پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔قسط نمبر 22
پامسٹری کی پریکٹس یعنی ہاتھ دیکھنے تو میں نے ساٹھ کی دہائی کے آخیر سے چھوڑ دیئے تھے لیکن ان لکیروں کے علم کا یقین رہا یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ایک علم انسان کو دیا ہے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد مجھے اس علم پر بہت شک وشبہ ہو گیا۔ حتیٰ کہ میں نے اپنے ہاتھ پر بھی نظر ڈالنا چھوڑ دیا۔ دل ودماغ میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ بہت عرصہ بعد ایک دن ایم اے ملک کا یہ بیان پڑھ کر دل میں یہ ڈھارس بندھی کہ کچھ سرکردہ دست شناسوں نے کہا ہے کہ شہید کے ہاتھ پر زندگی کی لکیر ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ اس کے ہاتھ کی لائف لائن کبھی نہیں ٹوٹتی کیونکہ وہ مرتا نہیں ہے۔
بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد میرا یقین پامسٹری سے اٹھ گیا تھا لیکن اس بیان کے پڑھنے کے بعد پھر سے اس علم پر کچھ یقین سا ہونے لگا۔ کیاخبر‘ کب تک ہمارے عظیم لیڈروں کی قسمت میں شہادت ہی کی سعادت لکھی جاتی رہے گی.......! میں یہ الفاظ لکھ ہی رہا تھا کہ حسن اتفاق سے باہر سے کسی نے یہ نعرہ بلند کیا
’’پاک امریکہ دوستی زندہ باد‘‘ !
سیاستدان‘ نعرہ اور جلسہ: ایک شام کو میں جیل کیمپ میں جوانوں کے ساتھ والی بال کھیلنے کے بعد سیکیورٹی وارڈ میں بھٹو صاحب کے ساتھ جا بیٹھا۔ ہم صحن میں چائے پی رہے تھے۔ ان دنوں 111 بریگیڈ کی یونٹوں کے درمیان باسکٹ بال کے میچ ہو رہے تھے۔ 3 ایف ایف رجمنٹ کی ٹیم اپنا میچ جیت کر گاڑیوں میں واپس پرائم منسٹر ہاؤس کے نزدیک اپنی لائنوں کو جا رہی تھی۔ خوشی میں وہ خوب نعرہ بازی کرتے جیل کے سامنے سے گزرے۔ جونہی بھٹو صاحب نے نعروں کی آواز سنی تو فوراًمجھ سے پوچھا‘یہ کون لوگ نعرے لگا رہے ہیں؟ کیا جلسہ ہو اہے؟ میں نے ان کو بتایا کہ مارشل لاء کے دنوں میں جلسے اور نعرہ بازی اور وہ بھی چھاؤنی کی حدود میں کیسے ممکن ہے۔ یہ شاید یونٹوں کے درمیان میچ ہو رہے ہیں اور جیتی ہوئی ٹیم اور ان کی پلٹن کے جوان خوشی میں نعرے لگا رہے ہیں۔ بھٹو صاحب یہ سن کر خاموش ہو گئے اور کافی دیر ان پر سکوت ساطاری رہا۔
افغانستان: 1978ء کی دوسری ششماہی میں افغانستان کے متعلق ہر روز پریس میں کچھ نہ کچھ شائع ہوتا رہتا تھا۔ بھٹو صاحب اخبارات کا کافی گہرائی سے مطالعہ کیا کرتے تھے۔ ان دنوں ان سے جب بھی ملاقات ہوتی وہ اکثر افغانستان کے متعلق کچھ نہ کچھ کہا کرتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق صاحب کی افغان پالیسی سے بھٹو صاحب بالکل متفق نہ تھے۔ حالانکہ اس وقت امریکی امداد باقاعدگی سے شروع نہ ہوئی تھی اور پاکستان نے ابھی تک افغان مسئلے کے ساتھ اپنے آپ کو پوری طرح وابستہ نہیں کیا تھا۔ بھٹو صاحب نے ایک دو مرتبہ فرمایا کہ انہوں نے سردار محمد داؤد کے ساتھ پاک افغان تعلقات بمع ڈیورنڈ لائن اور پختونستان کے صلح خواہی میں ہی فیصلہ کر لیا تھا۔ انہوں نے کہا بدقسمتی سے اگر ان کی حکومت ختم نہ کر دی جاتی تو سردار محمد داؤد کے مارے جانے سے بہت پہلے ہی مسائل ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دوستانہ انداز میں فیصل ہو گئے ہوتے۔
