پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ قسط نمبر 24
پاک چین دوستی: ایک دن پاک چین دوستی پر بات چھڑی تو بھٹو صاحب نے کہا کہ چین ایک ایسا ملک ہے جس نے ہماری ہر مشکل گھڑی میں مدد کی اور اپنے آ پ کو ہمارا یک کمخلص دوست ثابت کیا۔ حالانکہ دونوں ممالک میں مختلف نظام کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ان پڑھ مولوی لا علمی اور تنگ نظری کی وجہ سے اسلام کوانتہائی بنیاد پرستی کی طرف لے گئے ہیں اور قراقرم کے پار کمیونزم بھی کچھ ایسے ہی حالات سے دوچار رہا ہے۔ مگر دونوں ملکوں کی لیڈر شپ نے جیو پولیٹیکل حالات کو سمجھا ہے اور ہماری دوستی کی بنیاد صحیح خطوط پر استوار کی ہے۔ پھر کہنے لگے مجھے فخر ہے کہ میں نے اس لازوال دوستی کی بنیاد ڈالی‘ حالانکہ شروع شروع کے دنوں میں میرے آقا کو چین کی حکومت پر بڑے شکوک و شبہا ت تھے۔ کہنے لگے وقت نے ثابت کر دکھا یا ہے چین سے زیادہ کوئی ملک بھی ہمارا خا لص‘ سچا اور بھروسے والا دوست نہیں‘ ہمیں اس دوستی کو قائم و دائم رکھنا چاہئے۔ اسی موقع پر چین‘ روس اور امریکہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں چین کو کسی سپر پاور کے ساتھ مقابلتاً پرکھنا نہیں چاہئے۔ چونکہ روس بھی ہمارے علاقے میں ایک برتر طاقت ہے اس لئے اس کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات اچھے رہنے چاہئیں اور کسی دوسرے ملک کی خاطر ہمیں اس ملک کو ناراض نہیں کرنا چاہئے۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے اس پر بھروسہ کرنا غلطی ہو گی کیونکہ وہ قوم بہت خود غرض ہے اور یہودیوں کے اثر میں ہے جو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا کا بد خواہ ہے۔
مسٹرغلام علی میمن کی ناگہانی موت: آخری ایاّم کے دوران جب میں ایک دن سیکیورٹی وارڈ بھٹوصاحب کو دیکھنے گیا تو ان کو عام حالت سے زیادہ خاموش اور افسرد ہ پایا۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے مجھے بتایا کہ مسٹر غلام علی میمن کی اچانک موت ان پر بے حد اثر انداز ہوئی ہے۔ کہنے لگے غلام علی میمن بہت قابل اور ماہر قانون دان تھے‘ جنہوں نے ان کے کیس کوبڑی محنت اور لگن کے ساتھ لیا ہوا تھااور شاید ان کی اچانک موت کی ایک وجہ ان کا یہ کیس ہو۔
کچھ نہ لکھنے والی باتیں۔ میں ہمیشہ بھٹو صاحب کے ساتھ باچیت میں محتاط رہا‘ شروع شروع میں وہ بھی اسی رویئے کو اپنائے رہے........... لیکن جونہی ہی ہماری بے تکلفی بڑھی مجھے کبھی کبھار ان کی کچھ باتیں خاص کر ان کے جنسی تجربے سن کر بے حد حیرانی ہوئی۔ ایسی باتیں سن کر میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھے ایک فوجی سمجھ کر ‘ ایک خاص ماحول میں ڈھالنا چاہتے ہوں گے تا کہ میں ان کے ساتھ بالکل فری ہو جاؤں‘ بلکہ میں کچھ اور بھی محتاط ہو گیا جس کو انہوں نے بھی محسوس کیا اورایک مرتبہ کچھ ریمارکس بھی پاس کئے۔ بہرحال کافی دنوں بعد میں نے محسوس کیا کہ ایک کال کوٹھڑی میں ان جیسے آزاد خیال انسان نے ایسی گفتگو بھی سنی جا سکتی ہے۔ بھٹو صاحب کے ساتھ ان کی زندگی کے بدترین دنوں میں رہتے ہوئے میں نے یہ ضرور اخذ کیا کہ ان کی آزاد خیالی پہ کافی کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن اس موضوع پر میں کچھ نہ لکھنا ہی مناسب سمجھوں گا۔ ان دنوں بھٹو صاحب نے کچھ سنجیدہ باتوں کا بھی ذکر کیا لیکن قومی اور ملکی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے میں اس وقت ان کے متعلق بھی لکھنا پسند نہیں کرتا۔
