پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ قسط نمبر 26
بعد میں میں نے لاکھ کوشش کی اور حالات بتانے کی سعی کی مگر ایس ایم ایل اے کا یقین مجھ سے اٹھ چکا تھا۔ اسی شام ڈی ایم ایل اے نے اپنے دفتر میں مجھے بلابھیجا جہاں ایس ایم ایل اے‘ کمشنر راولپنڈی ڈویژن‘ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی‘ ڈی آئی جی پولیس راولپنڈی رینج‘ ایس ایس پی راولپنڈی اور ایس پی اسلام آباد بھی کانفرنس کیلئے آ ئے ہوئے تھے۔ کانفرنس کے شروع ہی میں ڈ ی آ ئی جی پولیس نے کہا بیگم بھٹو جیل کے اندر کیسے چلی گئیں۔ پیشتر اس کے کہ مجھے جواب دینے کو کہا جاتا ڈی ایم ایل اے‘ جنرل شاہ رفیع عالم نے انہیں غصے ہوتے ہوئے کہا’’یہ فیصلہ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کرنل رفیع کا تھا مگر ان سے پوچھا کہ آپ(ڈی آئی جی پولیس) یہ بتائیں کہ بیگم بھٹو پولیس کی اتنی بڑی گارڈ کے باوجود اسلام آبادجس گھر( پراچہ ہاؤس) میں زیرِ حراست تھیں وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب کیسے ہوئیں اور پھر پنڈی اور اسلام آباد کی پولیس کو ہوشیار کرنے کے باوجود جیل تک پہنچنے میں کس طرح کامیاب ہوئیں‘‘ جنرل صاحب نے پولیس کی کافی کٹ لگائی اور انتظامیہ کو خبردار کیا کہ آئندہ کیسا وقت آ رہا ہے اور کتنی ہوشیاری کی ضرورت ہو گی۔ اس کانفرنس کے بعد مجھے ایس ایم ایل اے کے سامنے دوبارہ اپنی صفائی پیش کرنی پڑی۔
جب میں8 فروری کو دوبارہ سیکیورٹی وارڈ میں گیا تو بھٹو صاحب کچھ خاموش خاموش تھے اور کچھ دیر بعد انہوں نے گلہ کیا کہ میں نے ان کی بیگم صاحبہ سے چلّا کر کہا تھا کہ فوراًواپس چلی جائیں‘ میں نے انہیں پورا قصہ سنایا اور اس وقت تک جو مجھ پر گزری تھی وہ روئیداد بھی بیان کی اور ان سے صاف صاف کہہ دیا کہ ان کے ایک خاص نظر سے مجھے دیکھنے پر میں نے حکام بالا کی حکم عدولی کی او ر بیگم صاحبہ کو اندر آ نے کی اجازت دی اور پھر سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ باہر زنانہ پولیس کھڑی تھی ۔ادھر بیگم صاحبہ باہر نہ جانے پر بضد تھیں اور میں یہ کسی حالت میں نہ چاہتا تھا کہ ماضی کی خاتونِ اوّل آپ کی آنکھوں کے سامنے پولیس فورس سے دست و گریباں ہو۔ میں نے ان سے صاف صاف کہا کہ جناب کیا میرا چلّانا آ پ کی خیر خواہی( Good faith ) میں نہ تھاجس پر انہوں نے اپنا سر ہلا کر میری حوصلہ افزائی کی اوربعد میں میرا شکریہ ادا کیا کہ میں نے ان کی وجہ سے اتنی تکلیف اٹھائی اور مجھے جواب طلبی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی موقع پر انہوں نے مجھ سے شکایت کی کہ جیل کے لوگ ان سے اچھا سلوک نہیں کر رہے اور مجھ سے کہنے لگے کہ یہ ان کی بے عزتی ہے۔ میں نے ان کے حالات کے متعلق سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس وقت ہوا کا رخ تبدیل ہو چکا تھااور جیل والے کسی قسم کی بات سننے کے موڈ میں نہ تھے۔
