج۔ مجسٹریٹ درجہ اوّل ڈسٹرکٹ کورٹ راولپنڈی مسٹر بشیر احمد خان
د۔ راولپنڈی جیل ڈاکٹر صغیر حسین شاہ
ر۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل خواجہ غلام رسول
جبکہ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹس جیل مجید احمد قریشی‘ کاظم حسین بلوچ‘ محابت خان اور سپرنٹنڈنٹ جیل کے چناؤ کے مطابق چند وارڈز بھی سیکیورٹی وارڈکے دالان تک مندرجہ بالاپارٹی(ا.....ر)کے پیچھے پیچھے گئے۔ انسپکٹرجنرل جیل خانہ جات چودھری نظیر اختر دفتر سے سیدھے موت کے کنویں کی طرف ہی چلے گئے۔ سیکیورٹی وارڈ‘ پھانسی گھاٹ اور ان کے درمیانی راستہ پر فوج کی فالتو گارڈ بھی متعین کر دی گئی تھی۔
مذکورہ پارٹی(ا.....ر) بھٹو صاحب کے سیل کے اندر گئی۔ بھٹو صاحب گدّے کے اوپر لیٹے ہوئے تھے اور جاگ رہے تھے۔ ان سے مجسٹریٹ مسٹر بشیر احمد خان نے کہا کہ کیا وہ کوئی وصیّت چھوڑنا چاہتے ہیں۔ بھٹو صاحب خاموش رہے۔ بھٹو صاحب کا رنگ بالکل پھیکا اور زرد پڑ چکا تھا اور وہ جسمانی لحاظ سے نقاہت کی حالت میں تھے۔ ان کی آواز خفیف‘ بے حد کمزورتھی اور صاف سنائی نہ دے رہی تھی۔ انہوں نے کوشش کر کے کہا
" I had...tried...but...my...thoughts...were...so...upset...that...I...could
...not...do...it...I...have..." burnt...it.
میں........نے کوشش..........کی.........لیکن.........میرے..........خیالات..........اتنے..........درہم برہم.............تھے .........
کہ میں..............نہ لکھ............سکا............میں...........نے ...............اسے ............جلا دیا۔
میں نے قریب جا کر ان سے کہا’’ جناب آپ چل کر جائیں گے یایہ آپ کو اٹھا کر لے جائیں‘‘ انہوں نے مجھے کوئی جواب نہ دیا بلکہ میری آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈال کر دیکھتے رہے۔ چند لمحوں بعد میں نے اسی فقرے کو دہرایا۔ وہ مجھے اسی طرح دیکھتے رہے اور پھر کہا’’ مجھے..........افسوس..........ہے‘‘ ’’ "I.....Pity" ‘‘( انہوں نے کچھ کہا لیکن ہم میں سے کوئی بھی کچھ نہ سمجھ سکا)
میں نے آگے جا کر ان کے اوپر جھک کر کہا۔ معاف کیجئے گا میں آپ کو سمجھ نہیں سکا۔ انہوں نے اسی فقرے کو دہرایا‘ لیکن میں آخری ایک دو لفظ پھر بھی نہ سمجھ پایا۔ میں ان کے چہرے پر پوری طرح جھک گیا اور پھر ان سے کہا۔ معاف کیجئے گا میں آپ کو سمجھ نہیں سکا۔
وہ بے حد کمزوری اور وقفے وقفے کے ساتھ بولے۔
" I.......Pity......My......wife......left"
(مجھے........افسوس..........ہے ............میری............بیوی............چلی گئی.............ہے)
وہ بے حد پر اضطراراوردلسوز حالت تھے۔ میں بھٹو صاحب کے جواب کے ساتھ خاموش ہو گیا۔ شاید وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ وہ چل نہیں سکتے مگریہ بھی نہیں چاہتے کہ انہیں اٹھا کر لے جایا جائے‘ شاید وہ یہ سوچ رہے ہوں کہ اگر ان کی بیوی موجود ہوتی تو وہ انہیں سہارا دے کر لے جاتی۔
میں ان کے اس جواب پر بالکل شل اور بے حس ہو گیا۔
مجسٹریٹ نے دوبارہ آگے بڑھ کر ان سے پوچھا کہ آ پ وصیت کرنا چاہتے ہیں۔ بھٹو صاحب خاموش رہے۔ مجسٹریٹ نے دوبارہ پوچھا کہ کیا آپ وصیت لکھوانا چاہیں گے ۔ انہوں نے جواب دیا
"Yes....I....would.....like......to.....dictate.