سپریم کورٹ میں اپیل
نواب محمد احمد خان کے قتل کے جرم میں لاہور ہائیکورٹ نے 18 مارچ1978ء کو جناب ذولفقار علی بھٹو کو موت کی سزا سنائی تھی۔ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ سماعت کے دوران بھٹو صاحب کو جیل کوٹ لکھپت لاہور سے سنٹرل جیل راولپنڈی منتقل کر دیا جائے تا کہ سپریم کورٹ میں ان کی پیشی کا عمل حکومت کیلئے نسبتاًآسان ہو جائے۔ سپریم کورٹ میں بھٹوصاحب کا لانا‘ لے جانا‘ اچھا خاصا مسئلہ بن گیا۔ اس پر انتظامیہ نے کافی غورو فکر کیا کیونکہ عوامی مداخلت سے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہو سکتا تھا۔ اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ بھٹو صاحب کو قیدیوں کی بڑی گاڑی میں پولیس کی بھاری گارڈ کے ساتھ جیل سے سپریم کورٹ لے جایا جائے گا۔ اس گاڑی کے آگے اور پیچھے دو چھوٹی گاڑیاں ہوں گی۔ ان گاڑیوں کیلئے مندرجہ ذیل راستے مقرر کئے گئے‘ جن کی طرف ہر سمت سے آنے والے راستے پر پولیس اور دوسری ایجنسیوں کی بھاری تعداد تعینات کی گئی۔
۱) سیدھا راستہ۔ سنٹرل جیل راولپنڈی (پرانی مسمار شدہ جیل) سے گرینڈ ٹرنک روڈ یعنی مال روڈ کے ذریعے سپریم کورٹ جانے والا راستہ‘ چونکہ سب سے چھوٹا اور بغیر کسی رکاوٹ کے تھا اس لئے اس کو پہلا راستہ چنا گیا۔ علاوہ ازیں یہ راستہ چونکہ چھاؤنی کے علاقہ میں واقعہ ہے اس لئے اس پر عوام کی بھاری جمیعت کااکٹھا ہو ممکن نہ تھا۔
ب) جیل سے لال کڑتی کا راستہ۔ حالانکہ کہ اس راستے پر کچھ موڑ ہیں لیکن پھر بھی چھاؤنی سے گزرنے کی وجہ سے کافی محفوظ ہے۔ یہ راستہ جیل گیٹ سے سی او اے ایس ہاؤس(آرمی ہاؤس) پھر سی او ڈی کے مرکزی گیٹ کے سامنے سے لالکڑتی اور جی ایچ کیوکے سامنے سے ہوتا ہواایم ایچ ہسپتال سے سپریم کورٹ تک پھیلا ہوا ہے۔ بھٹو صاحب دو بار سپریم کورٹ لے جائے گئے اور ہر دفعہ جانے کیلئے یہی راستہ استعمال کیا گیا جبکہ ہر بار واپسی پرراستہ (۱) یعنی مال روڈ کا استعمال کیا گیا۔
ج) تیسرا راستہ۔ یہ راستہ کافی لمبا تھا لیکن دوسرے دو راستوں کے غیر محفوظ ہونے کی صورت میں استعمال کیا جانا تھا۔ جیل سے ایئر پورٹ چکلالہ‘ فیض آباد‘ پیر ودھائی‘ پشاورروڈ سے سپریم کورٹ کا راستہ۔ اس راستے پر لیول کراسنگ سے گزرنے کیلئے خاص انتظام کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ میں پیشی کے دنوں میں پولیس کی کافی نفری ان تینوں راستوں کی دیکھ بھال پر مامور کی گئی تھی مگر کسی جگہ کسی اجتماع کی اطلاع نہیں ملی۔ صرف سپریم کورٹ میں وکلاء‘ پی پی پی کے کچھ لوگ اور اخباری نمائندے آئے تھے۔ پہلے دن جب بھٹو صاحب کو جیل سے لے جانے کیلئے قیدیوں کی بڑی گاڑی میں بٹھایا گیا تو انہوں نے کچھ ناراضگی کا اظہار کیا مگر دوسرے روز خاموشی سے اسی گاڑی میں سوار ہو گئے تھے۔
