”جاگدے رہنا“ اس دور کا سیکیورٹی سسٹم تھا، گاؤں کی دائیاں اور چوکیدار ہرگھر کے بھیدی ہو تے تھے، رازداری کا معاوضہ بھی وصول کرتے تھے
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:39
امی جی ابا جی سے 10 سے 15 منٹ سے زیادہ ناراض نہ رہ سکتی تھیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ کسی سے بھی آدھ گھنٹے سے زیادہ ناراض نہ رہ سکتیں تھیں۔ وہ دل کی صاف تھیں جو دل میں ہوتا کہہ دیتی تھیں اور پھر دل سے ہر بات نکال دیتیں۔ یہی حال میرے والد کا بھی تھا وہ انتظار میں ہوتے کہ کب یہ مجھے بلائے۔ وہ علی الصبح اٹھتی تھیں۔ نماز سے فارغ ہو کر قرآن کریم کی مخصوص سورتوں کی تلاوت فرماتی تھیں۔ پھر ناشتے کی تیاری ہوتی۔ ابا جی کے ساتھ واک کرتی گلی کی نکڑ تک جاتیں (جب لاہور شفٹ ہو گئے تو بلکہ پینٹ فیکٹری تک واک کرتی تھیں۔) اورواپس آ کر گھریلو کاموں میں جت جاتی تھیں۔ اتنی صفائی پسند تھیں کہ مجال ہے میرے گھر میں ایک تنکا بھی کہیں گرا دکھائی دے۔ دوپہر 1 بجے تک وہ سب کاموں سے فارغ ہو جاتی تھیں۔ کچھ آرام کرتیں۔ اس زمانے میں شورکوٹ میں ابھی بجلی نہیں پہنچی تھی۔ چھت سے لگے کپڑے کے بڑے پنکھے کو رانی اور کیجو باری باری کھنچتے تھے۔دوپہر کے آرام سے فارغ ہو کر وہ ابا جی کا دفتر سے واپسی کا انتظار کرتی تھیں۔ اگر کسی محلے دار کے گھر بھی گئی ہوتیں تو اس بات کو یقینی بناتی تھیں کہ والد کے گھر لوٹنے سے پہلے گھر واپس پہنچ جائیں کہ شام کی چائے وہ اکٹھے پیتے تھے۔کبھی محلے کی عورتیں انہیں ملنے آئی ہوتیں تو وہ بھی والد کے گھر آنے سے پہلے اپنے گھروں کو لوٹ جاتی تھیں کہ اس زمانے کے رواج کے مطابق عورتیں اپنے خاوند کے آنے سے پہلے اپنے گھر ہوتی تھیں۔ افسوس آج ایسا کچھ بھی نہیں رہا۔ امی جی کی ایک اور خوبی یہ بھی تھی کہ اتنے دولت مند باپ کی لاڈلی اکلوتی بیٹی ہونے کے باوجود جب بھی میرے والد نے دوسرے شہرجانا ہوتا وہ صبح سویرے اٹھتے تو میری والدہ بھی اسی وقت اٹھ جاتیں، ان کا ناشتہ تیار کرتیں انہیں رخصت کرتی تھیں۔
شورکوٹ قصبہ ہی تھا۔ جہاں رات کو چوکیدار ایک ہاتھ میں لالٹین پکڑے اور دوسرے ہاتھ میں لمبا موٹا ڈنڈا زمین پر مارتے عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق تک آ واز لگاتا؛”جاگدے رہنا“۔یہ اس دور کا سکیورٹی سسٹم تھا۔ گاؤں کی دائیاں اور چوکیدار گاؤں کے ہرگھر کے بھیدی بھی ہو تے تھے۔ انہیں وہ باتیں بھی معلوم ہو تی تھیں جو والدین کے علم میں بھی نہ ہوتی تھیں۔اس رازداری کا وہ معاوضہ وصول کرتے تھے اور بعض دفعہ زیادہ معاوضہ لے کر راز فاش بھی کر دیتے۔
سکول میں؛
پہلا سکو ل ٹاٹ والا سرکاری سکول گھر سے دور نہیں تھا۔ مجھے پڑھنے اور لکھنے کا شوق اسی زمانے سے ہو گیا تھا۔ میں پہلی سے دسویں جماعت تک ہمیشہ ہی ا ؤل درجے کا طالب علم رہا۔ ان 10 سالوں میں 9بار تو ضرور پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ 4 سال کا بچہ ہی سکول جاتا اور کچی پہلی جماعت ہوتی۔ یہ آج کل کے ”پلے گروپ“ والے چونچلے نہ تھے۔ تختی اور سلیٹ بستے کا لازمی حصہ تھے۔مجھے پہلے سکول کے اساتذہ بالکل بھی یاد نہیں رہے۔ سرکنڈے کے قلم سے تختی لکھی جاتی تھی۔ تیز چاقو سے اس کی نوک بنائی جاتی تھی۔ بہرحال جب سے تختی لکھنے کا رواج ختم ہوا بچوں کی اردو کی لکھائی میں خوشخطی والی بات ہی ختم ہو گئی ہے۔ میری اردو انگریزی دونوں ہی کی لکھائی عمدہ تھی۔ شورکوٹ میں ہمارے گھر میں بجلی نہ تھی۔ لالٹین کی روشنی میں ہی پڑھنا پڑتا تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