بھٹو صاحب کی یہ بھی کہنا تھاکہ روس چونکہ سپر پاور ہی نہیں بلکہ ہمارا ہمسایہ بھی ہے اسلئے روسیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اچھے ہونے چاہئیں اور پاکستان کو روس کے خلاف افغانیوں کی مدد نہیں کرنی چاہئے چونکہ اس وقت تک امریکی امداد پاکستان کے ذریعے افغانستان کے مجاہدین کو باقاعدگی کے ساتھ شروع نہیں ہوئی تھی‘ مجھے اپنے ملک کی پالیسی کا پورا علم نہ تھا اور میں ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ پاکستان کوئی عملی حصہ نہیں لے رہا۔ لیکن بھٹو صاحب اس بات کو نہیں مانتے تھے اور ہر دفعہ حکومت پاکستان کی افغان پالیسی کی مذمت ہی کیا کرتے تھے۔ شاید یہ پیپلز پارٹی کی متفقہ اور فیصلہ کن پالیسی تھی یا امریکہ بادشاہ نے بعد میں محترمہ بے نظیر صاحبہ کو وزیر اعظم بننے سے پہلے ان سے یہ فیصلہ کروالیا تھا کہ پاکستان افغان پالیسی کو اب امریکیوں کی نئی مرضی کے مطابق چلائے گا کیونکہ ضیاء الحق صاحب کی شہادت کے بعد جونہی پیپلز پارٹی کی حکومت دوبارہ آئی تو افغانستان کے متعلق ہماری پالیسی میں بالکل ٹرن اباؤٹ ہو گیا اور میدان جنگ میں جیتی ہوئی لڑائی ہم کانفرنس کی میز پر ہار رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ افغانی اپنی اسلامی محبت کے خلاف امریکیوں اور روسیوں کے نئے گٹھ جوڑ کو ناکارہ کرنے میں کس طرح کامیاب ہوتے ہیں۔
مارشل لاء پر گفتگُو: بھٹو صاحب نے میرے ساتھ گفتگو میں مارشل لاء یا فوج کو خاص تنقید کا نشانہ کبھی نہ بنایا تھا۔ البتہ ہماری کچھ انڈر سٹینڈنگ ہو جانے کے بعد کبھی کبھا ر جرنیل صاحبان پر کوئی نہ کوئی ریمارک پاس کر دیا کرتے تھے۔ ایک دن پاکستان میں مارشل لاء کے تسلسل کا ذکر چھڑا تو میں نے ان نے کہا کہ 1958ء کے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب والے مارشل لاء کے دنوں میں‘ مَیں سیکنڈ لیفٹیننٹ تھا جس کی وجہ سے مجھے فوج‘ قوم یا ملک پر مارشل لاء کے اثرات کے متعلق کوئی خاص فکر نہ تھی۔ مارشل لاء لگنے سے پہلے ملکی حالات بدتر ہو چکے تھے اور تقریباً ہر آدمی نے مارشل لاء کے نفاذ کو خوش آمدید کہا تھا‘ ہم جونیئر آفیسرز بھی عوام کے ساتھ تھے اور ہم نے بھی یہی سمجھا تھا کہ یہ ملک و قوم کیلئے خوش آئند بات ہے۔ دوسرے مارشل لاء کے وقت جو یحییٰ خان صاحب کا مارشل لاء کہلوایا اور جس کی ذمہ داری بعد میں آپ کے کاندھوں پر بھی پڑی‘ میں میجر تھا۔ میرے اس ریمارک پر بھٹو صاحب نے فوراًمجھے ٹوکا اور کہنے لگے وہ(بھٹوصاحب)تو عوامی لیڈر ہیں اور انہوں نے ورثے میں سب کچھ پایا لیکن ان حالات کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کر دینا چاہا اور ملک کو پہلا عوامی آئین دیا۔ میں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جنرل ضیاء صاحب کا مارشل لاء‘ جو آج کل ملک کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے‘ میں نے کافی سروس کرلی ہوئی ہے اور ایسے فرائض پر مامور ہوں کہ مارشل لاء کے اثرات کو بہت گہرائی سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ مارشل لاء کے تسلسل سے فوج کو بے حد نقصان پہنچ رہا ہے۔ ملک و قوم کو بھی گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان ہر دفعہ ملک کو ایسے دوراہے پر لا کھڑا کرتے ہیں کہ فوج کو چاروناچار ملک کو چلانے کیلئے مارشل لاء کا سہارا لینا پڑتاہے ورنہ ملک میں خانہ جنگی جیسے حالات پیدا کر دیئے جاتے ہیں اور ملک کو تباہی سے بچانے کیلئے ایسا قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ بھٹو صاحب میرے ساتھ متفق نہ ہوئے اور کہنے لگے’’ کرنل رفیع سیاسی حالات کو سیاستدان ہی سنوار سکتے ہیں اور انہی کرنے دینا چاہئے۔ ہر ملک میں سیاست دانوں کے آپس میں اختلافات اور جھگڑے ہوتے ہیں لیکن وہی آخرمل جل کران کا کوئی نہ کئی حل نکالتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جن لیڈروں کو عوام رد کر دیتے ہیں وہ حکومت کیلئے کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کرتے ہیں لیکن جمہوریت میں عوامی نمائندوں کوحق حاصل ہے کہ وہ ملک وقوم کی بہتری کیلئے اپنی پالیسیاں بنائیں اور ان کے مطابق ملک کو چلائیں۔ ہمارے ملک میں جو پارٹی یا پارٹیاں حکومت سے باہر ہوتی ہیں وہ ہر پالیسی کو غلط ہی تصوّر کرتی ہیں..... .اوراگر ان کا آپس میں اختلاف بڑھ جائے تو فوج کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بندر بانٹ شروع کر دے۔ جب کبھی حالات ذرا خراب ہوں کئی جرنیل ایسے موقعوں کی تلاش میں ہوتے ہیں اور وہ فوراًملک و قوم کے نام پرفوج کے بل بوتے پر مارشل لاء لگا کر اپنا اُلُّوسیدھا کرتے ہیں۔ دراصل ہر ایسے موقع پر باہر کی طاقتوں ‘ خاص کر ہمارے دوست امریکہ‘ کاہاتھ ہوتاہے۔ جوپہلے ملکی حالات کو خراب کرنے میں مدد دیتی ہے اور پھر اپنی مرضی کے جرنیلوں کو مارشل لاء لگانے پراکساتی ہیں اور ان کی مدد بھی کرتی ہیں ۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی آزادی مارشل لاز ہی ختم کریں گے۔
مسٹربھٹو کے اپنی پارٹی کے متعلق خیالات: 1978ء کے دنوں میں بھٹو صاحب نے اپنی پارٹی کے متعلق کبھی کوئی بات نہ کہی تھی۔ وہ پارٹی کے خلاف بات سننے کو تیا ر نہ تھے۔ چونکہ پارٹی کی طرف سے کوئی خاص اضطراب یا بے چینی کا مظاہرہ نہ ہو ا تو میں نے ایک بار پارٹی کی بے حسی پر تنقید کی‘ جس کو بھٹو صاحب نے فوراًرد کر دیا۔ میں نے اس موقع پر ایک افسر کا ایک قصہ سنایا جو اس نے ایک کانفرنس میں بیا ن کیا تھا کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ پی پی پی کے بڑے بڑے شیر آجکل چوہے بنے ہوئے ہیں۔ کیونکہ بھٹو صاحب جن دنوں اقتدار میں تھے‘ وہ خود چونکہ ایک بلی کی طرح تھے اور ان کے آنے پر تمام کارندے چوہوں کی طرح اپنے اپنے بلوں میں گھس جاتے تھے ‘ اب جب انہیں باہر نکل کر بھٹو صاحب کی اسیری کے خلاف شوروغل مچانا اور قربانیاں دینا چاہئیں‘ تو وہ اسی طرح مارشل لاء کے ڈر سے پرانی عادت کے مطابق بلوں میں گھسے ہوئے ہیں ۔ بھٹو صاحب نے فوراًکہا کو ن ہے جو اپنی انگلیاں بھی جلانے کو تیا ر ہولیکن ہمارے کارکن اپنے آپ کو آگ لگا کر جلا رہے ہیں (ان دنوں کچھ غربا نے احتجاجاً اپنے کپڑوں پر مٹی کا تیل جھڑک کر اپنے آپ کو آگ لگاکرجلانا چاہا تھا) اور کہنے لگے میں نے ان کو ایسا کرنے سے منع کیاہے ورنہ اب تک بے شمار لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہوتے۔ اس پر میں نے ایک اور افسر کا واقعہ سنایاکہ کچھ غریب لو گوں کو پیسوں کا لالچ دے کر تیا ر کیا گیا کہ وہ اپنے آپ کو آگ لگائیں اور فوراًان کو کمبلوں سے لپیٹ لیا جائے گا اور جلنے نہ دیا جائے گا‘مگر ایسے غریبوں کو معاوضہ بہت بڑا دیا جاتا ہے۔ بھٹو صاحب یہ سن کر بڑے طیش میں آگئے اور کہنے لگے’’ یہ سب بکواس اور جھوٹ ہے۔‘‘ پھر کہنے لگے’’ دراصل انہوں نے اپنی پارٹی کو حکم نامہ بھیجا تھاکہ ابھی وقت نہیں ہے اور کوئی اپنے آپ کواس طرح نہ جلائے اور نہ مارے‘‘ مجھ سے انہوں نے کہا ’’ اپنے جرنیلوں سے کہو کہ وہ مجھے(بھٹو صاحب) راولپنڈی سے صرف لاہور تک جانے دیں‘ وہ مجھے وہاں عوام کو ایڈریس کرنے دیں اور پھر دیکھیں کہ لوگ بھٹو کو کیسے چاہتے ہیں اور مارشل لاء ان کو کیسے روک سکتا ہے۔ میری پارٹی مجھ پر جان دینے کو تیار ہے اور وقت آنے پر یہ کارکن ثابت کر دکھائیں گے کہ ان کیلئے بھٹو کیا حیثیت رکھتا ہے اور وہ ان کو کس حد تک چاہتے ہیں۔ میری پارٹی میں ایک معمولی سی تعداد موقع پرست لوگوں کی ہے جواپنے آپ کو چھپا رہے ہیں لیکن ان سے میری پارٹی کندن بن کر نکلے گی‘‘
لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیابھٹو صاحب کچھ مایوس سے ہوتے گئے۔ اوائل 1979ء میں وہ اپنی پارٹی سے جو امیدیں لگائے بیٹھے تھے وہ بر نہ آرہی تھیں۔ ایک دن کچھ مایوسی کے عالم میں مجھ سے کہنے لگے ’’ وہ حرامزادے کدھر ہیں جوکہا کرتے تھے کہ ہم اپنی گردنیں کٹوا دیں گے‘‘(اپنی انگشت شہادت گردن کی ایک طرف سے دوسری کھینچتے ہوئے) میرے خیال میں دن ایسے تھے (فروری مارچ1979ء) جب بھٹو صاحب اپنی پارٹی سے نا امید ہو رہے تھے۔ حالانکہ دوسری طرف مارشل لاء حکّام بے حد فکر مند تھے جس کا میں کچھ ذکر ’’احتیاطوں اور مزید احتیاطوں ‘‘ میں پہلے ہی کر چکا ہوں۔ پھر لمحۂ فکر‘ عروج کو پہنچ رہا تھا کہ کہیں سپریم کورٹ میں بھٹو صاحب کی اپیل خارج ہونے پر پارٹی بڑے پیمانے پر گڑ بڑ نہ کرے اور لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ کھڑا ہوجائے۔ لیکن ہر آدمی پارٹی کی بے حسی پر حیران تھا کہ کسی نے اپنی انگلی تک نہیں اٹھائی۔ اس وقت صرف ماں اور بیٹی بے حد بے قرار تھیں‘ باقی تمام اشخاص خصوصاً پارٹی کے بڑے چھوٹے ستون‘ خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ یہی وجہ تھی جب تین اور چاراپریل1979ء کی رات بھٹو صاحب کو بتایا گیا کہ ان کو پھانسی دی جا رہی ہے اور اس کے بعد انہوں نے مجھ سے اکیلے میں پوچھا کہ یہ کیا ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے ۔ میں نے انہیں بتایا ’’ جناب آپ کو واقعی آج رات پھانسی دی جا رہی ہے ‘‘تو اس رات انہوں نے کہا تھا ’’ میری پارٹی مردہ بھٹو دیکھنا چاہتی تھی نہ کہ زندہ بھٹو‘‘ میں نے ’’آخری لمحات‘‘ کے عنوان سے اس کتاب کے آخر میں ان لمحات کی پوری تفصیل بیا ن کی ہے۔ جس وقت بھٹو صاحب کا ہر ایک لفظ اور ہر ایک لمحہ ریکارڈ کیا جا رہا تھا۔ میں آج ان منافق سرفروشوں کو بتا دوں کہ بھٹو صاحب اپنی پارٹی سے آخری لمحات میں خوش نہ تھے۔ ا س میں شک نہیں کہ کارکنوں کی ایک معمولی سی تعداد جو صرف غریب اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھتی تھی‘ ان دنوں جیل میں بند تھی لیکن اصلی فائدے اٹھانے والے اور پارٹی کے بہت سے لیڈر اس نازک وقت پر اپنے آپ کو چھپا رہے تھے۔ شاید ان میں سے بہت سے آج کل پھر لیڈر بن کر پارٹی کے اصلی غم خوار بنے ہوئے ہوں‘ کیونکہ ریاکاری میں تو ہم اپنی مثال آپ ہیں۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
کمپوزر : طارق عباس