پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ قسط نمبر 23
بھٹو صاحب کا وفادار: جنوری1979ء میں بھٹو صاحب نے مجھ سے ایک دن فرمائش کی کہ وہ اپنا کتا سیل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ مجھے معلوم تھا کہ حکام شاید اس کو اندر لانے کی اجازت نہ دیں گے لیکن پھر بھی مجھے انکار کی جرأت نہ ہوئی۔ 20جنوری1979ء کے دن محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے بھٹوصاحب سے ملنے آنا تھا۔ میں نے اس دن ڈیوٹی افیسر سے کہا کہ اگر محترمہ بے نظیر اپنے ساتھ پپ لائیں تو اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اندر جانے دینا۔
میں جیل کے دفتر سے کہیں باہر چلا گیا۔ محترمہ بے نظیر کتا اپنے ساتھ سیل میں لے گئیں۔ کتے کے اندر جانے کی باقاعدہ رپورٹ یہ دی گئی لیکن حکام کو اس کے داخلے کی اطلاع دوسرے ذرائع سے مل گئی اور مجھ سے جواب طلبی بھی ہوئی۔ مجھے بتایا گیا کہ کتے کے سونگھنے کی قوت انسان سے نوے ہزار گنا اور سننے کی قوت چار سو گنا زیادہ ہوتی ہے۔ یہ جانورقیدیوں کو جیل سے باہر نکالنے کے کام میں بے حد مؤثر ثابت ہو سکتا ہے اورمجھے خبردار کیا گیا کہ آئندہ مجھ سے ایسی غلطی ہرگز سرزد نہ ہونے پائے۔ بہرحال میری اگلی ملاقات پر بھٹو صاحب نے میرا شکریہ ادا کیا۔
بھٹو اور میں: فروری1979ء میں ایک دن بعد دوپہر میں‘ بھٹو صاحب کے ساتھ سیکیورٹی وارڈ کے صحن میں بیٹھا گپ شپ کر رہا تھا انہوں نے میرے بارے میں بات چیت کو بڑھاتے ہوئے فرمایا’’کرنل رفیع تم بریگیڈئیر تو ضرور ہو جاؤگے اور ممکن ہے کہ میجر جنرل بھی بن جاؤ‘‘ پھر چند لمحے میری طرف دیکھتے رہے اور بولے’’لیکن زندگی صرف یہی کچھ نہیں ہے بلکہ زندگی بہت خوبصورت چیز ہے۔ آپ دنیا میں اپنی زندگی کہیں‘ کسی بھی رقم کے ساتھ عیش سے گزار سکتے ہیں‘‘۔
میں نے یہ سن کر بیحد گھٹن محسوس کی اور تھوڑی ہی دیر میں اپنی گھڑی کو دیکھا اور معافی چاہتے ہوئے ان سے اجازت لی کہ مجھے کوئی ضروری کام کرنا تھا۔ میرے اٹھ جانے کے بعد بھٹو صاحب نے میرے متعلق کیا سوچا ہو گا۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن میرا ضمیر مجھے آج دن تک اپنے فرض کودوسری ہر چیز سے مقدم رکھنے پر ایک خاص مسرت اور سکون بخشتارہا ہے۔
عجیب اتفاق ہے کہ میں چونکہ سٹاف کالج نہ جا سکا تھااور جنرل ضیاء صاحب کے نئے حکم کے تحت میں بریگیڈئیر بھی نہیں بن سکتا تھااور مجھے یہ پتا تھا کہ میں زیادہ سے زیادہ فل کرنل ہی ریٹائر ہوں گا لیکن بھٹو صاحب کے ساتھ اتنا نزدیک رہنے پراور اپنے فرائض کو ہر شے پر مقدم رکھنے پراور حکومت کا مجھ پر اس قدر بھروسہ دیکھ کر شاید بھٹو صاحب نے یوں خیال کیا تھا اور پھر اتنی بڑی پیشکش کر دی تھی جسے نے بڑے بے لوث انداز میں ٹھکرا دیا تھا۔
