پاکستانی عوام میں فوج کی مقبولیت

Nov 16, 2021

منظور احمد


فوج کی عوامی مقبولیت کی وجوہات جاننے کے لئے ہمیں پاکستان کے قیام سے 35/30 سال پیچھے جانا ہو گا۔ جب پہلی جنگِ عظیم شروع ہو کر ختم ہو چکی تھی اور دوسری جنگِ عظیم ہونے والی تھی، برطانوی راج اپنی پوری آب و تاب سے ہندوستان (برصغیر) پر براجمان تھا۔ 1914ء سے ہی برطانوی حکمرانوں نے پنجاب، سرحد (KPK) راجستھان  اور یو۔پی کے صوبوں سے برٹش ہندوستانی فوج میں بھرتی ہونے کے لئے بھرپور پروپیگنڈاشروع کر دیا تھا، بلکہ میں اور بھی پیچھے جاتا ہوں۔ 1857ء کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد ہندوستانی اور خاص طور سے مسلمان فوجی سپاہیوں پر انگریز حکمرانوں کا اعتماد اُٹھ گیا تھا۔ مسلمان سپاہی اگر فوج میں ابھی تک موجود بھی تھے پھر بھی ان کو اسلحہ Issue نہیں کیا جاتا تھا۔ ہندو، سکھ اور گورکھے چھوٹے رینک کے علاوہ بہت تھوڑی تعداد میں وائسرائے کمیشنڈ آفیسر(VCOs) بھی تھے۔ مسلمان 1901ء تک ایک بھی VCOنہ بنایاگیا۔King Commission Indian Officer میں ابھی تک کوئی ہندو یا سکھ بھی نہیں تھا۔ جب 1914ء کی پہلی جنگ عظیم کے لئے برطانیہ کو فوج کی ضرورت پڑی تو حکومت نے ہندو، سکھ اور مسلمانوں کو فوجی بھرتی میں راغب کرنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کئے، لیکن ہندوستانی فوجیوں کی تعداد 225000 سے زیادہ نہ بڑھ سکی۔اس تعداد میں مسلمانوں کی نفری کافی کم تھی۔ اس کی وجہ مسلمان علماء کا برطانوی حکومت کے ساتھ تعاون کا نہ ہونا تھا۔ عام مسلمان تو پہلے ہی جنگِ آزادی میں ناکامی اور انگریزی حکومت کے مسلم مخالف روّیے سے دلبرداشتہ تھا۔ 


دوسری جنگِ عظیم کے خطرات 1930ء سے ہی منڈلانے شروع ہو گئے تھے۔ اس جنگ کی تیاری کے لئے برطانوی دفاعی منصوبہ سازوں نے بڑی پلاننگ کے ساتھ ہندوستانیوں کو خاص طور سے پنجابی مسلمانوں کو آرمی میں شمولیت کے لئے آمادہ کرنے کے لئے نفسیاتی اور مادّی حرّبے استعمال کئے۔ 1857ء کی بغاوت کے فوراً بعد حکومت نے شمالی ہندوستان کی کچھ ذاتوں اور قبیلوں کو جنگجو ذاتیں قرار دے دیا تھا۔ دراصل یہ محض ایک مفروضہ تھا، لیکن دوسری جنگِ عظیم کے لئے ہندوستانیوں کو فوج میں شامل کرنے کے لئے ”جنگجو قوموں“ (Martial Races)کا مفروضہ خوب استعمال کیا گیا۔ پنجابی اور پٹھان مسلمان  جو پڑھے لکھے نہیں تھے، اُنہیں یہ جعلی مفروضہ بہت پسند آیا،حالانکہ علم نفسیات کے مطابق ایسے افراد جو ذہنی طور پر بہت پختہ نہ ہوں،اَن پڑھ ہوں، اُجڈ طبیعت کے مالک ہوں، معاشی طور پر کمزور بھی ہوں عموماً ایسے لوگ جنگجو آنہ مزاج رکھتے ہیں۔ پنجابی مسلمان معاشی طور پر کمزور بھی تھے، اپنے آپ کو لڑاکا اور بہادر قوم بھی سمجھتے تھے، (حالانکہ اِن کی تاریخ یہ نہیں بتاتی)، قد کاٹھ کے مضبوط تھے،فوج کی نوکری کو پسند بھی کرتے تھے۔ اوپر سے برٹش اِنڈین آرمی نے مسلمان متوسط طبقے کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے King Commission حاصل کرنا آسان کردیا۔ دیرہ دون میں 1932ء میں پہلا آفیسر ٹرئینگ سکول بن گیا۔

