پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ قسط نمبر 33

پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی ...
پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ قسط نمبر 33

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چند منٹوں بعد میں نے کسی کو کنویں میں بھٹو صاحب کے جسم کو ہلاتے ہوئے دیکھا۔ میں نے چودھری یار محمد ‘ جو میرے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے‘ سے پوچھا کہ کنویں میں بھٹو صاحب کی لاش کے ساتھ کون ہے؟ ان کی بجائے مجھے آئی جی پریزن( IG Prisons ) نے بتایا کہ وہ تارا مسیح ہے اور ہاتھوں اور ٹانگوں کو سیدھا کر رہا ہے تاکہ تشنج کی وجہ سے ان کا جسم ٹیڑھا نہ ہو جائے۔ (جب میں پچھلی شام آئی جی جیل خانہ جات اورجیل سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ ان کے جیل دفتر میں بیٹھا تھا تو کسی اسسٹنٹ نے بتایا تھا کہ بھٹو صاحب نے کہا ہے کہ ان کی پھانسی کے بعد ان کی گھڑی اس وقت کے سنتری کو دیدی جائے۔ اس پر اچھی خاصی بحث چل نکلی تھی۔ 

پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ قسط نمبر 32 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
آئی جی پنجاب نے کہا کہ یہ گھڑی بڑی قیمتی ہوگی‘ کم از کم کئی ہزار روپے کی تو ہو گی۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے فوراً کہا تھا کہ یہ قانونی طور پر ان کی ملکیت ہونی چاہئے۔ میں اس وقت سوچ رہا تھا کہ کسی نے خوب کہا ہے کہ ’’ بکرے کو جان کی اور قصاب کو چربی کی‘‘۔ میں نے اسی وقت یہ کہہ دیا تھاکہ یہ گھڑی ممکن ہے ان کی شادی کی ہو‘ ویسے بھی اسی بیگم بھٹو کے حوالے کر دینا چاہئے) قانون کے مطابق پھانسی کے بعد نعش کو تیس منٹ تک لٹکنا چاہئے اور پھر ڈاکٹر کے اس سرٹیفکیٹ کے بعد کہ موت واقع ہو چکی ہے‘ نعش کو اتارا جاتا ہے۔ مجھے اچانک خیال آیا کہ بھٹو صاحب کی گھڑی اور ان کی انگلی پر انگشتری اتار لینی چاہئے۔ میں نے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ قریشی کو بلایا اور ان سے کہا کہ بھٹو صاحب کی گھڑی اور انگوٹھی اتار لی جائے۔ وہ بھٹو صاحب کی گھڑی تو اتار کر لے آئے مگر کہنے لگے کہ ان کے ہاتھ پر انگشتری نہیں ہے۔ بھٹو صاحب جب بھی بیٹھ کرمیرے سامنے گپ شپ لگایا کرتے تھے تو عموماً تو وہ عموماً وہ اپنی انگشتری کے ساتھ کھیلتے رہتے تھے‘ یعنی اسے اپنی انگلی کے اردگرد پھیرتے رہتے تھے۔ میں نے مسٹر قریشی کو بتایا کہ میں نے آج ہی ان کی انگلی پر انگوٹھی کو دیکھا تھا۔ آئی جی پریزن نے مسٹر قریشی کو بلایا اور کہا کہ جا کر تارا مسیح کی تلاشی لے۔ تھوڑی دیر بعد مسٹر قریشی ‘ بھٹو صاحب کی انگشتری لے کر آگئے اور بتایا کہ یہ تارا مسیح کی جیب سے نکلی ہے۔
میں نے جیل سپرنٹنڈنٹ سے کہا کہ یہ دونوں چیزیں اپنے پاس رکھیں اور بعد ازاں بیگم بھٹو صاحبہ کے حوالے کر دیں۔ کافی دنوں بعد جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے باتوں باتوں میں بتایا تھا کہ بھٹو صاحب کا تمام سامان بمع ان کی گھڑی اور انگشتری بھٹو بیگمات کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