نظر ثانی اور رحم کی اپیل: 22 مارچ1979 ء کو جب میں بھٹو صاحب سے ملا تو انہوں نے جیل حکام کے خلاف کافی شکایات کیں۔ میں نے ان کو بتایا کہ میں اب اس پوزیشن میں نہیں ہوں جس میں پہلے تھااور جیل حکام پر بھی کافی سختی کی جارہی ہے کیونکہ حکام بالا ہر لمحہ متفکر ہونے کی وجہ سے سیکیورٹی وارڈ کا خاص خیال رکھ رہے ہیں اور جیل حکام کو قانونی طور پر مجبور کر رہے ہیں کہ وہ کتابی احکامات کے مطابق سختی سے کام چلائیں۔ میں نے بھٹو صاحب کو صبر کی تلقین کی۔ ان دنوں بھٹو صاحب ٹہلائی کے لئے سیل سے باہر بہت کم نکلتے تھے۔ وہ کہنے لگے ایک عام وارڈ بھی مجھے حکم دیتا ہے کہ وقت ختم ہو گیا ہے اور اندر سیل میں چلیں وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ایسا برتاؤ برداشت نہیں کر سکتے۔
ان دن باتوں باتوں میں بھٹو صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ سپریم کورٹ میں نظر ثانی کا کیا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ میں نے اپنی لاعلمی کا ذکر کیا۔ پھر انہوں نے خود ہی کہا کہ شاید کورٹ 25مارچ کو اپنا فیصلہ سنائے جو اپیل جیسا ہی ہو گایعنی تین/چار کا فیصلہ ہو گا۔ چونکہ میرا سپریم کورٹ کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی میرے حلقہ احباب میں کبھی اس کا ذکر ہوا تھا اس لئے مجھے کوئی علم نہ تھا۔ نظر ثانی اپیل کا فیصلہ 24 مارچ 1979 ء کو سنایا گیا اور یہ بھی نامنظور ہوا۔ نظر ثانی اپیل کے فیصلے کا اعلان ہوتے ہی مجھے اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو مندرجہ ذیل احکامات پر عمل کرنے کا حکم ملا!
1 ۔ مسٹر بھٹو کو عام پھانسی والے مجرم کی طرح سمجھا جائے گا اور ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔
2 ۔ ملاقاتیوں کی ان کے ساتھ ملاقات باقاعدہ قانون کے مطابق ہو گی جس کی میعاد صرف آدھ گھنٹہ ہو گی۔
3 ۔ تمام ملاقاتیوں کی تلاشی لی جائے گی‘ بہرحال چونکہ سپریم کورٹ نے پہلے اس سلسلہ میں نرمی برتنے کی ہدایت کی تھی اس لئے حکومت کا فیصلہ معلوم کر کے بتایا جائے گا۔
4 ۔ جیل میں باہر سے طعام کا لانا بند کر دیا جائے گا۔ پہلے کھانا پراچہ ہاؤس اسلام آباد سے آتا تھا اور 5 فروری1979 ء سے ڈاکٹر ظفر نیازی کے گھر سے آ رہا تھا۔
5 ۔ کھانے کا بندوبست سیکیورٹی وارڈ میں ہی کیا جائے گا اور اگلے حکم تک قیدیوں کے لنگر کے بجائے اندر سیکیورٹی وارڈ میں ہی کھانا تیار کیا جائے گا۔
6 ۔ بھٹو صاحب کے سیل سے نوار والا پلنگ اٹھا لیا جائے اور لوہے کے سپرنگوں والا بستر دید یا جائے۔
7 ۔ بجلی کی روشنی والے بٹن( Switches ) ان کے سیل سے باہر دالان ( Corridor ) میں منتقل کر دیئے جائیں اور ان کو باہر ہی سے جلایا اور بجھایا جائے گا۔
8 ۔ بھٹو صاحب پر سنتری کی نگاہ رات دن رہے گی جو ان کے سیل کے دروازے میں کھڑا رہے گا۔
9۔ ان کے سیل سے تمام ادویات وغیرہ باہر نکال لی جائیں گی۔
10۔ سیکیورٹی وارڈ سے فریج نکال کر انہیں اس سہولت سے محروم کر دیا جائے گا۔
11۔ ملاقات صرف30 منٹ کی ہو گی اور ملاقاتی آہنی گیٹ سے باہر رہے گا اور ملاقات کے دوران گارڈ سٹینڈ ٹو ( Stand To ) رہے گی۔
12۔ نہلائی کا وقت صرف آدھ گھنٹہ کا ہو گا اوراس دوران بھی گارڈ سٹینڈ ٹو رہے گی۔
13۔ البتہ اخبارات وغیرہ پہلے کی طرح انہیں دیے جاتے رہیں گے۔