مسلمان دھڑا دھڑ آرمی میں کمیشنڈ آفیسر بننے شروع ہو گئے۔ ہندوستان کے شہرت یافتہ مسلمان شاعروں اور اخبار نویسوں کو خاص طور پر کمیشن دے کر پروپیگنڈے کے لئے بھرتی کیا گیا۔ اُنہیں ابتدائی رینک کیپٹن کا دیا گیا۔ حفیظ جالندھری، فیض احمد فیض، چراغ حسن حسرت، ضمیر جعفری، عبدالمجید سالک، یہ سب فوج میں تھے اور ہم عصر تھے، اپنی تحریروں سے، نظموں سے، ریڈیو ڈراموں سے شمالی ہندوستان کے مسلمان نوجوانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کی ترغیب دیتے تھے۔ 1940ء کے بعد بمبئی کی فلموں کا مرکزی خیال فوجی کی رومانٹک زندگی ہوتا تھا۔ ہیرو فوج کا سپاہی ہوتا تھا۔ خاکی وردی میں خوبصورت ہیرو سجتا بھی تھا۔ یوں کہیے کہ اِنڈین سینما بالواسطہ برطانوی اِنڈین فوج کا اشتہاری بازو بن گیا تھا۔ اُس زمانے میں فوجی رومانس پرSuper hitفلمیں بنیں۔ ”گاؤں کی گوری“،”ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی“، ”روٹی“، ”انمول گھڑی“  اور بہت سی فلمیں جن کے نام اَب میرے ذہن میں نہیں آرہے۔ تذکرۃً بتادوں کہ یہ اور دوسری فلمیں میں نے 1950ء میں سکول سے بھاگ کر آدھے سٹوڈ نٹ ٹکٹ پر دیکھی تھیں،یعنی جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد۔ انگریز کی اِشتہاری کاوش کا یہ اثر ہوا کہ پاکستانی پنجاب کے مسلمانوں کے لئے فوج کی نوکری تفاخر کا باعث بن گئی۔ 


پنجاب، سرحد (KPK) اور یو۔ پی کے بڑے جاگیرداروں کو بھی فوج میں بھرتی کے لئے ٹارگیٹ دیئے گئے۔ حکومت نے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو ہدایت کر دی کہ کسی بھی حاضر فوجی کے ماں باپ اور لواحقین کو کوئی بھی مسئلہ در پیش ہو، اُسے فوری طور پر دیکھا جائے۔ غرض کہ برٹش اِنڈین آرمی میں کسی بھی حیثیت سے ملازمت کرنے کو بڑا ”ٹیکا“ سمجھا جانے لگا۔ یہاں تک کہ 1945ء تک دنیا کی سب سے بڑی فوج برٹش اِنڈین آرمی بن گئی تھی۔ 25لاکھ ہندوستانی جوانوں اور افسروں پر مشتمل دنیا کی ایسی فوج جو جبریہ (Conscription) کے تحت نہیں بلکہ اپنی مرضی اور خوشی سے تشکیل ہوئی۔ اتنی بڑی فوج میں 30% مسلمان تھے۔ جس کی زیادہ تعدادپنجاب اور سرحد سے تعلق رکھتی تھی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد مسلمان فوجیوں کی اکثریت نے فوج میں ہی رہنا پسند کیا۔برٹش اِنڈین آرمی سے جو جوان اور آفسر پاکستان کے حصے میں آئے وہ قریباً 180,000 تھے۔ اِن میں سے 95% پنجابی اور سرحدی تھے۔ ہماری فوج کے جوانوں اور افسروں نے، جس بہادری اور سرفروشی سے مہاجروں کو ہندو اور سکھ بلوایوں سے بچا کر پاکستان کی سرزمین پر پہنچایا،یہ پہلی اور ٹھوس خدمت تھی، جس نے فوج کو خاص و عام میں مقبولیت بخشی۔ 


دوسری وجہ مقبولیت کی تھی 1948ء کی پہلی کشمیر جنگ جو ہماری فوج نے بے سروسامانی کی حالت میں لڑی اور کم از کم آزاد کشمیر کو بچا لیا۔ پاکستان کی فوج کے مخالف اَب جو مرضی کہتے پھریں کہ کشمیر کی جنگ کس طرح لڑی گئی، مکمل جیت کیوں نہ ہوئی، راولپنڈی سازش ہوئی، اس قسم کی تنقید ”لبرل“ پاکستانی کرتے رہے تھے اور اَب بھی کرتے ہیں۔
پاکستان کے قائم ہونے کے 15 سال بعد تک نوجوانوں کے لئے روزگار کے ذرائع بہت کم تھے۔ کورین وار(1952-53ء) کی وجہ سے پاکستان کے جوٹ اور کاٹن کی غیر معمولی مانگ کے بڑھنے سے پاکستان میں سرمایہ کاروں نے کارخانے لگانے کی بجائے ٹریڈنگ میں روپیہ لگایا۔ کارخانے نہیں لگائے۔ یہ تو ایوب خان نے PIDCبنا کر سرمایہ کاروں کو اِنڈسٹری کی طرف راغب کیا، جس کی وجہ سے نواجوانوں کو ملازمت کے مواقع ملے۔ نئے بینک بنے۔ انفراسٹرکچر بنانا شروع ہوا۔ اس سب کے باوجود پاکستان کی عوام کے لئے ملازمت کے زیادہ مواقع سرکاری ملازمت اور فوج کی نوکری میں ہی تھے جو ابھی تک ہیں۔ امریکہ میں جنرل آئزن ہاور کے صدر بننے کے بعد 1953ء سے پاکستان میں امریکی فوجی اِمداد آنی شروع ہو گئی۔