بھٹوصاحب کے چشمے اور میری آنکھیں: بھٹو صاحب کے پڑھنے والے چشمے کا فریم موٹا اور کالے رنگ کا تھا۔ وہ پڑھتے وقت اسی عینک کا استعمال کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ رات گئے سیل میں گپ بازی کے دوران اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کر رہے تھے اور مجھے ان زیادتیوں پر بین الاقوامی ردّعمل بتا رہے تھے۔ اسی موضوع پر ان دنوں کے’’ ٹائم‘‘ رسالے نے بھی اپنے خیالا ت کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے مجھے اس رسالے کی رائے پڑھنے کیلئے کہا۔ چونکہ میں اپنے پڑھنے کی عینک ساتھ نہ لایا تھاتو مجھے رسالے کی عبارت پڑھنے میں دقت ہوئی۔ بھٹو صاحب نے فوراًاپنا چشمہ مجھے دیا کہ لگا کر دیکھئے ممکن ہے ہم دونوں کی نظرایک جیسی ہو۔ میں نے ان کی عینک استعمال کرنے میں کچھ ہچکچاہٹ محسوس کی لیکن ان کے اصرار پر اسے لگا کر پڑھ لیا۔ بعد میں دو یا تین مرتبہ اسی قسم کی حالت میں انہوں نے مجھے اپنی عینک دی جس کی مدد سے میں نے ضروری تحریں پڑھیں۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے ایک بہت بڑے آدمی کی عینک کو اس کی مرضی کے ساتھ استعمال کیا۔
یہ خان: صوبہ سرحد کے ایک خاندان پربھٹو صاحب نے اپنے خیالات کچھ یوں ظاہر کئے کہ بدقسمتی سے پورا خاندان ہی ہندو نواز ہے۔ ان کی وفاداریاں پہلے تو ہندوستان کے ساتھ ہیں اور پھر افغانستان اور روس کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے پاکستان بننے کی بھر پور مخالفت کی اور بد قسمتی سے آج تک یہ لوگ پاکستان کے کھلے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ان کی اس ملک دشمنی پر ان کے علاقے کے لوگوں کو ان کا محاسبہ کرنا چاہئے یا کم از کم تمھاری فوجی حکومت کو ہی اس کا خیال کرنا چاہئے تھا۔ یہ خاندان پاکستان کی تاریخ میں غدّارخاندان کے نام سے یاد کیا جائے گا۔
بھٹو صاحب کی اسیری کے دوران ان کی ایک خاتون جب لندن میں مارک اینڈسپنسر سٹور سے چوری کے سلسلے میں پکڑی گئی تھی تو بھٹو صاحب نے ان کی اس حرکت پر بہت کچھ کہا تھا لیکن میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔
سندھو دیش: اگست یا ستمبر1978ء میں راولپنڈی جیل میں چودھری یار محمد نے ایک دن مجھ سے کہا کہ بھٹو صاحب سندھو دیش کی بات کر رہے تھے جس کا میں نے یقین نہ کیا۔ لیکن کچھ مدت کے بعد جب بھٹو صاحب نے ایک دن مجھ سے کہا کہ کرنل رفیع‘ آپ لوگ پنجاب میں رہیں ہم اپنے لیے سندھودیش بنائیں گے تو مجھے اس قدر تعجب اور افسوس ہو کہ میں اس کی تفصیل بیان نہیں کرسکتا۔ بھٹو صاحب سے ایک دو دن بعد دوبارہ ملنے پر میں اسی بارے میں سوچتا رہا۔ مشرقی پاکستان کا المیہ ہم پر گزر چکا تھا اس لئے اس قسم کے سانحہ کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے تھے پھر آج بھٹو جیسا اس طرح کی بات کر رہا تھا۔ ان کے ملنے پر جب میں نے ان خیالات پر تعجب اور گلہ کیا تو کہنے لگے’’ میں اپنے آ پ کو پاکستان کیلئے اتحاد اور یقین کا نشان یعنی علامت تصور کرتا رہا ہوں اور خاص کر سندھیوں کیلئے۔ اگر مجھے اس جھوٹے اور بناوٹی کیس میں نقصان پہنچایا گیا تو پاکستان عموماًاور سندھ میں اتنی گڑ بڑ ہو گی کہ مارشل لاء تو کیا کوئی بھی حکومت عوام کو کنٹرول نہ کر سکے گی اور آخر کار پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا‘‘ مجھے اس دن انسان کی خود غرضی کی انتہا سمجھ میں آئی۔
جنرل شاہ رفیع عالم کی اچانک سبکدوشی: میجر جنرل شاہ رفیع عالم راولپنڈی میں ڈی ایل ایم اے فرائض انجام دے رہے رتھے۔ دس ہیڈکوارٹر نے شروع شروع میں سیکیورٹی وارڈ کا پلان بنایا تھا لیکن بعد میں ڈی ایم ایل اے نے اس پلان کو تکمیل تک پہنچایا اور 24مارچ1979 بء تک اس کے ذمہ داررہے۔ میجر جنرل شاہ رفیع عالم ایک بہادر اور قابل جرنیل تھے۔ 1967-68ء میں جب میں ایس ایس جی کے پیرا شوٹ سکول کی کمان کر رہا تھا تو ان دنوں میجر شاہ رفیع عالم بھی پیرا جمپ کرنے کیلئے آئے تھے۔ اس زمانے میں سے میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات رہے اور وہ میری بڑی عزت کرتے رہے ہیں۔ ہمارے عہدوں میں فرق کے باوجود ہم ایک دوسرے سے کھل کر ملا جلا کرتے تھے۔ وہ ایک کھلے دل ودماغ کے انسان ہیں۔ چونکہ انہوں نے انگریزی ماحول میں پرورش پائی اسلئے ان کا برتاؤ بھی اسی طرز کا رہا ہے‘ لیکن وہ بڑے قدر شناس اور اچھے شخص ہیں۔ بھٹو صاحب نے ایک دو مرتبہ جنرل شاہ رفیع عالم کے خا ندان کا میرے ساتھ ذکر کیا تھا لیکن میں نے اس کا کوئی خاص نوٹس نہ لیا تھا۔
مارچ1979 ء میں بیگم نصرت بھٹو اور جنرل شاہ رفیع عالم کی کسی جگہ ملاقات ہوئی۔ ان کے درمیان کیا بات چیت ہوئی مجھے اس کا علم نہیں لیکن جنرل شاہ رفیع عالم صاحب نے اس ملاقات کاذکر ضیاء الحق سے نہ کیا۔ شاید جنرل شاہ رفیع عالم بھٹو خاندان کی امیدوں پر پورے نہ اترے ۔ شاہ رفیع عالم اور بیگم نصرت بھٹو کی ملاقات کے کچھ دن بعد میں22 مارچ1979ء کو صبح دس بجے کے لگ بھگ سیکیورٹی وارڈ میں گیا۔ جونہی میں بھٹو صاحب کے سیل میں گیا انہوں نے اونچی آواز سے مخاطب ہو کر کہاکہ کرنل جا کر جنرل ضیاء الحق کو بتاؤ کہ اسے باہر کے ملکوں کے اخبار نویسوں کو اس طرح کے بیان نہیں دینے چاہئیں جو آج کل دے رہے ہیں۔ (شاید بی بی سی کی ٹیم کو جنرل ضیاء لحق صاحب نے بیان دیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق بھٹو صاحب کو سزا دی جائے گی اور وہ ملک کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے اس میں کوئی تخفیف نہیں کریں گے) کچھ چیزیں خفیہ بھی رکھی جاتی ہیں۔ پھر کہنے لگے ’’کیا میں نے اگلے دن جنرل شاہ رفیع عالم کی ملاقات پر‘ جو اس نے میری بیگم کے ساتھ کی تھی‘ کوئی شور مچایا تھا؟ جنرل شاہ رفیع عالم نے جہاں چاہا میری بیگم کو کا ر میں لے گیا‘‘ کچھ باتیں خاموشی کے ساتھ صیغۂ راز میں رکھی جاتی ہیں۔ میں خاموش رہا اور جناب کی سیکیورٹی وارڈ سے باہر آگیا۔ مجھے پتہ چل گیا کہ شاہ رفیع عالم صاحب نے بھٹو خاندان کے ساتھ کوئی اندرونی رابطہ قائم کیا ہوا تھا اور اس کو انہوں نے حکومت سے چھپا رکھا تھا۔