14۔ رات کے وقت فیلڈ افسر جو سیکیورٹی بٹالین سے ہو گا آ پریشن روم میں ڈیوٹی پر تعینات رہے گا تاکہ سیکیورٹی کو یقینی بنایا جا ئے۔
مندرجہ بالا احکامات نے بہت بڑا مسئلہ کھڑا کر دیا کیونکہ بھٹو صاحب ان باتوں پر عمل کرنے کیلئے تیا ر نہ تھے۔ بہرحال احکامات پر عمل درآمد تو ہونا ہی تھا۔ جیل حکام نے فوراًعمل شروع کر دیا۔ نوار کی چارپائی کو ان کے سیل سے نکال دیا گیا‘لیکن بھٹو صاحب نے لوہے کی چارپائی اندر نہ ڈالنے دی اور گدا سیل کے فرش پر ہی بچھالیا۔ انہوں نے اپنی ادویات اور حجامت کا سامان سیل سے باہر نہ نکالنے دیا۔ جیل حکام نے فیصلہ کیا کہ جب وہ غسل خانے میں جائیں گے تویہ چیزیں ان کے سیل سے باہر نکال لی جائیں گی۔ یا تو انہوں نے یہ بات سن لی پھر کسی نے کسی طرح انہیں بتا دی۔ اس لئے وہ غسل خانے سے کموڈ جو لکڑی کا ڈبہ ہی تھا جا کر خود اٹھا لائے اور اسے سیل کے ایک کونے میں رکھ دیا۔ اور پھر سیل سے باہر نکلنے پر رضا مند بھی نہ ہوئے۔ جب جیل حکام نے یہ دیکھاتو چند وارڈ اکٹھے کیے گئے اور سیکیورٹی وارڈ میں لے جا کر ان کو دالان میں حکم دیا گیا کہ کاروائی ہر حالت میں کی جائے گی۔ بھٹو صاحب نے جب یہ حالت دیکھی تو ایک بے بس انسان کی طرح خاموش رہے اور اس طرح جیل حکام نے ان کے سیل سے ان کی ادویات وغیرہ اور حجامت کا سامان نکال لیا۔ اسی وقت بجلی کے سوئچ وغیرہ بھی باہر منتقل کر دیئے گئے۔ وہ اس کارروائی پر بے حد غضبناک ہوئے مگر ساتھ ہی ساتھ بے بسی کا عالم بھی تھا۔ قہر درویش بر جانِ درویش والی بات ہوئی۔ جب وہ اور کچھ نہ کر سکے تو انہوں نے 24 مارچ دن کو بھوک ہڑتال کر دی۔ انہوں نے23 مارچ شام کو کھانا کھایا تھا اس کے بعد انہوں نے نہ کچھ کھایا نہ کچھ پیا۔ انہوں نے نو (9) دن بھوک ہڑتال کی اور اس طرح24مارچ سے یکم سے اپریل1979ء کی شام تک انہوں نے نہ تو کچھ کھایا نہ پیا۔ اس دوران میں ان کو جا کر نہ دیکھ سکا کیونکہ مجھے حکم مل گیا تھا کہ میں ان کو اکیلا نہیں مل سکتا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ اور میں دونوں اکٹھے صرف خاص حکم پر بھٹو صاحب کے سیل میں جائیں گے۔ ورنہ اگر میں ان کو ان دنوں میں اکیلا مل سکتا توشاید ان کو کچھ کھانے پینے پر آمادہ کر سکتا اور انہوں نے جو اتنی لمبی بھوک ہڑتال کی اور بے حد کمزور ہو گئے تھے میں اس کا کچھ نہ کچھ سدّباب کر سکتا۔ 29مارچ1979ء کو مسٹر پیرزادہ ‘ جوان کے کونسلر بھی تھے‘ ان سے ملنے جیل کے دفتر میں آئے۔ مجھے بتایا گیا کہ مسٹر بھٹو صرف ایک تولیا اپنے ارد گرد لپیٹے ہوئے ہیں‘ کیونکہ انہوں نے اپنے کپڑے خود دھوئے ہیں اور وہ سوکھ رہے ہیں۔ انہیں جیل حکام نے بتایا کہ مسٹر پیرزادہ انتظارمیں بیٹھے ہیں تب انہوں نے اپنے دھوئے ہوئے کپڑے استری کیلئے دیئے جو آدھے خشک اور کچھ گیلے ہی تھے‘ پہن کر مسٹر پیرزادہ سے ملے۔ مجھے اس دن بتایا گیا کہ ان کی حالت بے حد خراب اور کمزور تھی لیکن میں جیل کے دفتر سے ان کے سیل تک نہ جا سکتا تھا کیونکہ میں ایس ایم ایل اے کے احکامات کی پابندی پر مجبور تھا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
کمپوزر: طارق عباس