پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ قسط نمبر 25
میں واپس باہر کھڑی جیپ کو چلاتے ہوئے اسی رفتار اور تیزی سے ڈی ایم ایل اے کے دفتر پہنچا اور ان کو بتایا کہ ان کا حکم پہنچا دیا ہے۔ مجھے شاید زیادہ سے زیادہ دس منٹ لگے ہوں گے۔ اس لئے جنرل صاحب بے حد خوش ہوئے اور مجھے شاباش دی۔ میں ان کے ساتھ ان کے دفتر میں ہی بیٹھ گیا اور چائے اور گپ شپ چل رہی تھی کہ جنرل صاحب کا ٹیلیفون بجنے لگا۔ انہیں بتایا گیا کہ سپریم کورٹ نے بھٹو صاحب کی اپیل مسترد کر دی ہے اور انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ بھٹو صاحب کے ساتھ دوسرے قیدیوں کی اپیلیں بھی اتفاق رائے کے ساتھ نا منظور کر دی گئی ہیں۔ میں اس ٹیلیفون کی بات چیت سے یہ سمجھا کہ شاید بھٹو صاحب کی اپیل بھی سپریم کورٹ نے اتفاق رائے سے ہی نا منظور کر دی ہے۔ جنرل صاحب نے ٹیلیفون بند کرنے کے بعد مجھے بتایا کہ اپیل نا منظور ہو چکی ہے اور پچھلے دن کے بتائے ہوئے احکامات پر فوراً عمل کرنا چاہئے۔
میں وہاں سے جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر گیا جہاں وہ انتظار میں بیٹھا تھا۔ جاتے ہی انہوں نے مجھ سے پوچھا ’’کوئی خبر؟‘‘ میں نے انہیں بتایا کہ سپریم کورٹ نے بھٹو صاحب اور دوسرے قیدیوں کی اپیل نا منظور کر دی ہے۔ جیل کے حکام نے جونہی یہ خبر سنی ان میں زندگی واپس آگئی کیونکہ کہ اگر بھٹو صاحب کی اپیل منظور ہو گئی ہوتی تو شاید ان کیلئے زمین تنگ ہو جاتی۔ یار محمد صاحب نے چائے کیلئے کہا اور ہم آئندہ کے ایام کے متعلق سوچنے لگے۔
تقریباً گیارہ بجے کے قریب یار محمد صاحب نے مجھے کہا کہ کیوں نہ جا کر بھٹو صاحب کو اطلا ع دی جائے۔ ہم دونوں سیکیورٹی وارڈ گئے جہاں بھٹو صاحب ایک خاص سوچ میں بیٹھے نظر آئے۔ یا ر محمد صاحب نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ سپریم کورٹ نے ان کی اپیل نا منظور کر دی ہے۔ بھٹو صاحب نے ان کی یہ بات سن کر کوئی خاص ردّعمل ظاہر نہ کیا ‘ بلکہ کہنے لگے’’ ہاں یہ تو مجھے اندازہ ہو ہی چکا تھا کہ اپیل نا منظور ہو گئی ہے ورنہ کوئی نہ کوئی بھاگا ہو آتا اور مجھے ساڑھے نو اور دس بجے کے درمیان بتاتا‘‘ البتہ جب یا ر محمد صاحب نے بھٹو صاحب کواپیل کے رد ہونے کی خبر دی تو ان کے چہرے پر میں نے ایک خاص اندرونی درد کی کیفیت دیکھی۔ انہوں نے پھرفوراًپوچھا ’’ کیا یہ کورٹ کا متفقہ فیصلہ تھا؟‘‘