بھٹوصاحب کی تدفین: آدھ گھنٹہ پھانسی پر لٹکائے جانے کے بعد اورجیل ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ پر کہ ان کی موت واقع ہو چکی ہے‘ بھٹو صاحب کی لاش کو رات دو بج کر پینتیس منٹ پر پھانسی کے پھندے سے جدا کیا۔ ان کی میت کو غسل دیا گیا جس کا بندوبست وہیں کر لیا گیا تھا۔ ایک فوٹو گرافر نے‘ جسے ایک انٹیلی جنس ایجنسی نے بھیجا تھا ‘ ضرورت کے مطابق بھٹو صاحب کے چند فوٹو اتارے۔ ان تصویروں سے حکام کا یہ شک دور ہوگیا کہ ان کے ختنے نہیں ہوئے ‘بلکہ ہوئے تھے۔ بھٹو صاحب کے اسلامی طریقے سے ختنے ہوئے تھے۔ پھر ان کے جسم کو ایک لکڑی کے تابوت میں پھولوں وغیرہ کے ساتھ بند کر دیا گیا اور ان کا تابوت جیل سے تین بج کر پانچ منٹ پر مخصوص گاڑیوں کے ذریعے چکلالہ ائیر پورٹ روانہ ہوا۔ اس سفر پر بھی مجھے بھٹو صاحب کے ساتھ جانا تھا۔ 
میں ان گاڑیوں کو پی اے ایف چکلالہ لے گیا‘ جہاں ایک وی آئی پی‘ سی 130 ہوائی جہاز ہمارے انتظار میں تھا۔ بھٹو صاحب کی میت کے ساتھ27 پنجاب کی ایک گارڈ میجر اشفاق کے ماتحت جا رہی تھی‘ جس کو پہلے ہی تیار کر دیا گیا تھا۔ بھٹو صاحب کا تابوت بمع باقی بکسوں وغیرہ کے گاڑیوں سے اتار کر اتار کر ہوائی جہاز پر لادا گیا اورجہاز جیکب آباد کیلئے محوِ پرواز ہوا۔ جب یہ جہاز سکیسر کے اوپر پرواز کر رہا تھا جو میانوالی کے نزدیک ہے تو جہاز کو فنی خرابی کی وجہ سے واپس موڑ لیا گیا۔ چونکہ میں ہر چیز کا انچارج تھا اس جہاز کے عملے کا ایک افسر کاک پٹ سے اتر کر میرے پاس آیا اور مجھے بتایا کہ جہاز میں فنی خرابی کی وجہ سے ہم واپس راولپنڈی جا رہے ہیں اور وہاں سے دوسرا جہاز آپ کو جیکب آباد لے جائے گا۔ میں نے اندازہ لگاتے ہوئے ان سے پوچھا کہ کیا جہاز کے انجنوں میں سے کسی ا نجن وغیرہ میں چنگاری وٖغیرہ تو نہیں اٹھی۔ وہ صاحب حیران ہوئے اور مجھ سے پوچھاکہ اس کا علم آپ کو کیسے ہوا۔ چونکہ میں ہزاروں‘ گھنٹے سی130جہازوں پر سفر کر چکا تھا اور کئی موقعوں پر ایسا تجربہ حاصل ہوا تھا۔ اسی بنا پر میں نے اندازہ لگایا تھا۔ بہرحال اس افسر نے مجھے بتایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ جس انجن میں معمولی شعلہ اٹھا تھا اس کو بند کر دیا گیا ہے اور ہم انشاء اللہ جلد بحفاظت راولپنڈی محفوظ طریقے سے پہنچ جائیں گے۔ ہم واپس چکلالہ ائیر بیس پر بخیریت اترے‘ ورنہ ہماری قوم کو ایک کبھی نہ حل ہونے والے ہوائی حادثہ سے دو چار ہونا پڑتا اور بے شمار قصے اور افسانے بیان ہوتے رہتے اور آج میں اس بیان کو یوں سچ سچ لکھ کر قوم تک نہ پہنچا سکتا۔
چکلالہ پی اے ایف بیس پر دوسرا سی130 طیارہ ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ بھٹو صاحب کا تابوت وغیرہ اس میں سوار کر کے ہم نے دوبارہ جیکب آباد کیلئے اڑان شروع کی۔ ہم چار اپریل کی صبح سات بجے سے چند منٹ پہلے جیکب آباد کے ہوائی اڈے پر اترے‘ جہاں ایک ہیلی کاپٹر انتظار میں تھا۔ ائیر سٹرپ پر ہی 7 پنجاب رجمنٹ کے کمانڈنگ آفسر لیفٹیننٹ کرنل محمد صادق نے مجھ سے بھٹو صاحب کا تابوت وصول کیا اور ہیلی کاپٹر میں رکھوا کر ساڑھے سات بجے صبح نوڈیرو کیلئے روانہ ہوئے۔ گڑھی خدا بخش میں بھٹو صاحب کی قبر کھودی جا چکی تھی‘ جس میں انہیں دفنا دیا گیا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)

کمپوزر: طارق عباس