پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ قسط نمبر 27
رحم کی اپیل۔ سپریم کورٹ میں نظر ثانی اپیل کی نا منظوری کے بعدپاکستان پیپلز پارٹی کے ایکٹنگ جنرل سیکرٹری مسٹر وٹو نے کورٹ میں رحم کی اپیل کی درخواست دائر کی‘لیکن اس کا بھی وہی حشر ہواجو پہلے والی کوشش کا ہوا تھا۔ بلکہ رحم کی اپیل کا اخبارات میں کوئی خاص ذکر تک نہ ہوا۔ ادھربھٹو صاحب کی حالت جیل میں بد سے بد تر ہو رہی تھی مگر اس شخص نے ذرہ بھر پرواہ نہیں کی اور تمام تکالیف جھیلتا رہا اور اپنے طریقے سے لڑائی کرتا رہا۔
اگر بھٹو صاحب کی اپیل سپریم کورٹ میں منظور ہو بھی جاتی تو بھی انہیں آزاد نہ کیا جاتا!
5 فروری1979ء کو دس بجے صبح مجھے ایس ایم ایل اے کے ساتھ ڈی ایم ایل اے کے دفتر بلایا گیا‘جہاں ہمیں بتایا گیا کہ شایدکل‘ مورخہ6فروری کو سپریم کورٹ بھٹو صاحب کی اپیل منظور کرنے کے بعد حکم جاری کرے کہ ان کو آزاد کر دیا جائے مگرایسے حکم کے بعد بھی انہیں سپریم کورٹ سے باہر نہیں جانے دیا جائے گااور وہ مارشل لاء کے تحت کئی اور مقدمات میں مطلوب ہیں جن کے تحت ان پر الگ مقدمہ چلایا جائے گا۔ مجھے صاف صاف بتادیا گیاکہ اگر سپریم کورٹ بھٹو صاحب کیلئے آزادی کا حکم بھی صادر کر دے کہ انہیں جیل سے نکال دیا جائے تو بھی ا ن کو جیل سے باہر ہرگز جانے نہیں دیا جائے گا۔ مجھے اس وقت صاف پتا چل گیا تھا کہ بھٹو صاحب کو حکام کسی بھی حالت میںآزاد نہیں ہونے دیں گے اور انہیں ہر حالت میں سزا ہونی ہے جس کا مجھے بے حد ملال ہوا۔ صرف مارشل لاء جیسے نظام میں ایسا حکم صادر کیا جا سکتا ہے کہ اگر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کسی مقدمے کا فیصلہ کر دے تو اس کو بھی نہ ماننے کا حکم دیا جا سکتا ہے ! مجھے دوسرے ذرائع سے معلوم ہوا کہ ایک خاص ملٹری کورٹ بھی مقرر کر دیا گیا تھا تاکہ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ حسب منشاء نہ ہوا تو اس کورٹ میں بھٹو صاحب کے مقدموں کی سماعت کی جائے گی۔
پنڈی جیل میں بھٹو صاحب کی اسیری کے دوران تو مجھ سے دوستوں ‘ ساتھی افسروں اور ہر عہدہ کے سینئر افسروں نے ان کے متعلق کوئی خاص معلومات حاصل کرنے کی کوشش نہ کی لیکن ان کی پھانسی کے لگ جانے کے بعد ہر ملنے والے نے اس موضوع پر بار بار پوچھا اور چونکہ بھٹو صاحب کے متعلق افواہیں گشت کر رہی تھیں اسلئے مجھ سے ہر خاص وعام نے حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کی۔ ایسی ملاقاتوں کے دوران کئی ذمہ دار افسروں نے اس مقدمے کے کئی پہلو اور اصلی واقعات جو بالائی سطح پرظہور پذیر ہوتے رہے ان کی خفیہ تفصیلات بھی مجھے بتائیں جو میرے لیے بے حد حیران کُن تھیں۔ اگر میں ان تفصیلات کو بھی قلمبند کر دوں تو ایک نئے تنازعے(controversy) کا طوفان کھڑا ہو جائے گا۔ بہرحال اس کتاب میں‘ مَیں وہی کچھ لکھ رہا ہوں جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھااور کانوں سے سنا۔ ویسے نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے متعلق‘ پنجاب ہائیکورٹ اور اس کے فیصلہ پر اثراندازی کے متعلق‘سلطانی گواہ اور دوسرے گواہوں کے بارے میں اور دیگر متعلقہ باتوں کے متعلق مجھے بے حد معتبرذرائع سے بہت کچھ معلوم ہوا ہے جن پر میرے لئے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ لیکن چونکہ ایسی باتیں سنی سنائی کے زمرے میں آتی ہیں اس لئے میں ایسے معتبر ذرائع سے بتائی ہوئی حقیقتوں کوان صفحات پر کوئی جگہ نہیں دے رہا۔
موت کا پروانہ( Black Warrant ) ۔ پنجاب ہائیکورٹ نے مسٹر ذوالفقار علی بھٹوکو18مارچ1978ء کو موت کی سزاسنائی تھی۔ اس فیصلے پر سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کی گئی اور انہیں 17 مئی1978ء کو لاہور سے پنڈی جیل منتقل کر دیا گیا۔ 6فروری1979ء کو سپریم کورٹ نے ان کی اپیل مسترد کر دی۔ پھر نظرِثانی اپیل بھی سپریم کورٹ نے24مارچ1979ء کو مسترد کر دی۔ نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کیس میں مندرجہ ذیل پانچ مجرموں کو موت کا پروانہ ( Black Warrant )سنٹرل جیل راولپنڈی میں 30مارچ1979ء کو موصول ہوا۔
1۔ مسٹر ذولفقار علی بھٹو
2۔ میاں غلام عباس
3۔ صوفی غلام مصطفی
4۔ رانا افتخار
5۔ مسٹر ارشد اقبال
چونکہ نظر ثانی کی اپیل کو خارج کرتے وقت اس دن(30-3-79) کو ابھی سات دن نہ گزرے تھے اس لئے موت کا پروانہ حکومت پنجاب نے واپس منگوا لیا تھا۔ (وہ وقت اگلے روز یعنی31مارچ1979ء کو پورا ہونا تھا)
گورنر پنجاب نے اس کیس میں مداخلت نہ کرتے ہوئے یکم اپریل1979ء کو صبح دس بجے دستخط کردیئے۔ صدر پاکستان نے بھی مداخلت نہ کرتے ہوئے اسی دن (یکم اپریل1979ء) کو دستخط کر کے سزا کی توثیق کر دی تھی۔ حکومت نے فیصلہ کیا کہ مسٹر بھٹو کو باقی چار مجرموں سمیت2 اپریل کی صبح5 بجے پھانسی دے دی جائے۔ کسی وجہ سے اس فیصلے پر بھی نظر ثانی ہو گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ صرف بھٹو صاحب کو اکیلے پھانسی دی جائے اور باقی چار مجرموں کو ابھی یہ سزا نہ دی جائے۔ اس لئے بھٹو صاحب کی پھانسی کا وقت2 اپریل کو ملتوی کر دیا گیا اور پانچ مجرموں کی موت کا مشترکہ پروانہ دوسری دفعہ بھی راولپنڈی جیل کے سپیشل کوریئر کے ذریعے لاہور واپس منگوالیا گیا تا کہ اکیلے بھٹو صاحب کیلئے موت کا پروانہ تیا ر کیا جائے۔