چونکہ میں نے جنرل شاہ رفیع عالم صاحب کے دفتر میں ٹیلیفون کی بات چیت سے یہی اندازہ لگایا تھا کہ یہ سپریم کورٹ کا متفقہ فیصلہ تھا( در اصل دوسرے قیدیوں کے متعلق کورٹ کا متفقہ فیصلہ ہوا تھا اور بھٹو صاحب کے متعلق تین/چار کا فیصلہ تھا) اور جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں ‘ مَیں نے ان کو یونہی بتایا تھا‘ اسلئے انہوں نے بھٹو صاحب کو بتایا کہ وہ جج صاحبان کا متفقہ فیصلہ تھا۔ جس پر انہوں نے کچھ تعجب کا اظہارظاہر کیا‘ مگر خاموش رہے۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا’’ باہر بڑا اچھا موسم ہے اور باہر کورٹ یارڈ میں کیونکہ نہ بیٹھا جائے‘‘
باہر کرسیاں بچھائی گئیں اور ہم تینوں دھوپ میں بیٹھ گئے۔ بھٹو صاحب نے مجھ سے کافی یا چائے کے متعلق پوچھا۔ میں نے وہی جواب دیا ’’ جناب جو آپ نوش کرنا چاہیں‘‘ انہوں نے مشقّتی عبدالرحمٰن سے کہا ’’ کافی لاؤ‘‘ ہم تینوں خاموشی سے بیٹھ گئے کیونکہ حالت ہی کچھ ایسی تھی‘ لیکن بھٹو صاحب نے اپنے آپ پر کمال کنٹرول دکھایا اور ایسا محسوس ہوا کہ اس بری خبر کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور بالکل ڈھیلے ڈھالے موڈ میں اپنے آپ کو ظاہر کیا‘ جیسے کہ ان کو ذرہ بھر پروا نہیں ہوئی‘ جس نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ بلکہ وہ اور زیادہ زندہ دلی کے موڈ میں نظر آ نے لگے اور جب یار محمد نے ان کی چرب زبانی کی تعریف کی تو کہنے لگے۔ یا رمحمد ہم نے اس زبان کو بڑے طریقوں سے استعمال کیا ہے۔ وہ کچھ زیادہ ہی ہلکے پھلکے موڈ میں معلوم ہوئے اور میں اس سوچ میں تھا کہ جیسے ان کو سپریم کورٹ کی طرف سے اپیل کی منظوری کی خبر دی گئی ہو۔ باتوں باتوں میں انہوں نے چودھری یا ر محمد سے کہا کہ وہ انہیں کب پھانسی لگا رہا ہے اور پھر کہنے لگے ’’ہم کب اللہ تعالیٰ کے پاس جا رہے ہیں۔ ہم نے اس دنیا میں خوب عیش دیکھا ہے۔ ان کوئی پرو ا نہیں ہے‘ ہم نے جو چاہا اسے پایا‘‘( وغیرہ وغیرہ) لیکن یہ سب کچھ طنزیہ طور پر کہہ رہے تھے۔ بہرحال ان کے رویہّ نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ پھر کہنے لگے’’ بھئی میرے چند دن رہ گئے ہیں اسلئے مجھے آرام سے رہنے دیا جائے اور خوامخواہ یہ نہ کہا جائے کہ یہ کرو یہ نہ کرو وغیرہ وغیرہ‘ کیونکہ اس طرح میری توہین ہوتی ہے‘‘ پھر میرے نزدیک ہو کر میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا’’ براہِ مہربانی ہر تبدیلی کے متعلق انہیں بتایا جائے‘ خاص کر اگر ا نہیں کسی اور جگہ منتقل کیا جا رہا ہو‘‘ میں نے وعدہ کے طور پر اپنا سر ہلایا۔
تقریباًپونے بارہ بجے کورٹ یارڈ کے ایک کونے کے خیمے میں لگا ہوا ایک ٹیلیفون بجا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے جا کر اسے سنا۔ واپس آتے ہی انہوں نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ڈیوٹی افسر نے کہا ہے کہ بیگم نصرت بھٹو جیل کے گیٹ پر کھڑی ہیں کیا انہیں اندر آنے کی اجازت ہے؟ میں ایک اچنبھے میں پڑگیاکیونکہ پرانے پروگرام کے مطابق بیگم بھٹو صاحبہ کو6 فروری کوجیل میں مسٹر بھٹو سے ملنے آنا تھا۔ مگر5 فروری کو مجھے ایس ایم ایل اے نے حکم دیا تھا کہ چونکہ بیگم بھٹو کو5اور6فروری رات کو ہاؤس ارسٹ( House Arrest ) کر دیا جائے گا اس لئے ان کو پراچہ ہاؤس اسلام آباد سے باہر نہیں آنے دیا جائے گا اور ان کی6 فروری والی ملاقات نہیں کرائی جائے گی۔ میں ایک عجیب حالت میں تھاپھر جونہی میں نے بھٹو صاحب کی طرف نگاہ اٹھائی تو ان کی آنکھوں میں ایک خاص
کیفیت دیکھی ۔چونکہ اس دن ان کی اپیل نا منظور ہو چکی تھی اور حالات عجیب وغریب پلٹا کھا رہے تھے اس لئے میں نے چودھری یار محمد سے کہا‘ انہیں اندر آنے دو‘‘ تھوڑی دیر میں بیگم نصرت بھٹو ساری دنیا کو برا بھلا کہتے ہوئے نمودار ہوئیں۔ میں نے اٹھ کو ان کو سلام کیا اور انہیں اپنی کرسی پر بیٹھنے کو کہا جبکہ فوراً مشقّتی ایک اور کرسی بھی لے آیا۔ جناب بھٹو صاحب نے ان کو صبر کی تلقین کی مگر وہ کافی غصہ میں تھیں۔ انہوں نے اپیل کی نا منظوری کی خبر دی اوربھٹو صاحب کو بتایا کہ فلاں فلاں( نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے) نے ان کے خلاف فیصلہ دیا۔ چند ہی لمحے گزرے تھے کہ خیمے میں رکھا ہوا ٹیلیفون پھر بجنے لگا۔ چودھری یا رمحمد نے اٹھ کر ٹیلیفون سنا اور آکر مجھے بتایا کہ میں ایس ایم ایل اے صاحب سے بات کروں۔ میں نے بریگیڈئیر خواجہ راحت لطیف صاحب کو ڈیوڑھی کے اوپر والی چوکی سے ٹیلیفون کرتے ہوئے دیکھ لیا اور چونکہ خلائی فاصلہ 50 گز سے بھی کم تھا اور ان کی اونچی آواز بھی کسی قدر سنائی دے رہی تھی۔ وہ بے حد ناراضگی کے عالم میں تھے اور مجھے کہنے لگے ’’ میں نے ان کی حکم عدولی کی ہے اور صاف صاف احکامات کے باوجود بیگم بھٹو کو جیل میں کیوں آنے دیا گیا ہے‘‘
میں نے انہیں بتایا کہ جیل کے گیٹ اور شا رع عام پرایک تماشہ بنانے کی بجائے میں نے بیگم بھٹو کو اندر آنے کی اجازت دی ہے۔ انہوں نے مجھے حکم دیا کہ فوراًبیگم بھٹو کو باہر نکال دیا جائے۔ میں جی جناب کہہ کر واپس آیا اور خاموشی سے مسٹر بھٹو‘ بیگم بھٹو اور یار محمد کے ساتھ بیٹھ گیا۔ چونکہ بھٹو صاحب نے ہمارے درمیان ساری گفتگو سن ہی لی تھی‘ انہوں نے مجھ سے افسوس کا اظہار کیاکہ انہوں نے مجھے ناخوشگوار حالت سے دوچار کر دیا ہے۔ جواباًمیں نے ان سے کہا کہ کوئی بات نہیں اور بیگم نصرت بھٹو سے درخواست کی کہ وہ واپس تشریف لے جائیں مگر بیگم صاحبہ نے جواب دیا کہ وہ اتنی جلدی واپس نہیں جائیں گی۔ تقریباًدو تین منٹوں میں مجھے پھرٹیلیفون پر بلایا گیا اور پوچھا گیا کہ بیگم بھٹو ابھی تک باہر کیوں نہیں آئیں۔ میں نے جواب دیا کہ وہ چائے پی کر باہر آرہی ہیں۔ بریگیڈئیر صاحب بے حد غصے میں تھے اور انہوں نے مجھے حکم دیا کہ بیگم بھٹو کو فوراً باہر نکال دواور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ لیڈی پولیس سیکیورٹی وارڈ میں اندر آ رہی ہے جو بیگم بھٹو کو زبردستی کر کے باہر لائے گی۔ میں نے ان سے کہا کہ بیگم بھٹو خود باہر آ رہی ہیں اس لئے لیڈی پولیس کی ضرورت نہیں۔ پھر خیمے سے باہر آ کرمیں نے ہیڈ وارڈ سے کہا کہ کوئی بھی سیکیورٹی وارڈ والے جنگلے کے اندر نہیں آ سکتا اور اس گیٹ کا تالا نہیں کھولا جائے گا۔ اس دوران بیگم اور بھٹوصاحب اندر سیل میں چلے گئے۔ میں ہیڈ وارڈ کو ہدایت دے کرکورٹ یارڈ نے اندر سیل میں گیا۔ بیگم صاحبہ کے ہاتھ میں چائے کا پیالہ تھا جسے وہ نوش کر رہی تھیں۔ بھٹو صاحب ان سے کہہ تھے کہ وہ واپس چلی جائیں۔ میں نے بیگم صاحبہ کے نزدیک بیٹھتے ہوئے ان سے کہا’’ اللہ تعالیٰ بہت بڑا اور رحیم و کریم ہے آپ لوگ رب العزت سے معافی مانگیں اور رحم کی دعا کریں۔‘‘ بیگم صاحبہ بے حد طیش میں تھیں‘ کہنے لگیں کہ’’ کیا ہم بڑے نہیں ہیں ‘‘مجھے ان کے جواب پر بے حد حیرانی اور افسوس ہوا اور میں نے ان سے کہا ’’ محترمہ آپ اپنے آپ کو اس طرح کے مقابلے میں نہ لائیں‘‘
میرے خیال میں بیگم بھٹو اتنے غصے اور طیش میں تھیں کہ یہ الفاظ بے اختیار ان کے منہ سے نکل گئے۔ بہرحال انہوں نے اپنی پہلی انگلی اپنی کن پٹی کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا’’ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت بڑا دماغ دیا ہے‘‘ میں نے ان سے کہا’’ محترمہ آپ یہاں سے تشریف لے جائیں‘‘ وہ اورزیادہ طیش میں آگئیں۔ چونکہ ایس ایم ایل اے بہت زیادہ ناراض ہو رہے تھے اور زنانہ پولیس اندر بھیجنے کو کہہ رہے تھے ۔ادھر بیگم بھٹو بھی آپے سے باہر ہو رہی تھیں تو شاید میں نے ان سے اونچی آواز میں ان سے کہا ’’ براہِ مہربانی میری مجبوری کو دیکھئے اور فوراً باہر چلی جائیں‘‘ بھٹو صاحب نے بھی پڑی دھیمی آ واز میں ان سے بار بار کہا کہ وہ واپس چلی جائیں۔ تب انہوں نے کہا میں جاتی ہوں مگر چائے ختم ہونے پر۔ میں سیل سے اور پھر سیکیورٹی وارڈ سے باہر آیا تو دیکھا کہ بریگیڈئیر راحت لطیف صاحب بمع چند زنانہ پولیس تار والے جنگلے کے گیٹ پر کھڑے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے زور سے مجھے پکارا اور گیٹ کا تالا کھولنے کا حکم دیا۔ میں ان کی طرف لپکا اور ان سے کہا کہ بیگم بھٹو باہر آ رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے لال فیتے والی ٹوپی سر سے اتار کر بغل میں دباتے ہوئے بھاگ کر ڈیوڑھی کا رخ کیا اور میں جونہی سیکیورٹی وارڈ کے اندر جانے کو واپس ہوا تو بیگم بھٹو بھی باہر آ رہی تھیں۔ ڈیوڑھی میں کھڑی گاڑی پرزنانہ پولیس نے انہیں گاڑی میں ڈالا اور ان کو جیل سے باہر لے گئی۔
ّ(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
کمپوزر: طارق عباس