ہاں........میں..........لکھوانا...........چاہوں گا۔
اس لمحے وقت ختم ہو چکا تھا اور جیل سپرنٹنڈنٹ نے ہیڈ وارڈر کو حکم دیا کہ وہ اپنے آدمی اندر لائے اورمسٹر بھٹو کو اٹھالیں۔ چار وارڈر اندر داخل ہوئے اور دو نے بھٹو صاحب کے بازو اور دو نے ان کے پاؤں اور ٹانگیں پکڑ کر ان کو اوپر اٹھا لیاجب ان کو اٹھایا جا رہا تھاتو انہوں نے کہا۔
’’مجھے چھوڑدو‘‘ جب ان کو سیل سے باہر نکالا جا رہا تھا تو ان کی کمر تقریباً فرش کے ساتھ لگ رہی تھی‘ ان کی قمیض کا پچھلا حصہ ان وارڈروں جو ان کی ٹانگوں کو پکڑے ہوئے تھے‘ کے پاؤں کے نیچے آ یا اور قمیض پھٹنے کی آواز آئی۔ میں نے اس قمیض کا معائنہ تو نہیں کیالیکن وہ بازوؤں کے نیچے تک ضرور ادھڑ گئی ہو گی یعنی ٹانکے کھل گئے ہوں گے۔ دالان میں ان کو سٹریچر پر ڈال دیا گیا۔ ان کے دونوں ہاتھوں میں ان کے پیٹ کے سامنے ہتھکڑی لگا دی گئی۔ اتنی دیر میں مشقّتی عبد الرحمٰن چائے کی پیالی لے کر سامنے آیا جو بھٹو صاحب نے ہمارے داخل ہونے سے پہلے اس سے کہی ہو گی۔ میں یہ سب کچھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی شان دیکھئے کہ جیل کی دیوار کے پار پرائم منسٹر ہاؤس میں بھٹو صاحب نے جب بھی چاہا دنیا کے کسی بھی حصے سے ان کیلئے فوراً مہیا کیا گیا اور آ ج ان کی یہ آخری اور معمولی سی خواہش بھی پوری نہ ہوسکی کہ چائے کی ایک پیالی بھی پی سکیں۔
چاروں وراڈروں نے سٹریچر کو چاروں کونوں سے اٹھالیا۔ بھٹو صاحب نے اپنا سر گردن پر تھامے ہوئے اوپر اٹھائے رکھا مگر ویسے بالکل بے حس رہے۔ ان کے پاؤں پیلے زرد نظر آرہے تھے جیسے کہ جسم میں خون بالکل کم ہو گیاہو۔ سیل سے تقریباًدو سو یا دو سوپچاس(250) گز پھانسی گھاٹ تک وہ بالکل خاموش اور بغیر حرکت کے رہے۔ پھانسی کی جگہ وارڈروں نے سٹریچر کو زمین پر رکھا اور دو نے بھٹو صاحب کی بغلوں کے نیچے سے مدد کی اور وہ پھانسی کے تختے پر کھڑے ہو گئے۔ میں بھٹو صاحب کے نزدیک ترین رہا‘ صرف میں نے اپنے پاؤں پھٹے سے بچا کر رکھے لیکن میرے کان ان کے چہرے سے ایک یا دو فٹ ہی دور رہے ۔ان کے ہاتھوں سے ہتھکڑی نکال کر ان کے بازو اور ہاتھ ان کی کمر کے پیچھے ایک جھٹکے سے لے جائے گئے اور پھر ہتھکڑی لگا دی گئی۔ اسی دوران تارا مسیح نے ان کے سر اور چہرے پر ماسک چڑھا دیا۔ یا تو انہیں چہرے پر ماسک کی وجہ سے سانس لینے میں دقت ہوئی یاہاتھوں کو مروڑتے ہوئے جب ان کو کمر کے پیچھے ہتھکڑی لگائی گئی تو لوئے کی ہتھکڑی نے ان کی کلائیوں کو دبایا جس کی وجہ سے ان کو تکلیف ہوئی ۔اس لئے انہوں نے کہا ’’یہ مجھے‘‘ شاید وہ کہنا چاہتے ہوں کہ یہ مجھے تکلیف دے رہی ہے۔ میں ان کے بالکل نزدیک تھا یعنی میں تختے سے بچتے ہوئے آ گے ان کی طرف اتنا جھکاہوا تھا کہ ان کے منہ اور میرے کانوں میں ایک‘ دو فٹ کا فاصلہ ہوگا مگر میں ان کی یہ آ خری بات پوری نہ سن سکا۔
ٹھیک دو بج کر چار منٹ پر ‘ چار اپریل1979ء کو جلاد نے لیور دبایا اور بھٹو صاحب ایک جھٹکے کے ساتھ پھانسی کے کنویں میں گر پڑے۔ میں اوپر سے سیڑھیوں کے ذریعے اتر کر کنویں کے کھلے رخ کنویں کے نیچے گیا اور دیکھا کہ بھٹو صاحب کا جسم معمولی ہل رہا تھا جو اوپر سے نیچے گرنے کی وجہ سے تھا لیکن وہ اس وقت مردہ حالت میں تھے۔
میں انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کے پاس ان کرسیوں پر آکر بیٹھ گیا جو لٹکی ہوئی لاش کے سامنے رکھی ہوئی تھیں۔میں نے دیکھا کہ بھٹو صاحب کا سر ان کی گردن پر بائیں طرف جھک گیا تھا کیونکہ پھانسی کے پھندے کا رسا ان کی دائیں طرف سے اوپر گیا ہوا تھا۔
بھٹو صاحب کی لاش کا اس طرح لٹکنا میرے لئے ایک نہ بھلا سکنے ولا منظر ہے۔ میں آ ج تک جب بھی اس کا تصوّر کرتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔(جاری ہے)
کمپوزر: طارق عباس