مجھے بتایا گیا کہ چیف جسٹس پنجاب ہائیکورٹ مولوی مشتاق صاحب نے صرف بھٹو صاحب کی موت کے پروانے پر دستخط کرنے پر نا رضامندی ظاہر کی تھی‘ جس کے مطابق انہیں 3 اپریل رات دو بجے پھانسی لگانا تھی اور چیف جسٹس صاحب نے یہ کہا تھاکہ سپرنٹنڈنٹ جیل اپنا اختیاری حق استعمال کرے اور مجرموں کو الگ الگ وقت میں پھانسی لگائے۔ مگر حکام بالا نے جب انہیں یہ یا ددلایا کہ یہ فیصلہ تو ان کا اپنا ہے اور اصلی مجرم ہی پھانسی لگایا جا رہا ہے تو انہوں نے مجبور اً صرف بھٹو صاحب کے موت کے پروانے پر دستخط کئے۔ اس طرح صرف بھٹو صاحب کی موت کا پروانہ راولپنڈی جیل میں 2 اپریل کو ایک بجے بعد دوپہر وصول ہوا اور بھٹو صاحب کو تین اپریل 1979ء رات دو بجے پھانسی لگانے کی تمام کارر وائی شروع کردی گئی۔ بیگم نصرت بھٹو اور مس بے نظیربھٹو کو آخری ملاقات کیلئے بلایا گیا(دراصل انہیں آخری ملاقات کا نہ بتایا گیا تھا بلکہ بھٹو صاحب سے ملنے جیل آنے کو کہا گیا تھا)مس بے نظیر بھٹو نے ‘ جو سہالہ ریسٹ ہاؤس میں زیرِحراست تھیں‘ یہ کہلا بھیجا کہ ان کی طبیعت ناساز ہے اس لئے وہ اس وقت دو اپریل بعد دوپہر نہیں آ سکتیں۔ اسی دوران ہوم سیکر ٹری پنجاب ڈی ایم ایل اے کے دفتر سے ہوتے ہوئے پنڈی جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر آئے اور میری موجودگی میں جیل سپرنٹنڈنٹ اور آئی جی جیل خانہ جات کو بتایا کہ قانون کے مطابق چونکہ صدرِپاکستان کے دستخطوں کو48 گھنٹے نہیں گزرے اس لئے بھٹو صاحب کو تین اپریل کی رات دو بجے پھانسی نہیں دی جا سکتی۔ یہ نکتہ حکومت پنجاب نے اٹھایا تھا‘ اس لئے بھٹو صاحب کی پھانسی ایک دن اور روک دی گئی۔ ادھر بیگم نصرت بھٹو اور مس بے نظیر بھٹو کو اطلای دی گئی کہ اگر ان کی طبیعت ناساز ہے تو ان کو آنے کی ضرورت نہیں۔ ایس ایم ایل اے نے 2 اپریل کو مجھے اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو مندرجہ ذیل احکامات جاری کئے تھے۔
1۔ بھٹو صاحب کو ان کی پھانسی کاآ خری نوٹس راولپنڈی جیل سپرنٹنڈنٹ مسٹر یارمحمد‘ لیفٹیننٹ کرنل رفیع الدین کی موجودگی میں ان کے سیل میں دیں گے۔ بعد میں تین اپریل دن کو بتایا گیا کہ نوٹس دیتے وقت فرسٹ کلاس مجسٹریٹ بشیر احمد خان اور پنڈی جیل کے ڈاکٹر صغیر شاہ بھی آ خری نوٹس دیتے وقت سیل میں حاضر ہوں گے۔
مجھے الگ بتایا گیا کہ
2۔ بھٹو صاحب کو آخری نوٹس جاری کرنے کے بعد ان کو پھانسی لگنے تک ان کے تاثرات اور ان کی بات چیت ریکارڈ کرنا ہوگی۔ (اس کام کیلئے میں نے صوبیدار عجائب خان27 پنجاب رجمنٹ کو مقرر کیا)
3۔ آخری نوٹس کے فوراً بعد اپنا ایک فوجی بھٹو صاحب کے سیل پر تعینات کر دیں جو پھانسی لگنے تک ڈائری ریکارڈ کرے گا۔(صوبیدار عجائب خان)
4۔ آخری نوٹس پر فوجی گارڈ بھی جیل گارڈ کے اوپر سیکیورٹی سیل پر super impose ) کر دی جائے گی۔