فوج کی Expansion میں اضافہ کے لئے شہری اور دیہاتی نوجوانوں کو فوجی Career میں کشش نظر آئی۔ ائیر فورس اور نیوی کے جوانوں کو امریکہ، فرانس  اور دوسرے NATO ممالک میں ٹرئینگ کے لئے بھیجا جانے لگا۔ پنجاب اور KPK کے دیہاتی اور کم ترقی یافتہ اِضلاع کے ہر گھرانے کے نوجوان فوج میں بھرتی ہونے لگے۔ 1965ء کی جنگ چاہے وہ غلط تھی یا Engineerd تھی، پاکستان کے عوام نے پاک فوج سے زبردست محبت کا اِظہار کیا۔ ملّی نغموں اور ترانوں نے فوج اور عوام میں Bondage بنا دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے فوج میں اسلام کا بھر پور تڑکا لگا کر، فوج کو ”جہاد فی سبیل اللہ“کا Slogan دے کر، ہمارے فوجیوں کو جذباتی بنا دیا۔ جنوبی پنجاب اور سرحد کے مذہبی مزاج رکھنے والے عوام کے لئے پاکستانی فوج اسلامی فوج بن گئی۔ سندھ کے مسلمان عوام جو تاریخی طور پر اپنی گوٹھ (دیہات)سے باہر جانے کو بھی پردیس کا سفر سمجھتے تھے، اُنہیں فوجی نوکری میں لانا مشکل کام تھا۔ خیال رہے کہ سندھی ہندو انگریز کی آمد سے پہلے ہی تمام عرب دنیا اور برٹش کالونیوں میں تجارت کے لئے پھیل گئے تھے۔ یہ لوگ مارواڑی کہلاتے ہیں۔ سندھیوں کو فوج میں لانے کے لئے بھٹو صاحب کے زمانے سے ہی کوشیش شروع ہو گئیں تھیں، لیکن اصل سندھ رجمنٹ 1980ء میں جا کر بنی اور اب 50 فیصد سے زیادہ سندھی نوجوان سندھ اِنفنٹری سنٹر کا حصہ ہیں۔

پاکستان میں غربت کی جہاں اور بہت سی وجوہات ہیں وہاں ایک بڑی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی کا دھماکہ بھی ہے۔ جب تک روز گار کے ذرائع وافر اور متنوع نہیں ہوں گے، فوج کی نوکری میں کشش رہے گی۔ ہمارے سیاست دان، ہمارا میڈیا، ہمارے مخالف ممالک اور ہمارے دانشور جتنا مرضی زور لگا لیں فوج عوام میں مقبول ہی رہے گی اور پیچھے بیٹھ کر اہم سیاسی فیصلوں میں حکومتوں پر اثر انداز بھی ہوتی رہے گی۔ ہماری فوج کا جوان مذہبی رجحان رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے جس معاشی اور فکری طبقے سے ہمارے جوان آتے ہیں،اُس فکری طبقے کی ہی پاکستان میں اکثریت ہے اور اِن طبقوں میں پاک فوج کو بے انتہا مقبولیت حاصل ہے۔ہم پچھلے دِنوں اِن لوگوں کی طاقت کا مظاہرہ دیکھ چکے ہیں۔ پاکستان کی فوج کا مجموعی مزاج بھی بہت زیادہ اِسلامی بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان کو ”اسلام کے قلعہ“ کا نام دیا گیا۔ اس قلعے کی حفاظت کرنے والی فوج کی مقبولیت کو ئی بھی کم نہیں کر سکتا۔ عوام کی یہ بے لوث محبت ہی ہے کہ جب بھی فوج نے اِقتدار سنبھالا، عوام سڑکوں پر نہیں آئے۔ ہمارے سیاست دان یہ حقیقت خوب جانتے ہیں۔ 

مزیدخبریں