میں سیکیورٹی وارڈ سے نکل کرسیدھاڈی ایم ایل اے کے دفتر گیا اور جنرل شاہ رفیع عالم صاحب کو یہ ماجرا سنایا اور کہا کہ عین ممکن ہے کہ انہوں نے اپنی ملاقاتوں کا ذکر سی ایم ایل اے سے نہ کیالیکن اب تک یہ بات ان تک پہنچ گئی ہو گی۔ جنرل شاہ رفیع عالم بے حد گھبراہٹ کا شکار معلوم ہو رہے تھے۔ وہ اپنے دفتر میں ا نگیٹھی کے سامنے کھڑے تھے اور میں نے ان سے کہا کہ آ پ کو اس قسم کی ملاقات سے اجتناب کرنا چاہئے تھا۔ بہرحال تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اگلے روز مجھے ہیڈکوارٹر بلایا گیا۔ میرے ساتھ کور کمانڈر صاحب بہت اچھی طرح ملا کرتے تھے لیکن اس دن وہ زیادہ ہی مہربان نظر آ رہے رتھے۔ انہوں نے پوچھا کہ جیل کے حالات کیسے ہیں؟ میں نے بتایا کہ سب ٹھیک ٹھاک ہے۔ پھر انہوں نے جنرل شاہ رفیع عالم صاحب کے متعلق پوچھا کہ ان کا برتاؤ کیسا ہے۔ میں نے ان کو بتایا کہ وہ بہت سخت ہیں اور انہوں نے مجھے میرے پنجوں پر رکھا ہوا ہے۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ ان کا رویہّ بڑے قیدی کے بارے میں کیسا ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ جنرل شاہ رفیع عالم بڑے قیدی کیلئے ہمیشہ سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں اور مجھے ہمیشہ بہت ہوشیار رہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ کورکمانڈر صاحب نے مجھے نصیحت کی کہ میرے تمام جوانوں اورتمام افسروں کو بہت ہوشیار ہونا چاہئے اور مجھے بھی ہر وقت حواسِ خمسہ بیدار رکھنے کی ضرورت ہے۔ کورہیڈکوارٹر سے واپسی پر مجھے پورا علم ہو گیا کہ کیا ہونے والا ہے۔ اور وہی ہوا۔
اگلے روز یعنی 24 مارچ1979ء کو معلوم ہو کہ جنرل شاہ رفیع عالم صاحب ڈی ایم ایل اے کی ڈیوٹی سے ہٹا دیئے گئے ہیں اور وہ تبدیل ہو کر سیالکوٹ جا رہے ہیں اور جنرل صغیر حسین سید نے ڈی ایم ایل اے کے فرائض سنبھال لئے ہیں۔ یوں ایک بہت اچھے اور قابل جرنیل کے کیریئر کا خاتمہ ہو گیا۔ مجھے چند سال بعد اپنے خفیہ فرائض کے دوران معلوم ہوا کہ ہمیں گلف کے علاقے سے ان دنوں ایک رپورٹ آئی تھی جس کے ذریعے ہمیں دو جرنیلوں کے متعلق خبردار کیا گیا تھا کہ ان کے تعلقات پی پی پی کے ساتھ ہیں اور ہماری خفیہ ایجنسی نے بھی مارشل لاء اتھارٹی کو اس لنک کی اطلاع کر دی تھی بہرحال بھٹو صاحب نے اپنے سیل میں مجھ سے اونچی بات کر کے جنرل شاہ رفیع عالم صاحب کو سبکدو ش کر وا دیا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
کمپوزر: طارق عباس