5۔ جیل کے ٹیلیفون : سورج غروب ہوتے ہی جیل کے تمام ٹیلیفون کاٹ دیئے جائیں تاکہ جیل کا رابطہ باہر کی دنیا سے منطقع کر دیا جائے۔ صرف فوجی ٹیلیفون جو صرف ایک افسر سنے گا کام کرتا رہے گا اس کے علاوہ خاص وائرلیس سیٹ بھی کام کرتا رہے گا۔
6۔ سورج غروب ہونے پر جیل کا صدر دروازہ فوجی گارڈکے تحت کام کرے گا جو 4 اپریل کی صبح تک اس کنٹرول پر معمور رہے گی۔
7۔ فائنل نوٹس کے بعد کوئی شخص 4 اپریل کی صبح تک جیل میں نہ داخل ہو سکے گا اور نہ باہر جا سکے گا۔
8۔ صوبیدار میجر27 پنجاب خاموشی سے تابوت‘ پھول‘ گلاب کا عرق اور سینٹ وغیرہ کابندوبست کرے گا۔
9۔ دو گاڑیاں‘ ایک بھٹو صاحب کی لاش کیلئے اور دوسری گارڈ کیلئے‘ پھانسی لگ جانے کے بعد‘ حکم ملنے پر جیل میں داخل ہوں گی۔ تین ہتھیاروں کے خالی بکس بھی‘ جو تابوت سے مشابہ ہوں گے‘ ان گاڑیوں میں رکھے جائیں گے تاکہ ائیر بیس پر دیکھنے والوں کو یہ محسوس ہو کہ فوجی کہیں ہتھیار لے جا رہے ہیں۔
10۔ ایک فیلڈ افسر کے ماتحت ایک سیکشن پوری فوجی تیاری کے ساتھ بھٹو صاحب کی لاش کے ساتھ جائے گی۔ لیفٹیننٹ کرنل رفیع‘ بھٹو صاحب کی میت کے ساتھ پنڈی سے نوڈیرو جائیں گے‘ جہاں قبر اور تدفین کا بندوبست تیا ر ہو گا۔
11۔ لیفٹیننٹ کرنل رفیع کے ساتھ ایک وائرلیس سیٹ رہے گا اور بھٹو صاحب کی پھانسی پر وہ ایس ایم ایل اے کو‘ جس کا ہیڈ کوارٹر جیل سے باہر ایس ایس پی کے دفتر میں ہو گا‘ کوڈ ورڈ بلیک ہارس ( Black Horse ) سے اطلاع دیں گے۔
12۔ بھٹوصاحب کی لاش کو غسل دینے کیلئے27 پنجاب رجمنٹ ایک آدمی کا بندوبست کرے گی( یہ کام بعد ازاں تین اپریل کو ایس ایس پی راولپنڈی کوسونپ دیا گیا تھا)
13۔ ایک فوٹو گرافر ‘ جو ایک انٹیلی جنس ایجنسی سے تھا‘ ا پنے سامان کے ساتھ تین اپریل شام پانچ بجے جیل میں رپورٹ کرے گا۔ وہ بھٹو صاحب کی لاش کے فوٹو لے گا( تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان کے ختنے ہوئے تھے یا نہیں؟)(مجھے سرکاری طور پر بتایا گیا تھا کہ مسٹر بھٹو کی ماں ہندو عورت تھی جو ان کے والد نے زبردستی اپنا لی تھی اور مسٹر بھٹو کا پیدائشی نام نتھا رام تھا اور غالباًان کے ختنے نہیں کرائے گئے تھے) پھانسی او ر غسل کے بعد اس فوٹو گرافر نے بھٹو صاحب کے جسم کے درمیانی حصے کے نزدیکی فوٹو لئے تھے۔ پڑھنے والوں کیلئے میں بتا دوں کہ بھٹو صاحب کا اسلامی طریقہ سے باقاعدہ ختنہ ہوا ہوا تھا۔
14۔ مجھے یہ بھی حکم دیا گیا کہ تین اپریل کی صبح گیارہ بجے یقین کر لیا جائے کہ جلاد‘ تارہ مسیح پنڈی جیل میں موجود ہے اور اسے پنڈی جیل کے ایک کمرہ میں مقفل کر دیا جائے۔ یہ کام جیل سپرنٹنڈنٹ نے سر انجام دیا تھا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
کمپوزر: طارق عباس