سپریم کورٹ میں بھٹو صاحب نے اچھی خاصی تقریر کر کے اپنے دلائل پیش کئے لیکن ان پر میں کوئی رائے زنی نہیں کروں گا اور نہ ہی پنجاب ہائیکورٹ میں ان کے مقدمے پر کچھ لکھوں گا کیونکہ یہ دونوں مقدمے کھلے عام چلے اور ان پر پریس نے کافی کچھ لکھا۔ اسی طرح بھٹوصاحب کی پھانسی کا فیصلہ بھی چونکہ ملک کی دو ممتاز کورٹس نے کیا تھا جو پریس میں پوری طرح شائع ہوا تھا میں اس پر کوئی روئے زنی نہیں کر سکتا۔ البتہ سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت کے دوران انتظامیہ نے جو کچھ کیا یا مجھے جو‘ جو احکامات دیئے گئے ان کے بارے میں لکھ رہا ہوں۔
سپریم کورٹ کا بھٹو صاحب کی اپیل پر فیصلہ6 فروری1979ء کو آنے کی امید تھی اس لئے 5 فروری کو مجھے کہا گیا کہ میں صبح آٹھ بج کر 45 منٹ پر ڈی ایم ایل اے کے دفتر آجاؤں۔ مقرر ہ وقت پر جب میں جنرل شاہ رفیع عالم(ڈی ایل ایم اے) کے دفتر پہنچا تو وہ اندر موجود نہیں تھے اس لئے میں ان کے اے ڈی کے ساتھ استقبالیہ میں بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد جنرل صاحب آتے دکھا ئی دیئے مگر وہ کچھ اضطراب کی حالت میں تھے۔ وہ اندر داخل ہو ہی رہے تھے کہ واپس اپنی رہائش گاہ کی طرف چل دیئے۔ چند قدم جانے کے بعد انہوں نے مڑ کر مجھے بلایا۔ جونہی میں ان کے پاس پہنچا انہوں نے کہا ’’ رفیع ‘ ایک حرام زادہ جو سپاہی کی وردی میں (لانس نائیک) تھا‘ سپریم کورٹ میں داخل ہوا اور بلند آواز میں کہا کہ اگر بھٹوصاحب کو کچھ ہوا تو میں تمام ججوں اور جرنیلوں کو ختم کر دوں گا‘‘ انہوں نے کہا ’’میں فوراًسپریم کورٹ جا کر ایس ایم ایل اے یا ایس ایس پی کو ملوں اور ان سے کہوں کہ سرگوشیوں کے ذریعے وہ لوگوں کو کورٹس میں بتائیں کہ پیپلز پارٹی کاآدمی فوجی جوان کی وردی پہن کر اندر آیا اور اس نے یہ حرکت کی ہے‘‘
میں نے انہیں سلام کیا اور فوراً باہر کھڑی جیپ کی طرف جا کر خود ہی چلاتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ کیا۔ میں بے حد تیزی سے جیپ دوڑاتا ہوا ‘ سگنل کی پروا کئے بغیر چند ہی منٹوں میں سپریم کورٹ کے سامنے جا پہنچا جہاں کافی اخباری نمائندے ‘ خاص کر بیرونی ممالک کے نمائندے کھڑے تھے۔ میں نے جیپ کو سڑک کی ایک طرف روکا اورڈرائیور سے کہا کہ وہ اسے پارک کرے اور میں سیدھا کورٹ کے احاطے میں چلا گیا۔ چونکہ میں وردی میں تھا اورچند دن پہلے ایس ایم ایل اے اور ایس ایس پی کے ساتھ سپریم کورٹ میں بھٹو صاحب کی پیشی کے سلسلے میں حفاظتی اقدامات دیکھنے گیا تھا اس لئے گیٹ پر سنتری سے بلا روک ٹوک گیٹ کھول دیا اور مجھے اندر جانے دیا۔ میں نے ڈیوٹی پر کھڑے پولیس انسپکٹر سے کہا کہ اندر سے ایس ایس پی مسٹر برکی یا اے ایس پی اسلام آباد مسٹر آ صف کو باہر بلائیں۔ چند لمحوں میں مسٹرآصف باہر آئے۔ ان کو میں نے جنرل شاہ رفیع عالم کی خواہش بتائی‘ جنہوں نے مجھے یقین دلایا کہ ہر ممکن طریقے سے اندر لوگوں کو بتا دیا جائے گا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
کمپوزر: طارق عباس