ایک بار حضرت خالدؓ کو کسی معاملے میں تکلیف بھی اٹھانا پڑی ۔ آپؓ نے اسکی دلیل بھی یہی دی کہ آج یہ تکلیف مجھے اس لیے ہوئی ہے کہ رسولﷺ کے بال مبارک میرے سر پر نہیں ہیں ۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ جو جنگی حکمت عملی اور منصوبہ بندی سیدنا خالدؓ کرتے تھے،اس میں پختگی اس یقین اور اعتماد کی وجہ سے ہی تھی کہ جو روحانی طور پر ان کو دیا گیا تھا۔اس نکتے کو سمجھنا بہت اہم ہے۔ مادی دنیا سے متعلق حکمت عملی بنانے میں جب روحانی عوامل شامل ہوجاتے ہیں ،تو وہ غیر معمولی قوتیں جنم لیتی ہیں کہ جو انسان کی عقل کو دنگ کردیتی ہیں اور ایسے کارنامے سرانجام دیئے جاتے ہیں کہ جو انسانی طاقت سے باہر ہوتے ہیں ۔اسلامی تاریخ ایسے سینکڑوں واقعات سے بھری پڑی ہے۔
حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... قسط 3 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سیدنا خالد بن ولیدؓ جو جنگی حکمت عملی استعمال کرتے تھے، وہ بہت جارحانہ ہوتی تھی ۔وہ دشمن پر ہلکا ہاتھ رکھنے پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے۔ جب ان کی جھڑپ ہوتی، توانتہائی خونریز ہوتی۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ یا تو بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرلیے جائیں اور اگر تلوار نکالنا ہی پڑ جائے تو پھر زمین دشمن کے خون سے اچھی طرح سرخ ہونی چاہیے۔
ایک دفعہ کہ جب جنگ میں دشمن نے دھوکے سے کچھ مسلمانوں کو ایک جگہ شہید کردیا،تواس موقع پر حضرت خالدؓ نے اللہ سے وعدہ کیا کہ جتنے بھی دشمن پکڑے جائیں گے، ان کو اسی جگہ لا کر قتل کیا جائے گا۔ چنانچہ بعد میں دشمن کو دور دور سے گرفتار کرکے واپس اسی مقام پر لا کر قتل کیا گیا، کیونکہ آپؓ نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ دریا کو انکے خون سے سرخ کردوں گا۔ اس جنگ میں سیدنا خالدؓ کی قیادت میں مسلمانوں نے ستر ہزار دشمنوں کو جہنم واصل کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگ سلاسل بھی بہت مشہور مہم ہے کہ جس میں ایرانیوں نے اپنے آپ کو زنجیروں سے باندھ لیا تھا، تاکہ مسلمان فوج کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا جائے ا ورانہیں بھاگنے کا موقع نہ دیا جائے۔ لیکن بڑی بڑی سلطنتوں کی فوجوں میں سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ انکی نقل و حرکت بھی سست ہوتی۔ اس کے برعکس مسلمان فوج جس تیز رفتاری سے حرکت کرتی تھی، اسکی صرف ایک مثال دینا ہی کافی ہے کہ ایک مرتبہ ایک مسلمان کمانڈر نے سیدنا خالد بن ولیدؓ کو خط لکھا کہ میں دشمن کے ساتھ برسرپیکار ہوں، مجھے آپؓ کی مدد کی ضرورت ہے۔ آپؓ نے اسی قاصد کو خط دے کر بھیجا کہ جاؤ! اس سے کہو کہ میں تمہاری مدد کے لیے پہنچ رہا ہوں۔ وہ قاصد واپس پہنچا اور خط کھول کر پڑھا۔جب سر اٹھایا تو افق پر خالد بن ولیدؓ کی فوج نظر آرہی تھی۔ یعنی قاصد کے گھوڑے کی گرد بھی نہیں بیٹھی تھی کہ آپؓ مدد کیلئے پہنچ چکے تھے۔ اگر آپ خالدؓ کے دستے یا فوج کے سپاہی ہیں تو آرام آپ کیلئے نہیں ہے۔ آپؓ کسی گاؤں یا شہر پر حملہ کرنے کے لیے جاتے اور دشمن اپنی فوجیں اس طرف لے کر جاتا توآپؓ رخ تبدیل کرکے اس شہر پر حملہ کردیتے کہ جو خالی ہوتا ۔پھر دشمن کی فوج کے لیے یہ ممکن ہی نہ رہتا کہ اتنی تیزی سے حرکت کرسکے۔ آج کل بھی فوج کی تیز نقل وحرکت جنگ میں بہت فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔
حضرت خالد بن ولیدؓ جب جنگ میں جاتے تو دشمن کو بالکل کچل کر رکھ دیتے ۔ کسی دشمن کو اس قابل ہی نہ چھوڑتے کہ وہ دوسری فوج کیساتھ مل کر دوبارہ ان کے خلاف کوئی مزاحمت کرسکے۔ جاسوسی کا نظام ایسا تھا کہ پورے عراق میں دشمن کی کوئی بھی حرکت ہوتی ،تو سیدنا خالدؓ کو اسکی اطلاع پیشگی پہنچ جاتی ۔ رسد کا نظام ایسا تھاکہ پورے ملک میں جہاں بھی مسلمان فوج حرکت کرتی ،وہاں رسد کی کوئی کمی نہ رہتی ۔ حضرت خالدؓ کی طرف سے ہمیشہ ایسی جنگی حکمت عملی استعمال کی جاتی تھی کہ جس سے ایرانی ناواقف ہوتے ۔ ایرانی صف در صف براہ راست فوجو ں کے تصادم کے عادی تھے۔جبکہ سیدنا خالدؓ چھاپہ مار کارروائیوں(guerrilla warfare) ، پہاڑوں کے پیچھے سے کمین گاہ میں چھپ کر(ambush) دشمن کو حیران کرکے(tactical surpirse) اور اسے تھکا کر(outmaneuver) اسکے ساتھ تصادم کرتے تھے ۔ جہاں تک ظاہری جنگی حکمت عملی کا تعلق ہے تو وہ اتنی غیر معمولی تھی کہ سلطنت فارس نے اپنے اعلیٰ ترین جرنیل آپکے مقابلے کیلئے بھیجے، لیکن صرف چند ماہ کے عرصے میں ہی سیدنا خالدؓ نے پورا عراق فتح کرلیا۔
سیدنا خالد بن ولیدؓ کی طبیعت کی ایک خاص بات یہ تھی کہ آپؓ جان بوجھ کر خطرے مول لیتے تھے۔ دشمن سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی سپہ سالار اس قسم کے خطرات مول لے سکتاہے ۔ آپؓ اپنی جان پر کھیل کر ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیتے تھے کہ دشمن ہکا بکا رہ جاتا۔ آپؓ کی بے جگری اور بے خوفی مثال بن گئی تھی۔ لوگ خالد بن ولیدؓ کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ اگر دلیری کی آخری حد دیکھنی ہے، تو ’’سیف اللہ‘‘ کو دیکھو۔
جنگ یرموک کے موقع پر کہ جب ساٹھ ہزار غسانی عیسائیوں کا لشکر مسلمانوں کیلئے درد سر بنا ہوا تھا، تو اس معاملے سے نمٹنے کیلئے جنگی شوریٰ کا اجلاس بیٹھا۔ اس میں سیدنا خالدؓ نے یہ تجویز پیش کی کہ دشمن کو پریشان کرنے اور شکست دینے کے لیے میں تیس مجاہدین کے ہمراہ براہ راست ان پر حملہ کروں گا۔ بظاہر یہ جنون لگے گا کہ ساٹھ ہزار کے لشکر کے لیے آپ تیس مجاہدوں کے ساتھ حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، لیکن جنگی شوریٰ میں موجود دیگر سالاروں کا جواب اس سے بھی زیادہ حیران کن تھا۔ اس تجویز کے جواب میں پوری جنگی شوریٰ نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ خالدؓ کا فیصلہ دانشمندانہ نہیں ہے، لہذا تیس کے بجائے ساٹھ مجاہدین بھیجنے چاہئیں! اسکے بعد تاریخ نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ خالدؓ ۵۹ دیگر مجاہدین کے ساتھ ،ساٹھ ہزار کے لشکر پر ٹوٹ پڑے اور انہیں ناکوں چنے چبوا دیئے۔ بظاہریہ ناممکنات میں سے تھا۔ جوکام دنیا کا کوئی جرنیل، کمانڈر، حربی ماہر و منصوبہ سازاور جنگی تجزیہ نگار سوچ بھی نہیں سکتا، خالدؓ اسکو عام طور پر کر گزرتے تھے۔
ایرانی سلطنت کی سرحدیں مغرب میں رومی سلطنت سے ملتی تھیں۔ جب دونوں طاقتوں کو مسلمانوں سے خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے اپنی فوجیں اکٹھی کرلیں۔ یہ پہلا موقع تھاکہ رومی اور ایرانی سلطنتیں ایک دوسرے کی اتحادی بن کر مسلمانوں کے مقابلے پر آئیں ۔ اللہ کے فضل سے سیدنا خالدؓ ان دونوں سلطنتوں سے ٹکرائے اور ان کو شکست دی۔(جاری ہے )
حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... قسط 5 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں