سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کوپ 26 بہت سی ناکامیاں اور چند امیدیں دے کر ختم ہو گئی۔ میں تو اس کو "ناکام، ناکام اور ناکام" ہی کہوں گی کیونکہ 14 دن کروڑوں ڈالرکا خرچہ کیا گیالیکن ماحولیاتی تحفظ کےلئے کوئی انقلابی معاہدہ طے کرنے میں ناکامی ہوئی۔امیر ملک جیت گئے، غریبوں کی آواز د ب گئی ۔لگژری شہر کی لگژری زندگی میں دنیا بھر سے جیٹ طیاروں میں بھر بھر کر آنے والے سوٹڈ بوٹڈ عالمی رہنماؤں نے طویل مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ تو کر لیا ہے لیکن کسی ٹھوس اعلان اور نتیجے کے بجائے بس "حالات سے سمجھوتوں "پر اکتفا کر لیا گیا۔۔۔
کوپ 26 کے سربراہی اجلاس میں خطرناک ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لئے ایک معاہدہ "گلاسگو کلائمٹ پیکٹ"طےپا گیاہے۔ماحولیاتی تبدیلی پر طےپانےوالا یہ پہلا ایسا معاہدہ ہے جس میں گرین ہاؤس گیسوں کےلئےسب سے بدترین فوسل ایندھن یعنی کوئلے کےاستعمال کو کم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ شریک ممالک نے طے کیا ہے کہ کاربن میں مزید بڑی کمی کا وعدہ پورا کرنے کے لئے اگلے سال پھر ملاقات کریں گے تاکہ دنیاکےدرجہ حرارت کو 1.5 سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کا ہدف حاصل کیا جا سکے۔اس سب سے اہم ترین نکتے پر ٹھوس پیش رفت نہیں ہوسکی بلکہ کھوکھلے وعدوں پر ٹرخا دیا گیا ہے۔یہ حقیقت بھی ہے کہ گلوبل وارمنگ کو دو اعشاریہ چار سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے یا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ماضی میں اور آج جو وعدے کئے گئے ہیں، ان پر صدق دل سے عمل کیا جائے۔ایک اہم اتفاق رائے یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے لئے مالی امداد میں اضافہ کیا جائےلیکن یہ وعدے درجہ حرارت میں اضافے کو ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ یہ بھی طے پایا ہے کہ کاربن میں مزید بڑی کمی کا وعدہ پورا کرنے کے لئے ممالک مزید مل کر کام کریں گے تاکہ عالمی سطح پر 1.5 سینٹی گریڈ کا ہدف حاصل کیا جا سکے۔
"گلاسگو کلائمٹ پیکٹ" کے تحت تمام ممالک متفق ہیں کہ توانائی پیدا کرنے کے لیے کوئلے کا استعمال آہستہ آہستہ کم کیا جائے گا۔کانفرنس کی سب سے مایوس کن بات یہ تھی کہ ابتدائی مباحثوں یا مذاکرات کے مسودوں میں شامل کوئلے کو مرحلہ وار ختم کرنے کاعزم شامل تھالیکن ان کوششوں کو اُس وقت نقصان پہنچا جب انڈیا نےاس کی مخالفت کر دی۔ افسوس ناک بات یہ ہےکہ گلاسگو کانفرنس کےاعلامیئےمیں آخری وقت پربھارت نےاعتراض اٹھا دیااور ہمارے دوست چین نےبھی اس کی حمایت کر دی۔ یوں حتمی مسودے میں جہاں کوئلے کےاستعمال کو "ختم" کرنے کے بجائے اس کا استعمال 'کم' کرنےکا لفظ شامل کیا گیا ہے، تمام ممالک نے کوئلے کے استعمال کو "فیز آؤٹ" یعنی مرحلہ وار طور پر ختم کرنے کے بجائے "فیز ڈاون' یعنی مرحلہ وار طور پر کم کرنے پر اتفاق کیا۔ دنیا بھر کے نوجوان اس بات پر بھی کافی ناراض ہیں کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے ایک طرح سے کوئلہ کا استعمال ترک کرنے سے صاف انکار، عین وقت پر اعلامیہ بھی تبدیل کرا دیا ۔
اعلامیئے میں تمام ممالک پر زور دیا گیا کہ وہ کاربن کے اخراج کو فوری طور پر مزید کم کریں۔ متعدد ممالک نے اس صورتحال پر مایوسی کا اظہاربھی کیا لیکن اس معاہدے کی منظوری بھی دے دی۔سچ تو یہ کہ کانفرنس کے نتائج پر دنیابھرمیں نوجوان اور بڑے سب ہی غصےمیں ہیں۔گلاسگو کی سڑکوں پرگریٹاتھن برگ اور وینیساسمیت لاکھوں نوجوانوں کے احتجاج اور فرائیڈے فار فیچر کے تحت دنیا بھر میں ہر جمعہ کو لاکھوں نوجوانوں اور طلباء کے مظاہروں اور مطالبات کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔14 روز کی محنت اور خرچے کے باوجود وعدے، سہانے خواب اور سبز باغ ہی دکھائے گئے ہیں اور عملی و ٹھوس اقدامات پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
اگرچہ کوپ 26 کے صدر آلوک شرما ایک بہترین منظم ہیں۔میں نے خود دیکھا کہ میلان میں یوتھ فار کلائمٹ کانفرنس کے دوران انہوں نے نوجوانوں کے مطالبات اور جذبات کی بھر پور نمائندگی اور رہنمائی کی۔گلاسگو میں کوپ 26 کے لئے بھی پہلے دن سے لے کر آخری دن تک انہوں نے دن رات کام کیالیکن کوپ 26 کی اختتامی تقریب میں اُس وقت بہت دکھ ہوا جب طے شدہ باتوں پر عمل نہ ہونے اورامیدوں کےبرعکس نتائج سامنے آنےپرجناب آلوک شرما بہت مایوس نظر آئے۔حتمی ڈرافٹ پیش کرتے وقت ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب اُن کی آواز بھرا سی گئی اور وہ آبدیدہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح واقعات رونما ہوئے ہیں، انھیں اس پر 'بہت زیادہ افسوس' ہے۔ اپنے آنسوؤں کو ضبط کرتے ہوئے انہوں نے تمام مندوبین کو بتایا کہ مجموعی طور پر معاہدے کی حفاظت کرنا بہت ضروری تھا۔ ان کی کوششوں پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور اسی گونج میں ان کی ایک ہچکی بھی کہیں گم ہو گئی۔ ایک بہادر انسان کی طرح انہوں نے اپنے جذبا ت پر قابو پاتے ہوئے سب کا شکریہ ادا کیا اور آگے بڑھنے کا عزم ظاہر کیا ۔ یہی وہی آلوک شرما ہیں جنہوں نے پلیمنری سیشنز کے دوران کوپ 26 کو "سچائی کا لمحہ" قرار دیا تھا۔
دنیا بھر کے نوجوانوں کی نمائندگی کرنے والی "شیرنی" گریٹا تھن برگ تو پہلے ہی اس کانفرنس کو فضول اور ناکام قرار دے چکی ہیں۔گلاسگو میں لاکھوں نوجوانوں سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ یہ ایونٹ پرجوش اور خوشنما خطابات، رنگ برنگے جھنڈوں، سربراہان مملکت کے کھوکھلے نعروں اور وعدوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ افریقا سے تعلق رکھنے والی وینسیا 24 سال کی ہیں،وہ کہتی ہیں کہ آخری چند گھنٹوں میں امریکااور یورپی یونین نے کوپ 26کے حتمی ڈرافٹ کے متن سے لفظ "فنڈ" کو ،یا اس کے تصور کو ختم کر دیا ، یوں دنیا بھر کےغریب ملکوں کے خواب سمندر کی کسی تہہ میں چلے گئے۔وہ کہتی ہیں کہ ہم یہ پیسہ امیر ممالک سے خیرات نہیں مانگ رہے بلکہ امیر ممالک اپنی غفلت اور کوتاہی کی تلافی کریں ۔
برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن اتفاق کرتے ہیں کہ ماحولیاتی کانفرنس پر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہےلیکن انہوں نے نئے معاہدے کو آگے کی سمت میں ایک بہت بڑا قدم قراردیا ہے، اہم بات یہ ہے کہ ہم نے کوئلے کو مرحلہ وار کم کرنے کے لیے پہلے بین الاقوامی معاہدے پر اتفاق کیا ہے تاکہ گلوبل وارمنگ کو 1.5 سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کا روڈ میپ تیار کیا جا سکے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتریز کم پرجوش نظر آئے۔انھوں نےکہا کہ'ہمارا نازک سیارہ"ایک دھاگےسےلٹک رہا ہے،ہم اب بھی موسمیاتی تباہی کےدروازے پردستک دے رہے ہیں۔ماحولیاتی تبدیلی کےلئےامریکی نمائندہ خصوصی جان کیری خاصے ناراض ہیں۔ان کا موقف بالکل درست ہےکہ اس معامدے میں ترقی پزیر ممالک کی آواز سنی ہی نہیں گئی ہے ۔ سوئٹزرلینڈ کی وزیر ماحولیات سیمونیٹا سوماروگا سے جب ردعمل کے لئے کہا گیا تو وہ کافی مایوس نظر آئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کوئلے اور فوسل ایندھن کی سبسڈی پر ہم نے جس زبان میں اتفاق کیا تھا، وہ ایک غیر شفاف عمل کے نتیجے میں مزید گہرائی میں چلی گئی ہے، ہو سکتا ہے کہ اب ہمیں1.5سینٹی گریڈ کے قریب پہنچنے میں مدد نہ مل سکے بلکہ اب تو اس تک پہنچنا مزید مشکل ہو جائے گاتاہم بعض مبصرین حتمی معاہدے کو کامیابی سمجھ رہے ہیں کیونکہ پہلی بار کوئلے کا اس قسم کی اقوام متحدہ کی دستاویزات میں واضح طور پر ذکر کیا گیا۔کوئلہ ہر سال تقریباً 40 فیصد کاربن پیدا کرنے کی وجہ ہے اور اسی وجہ سے عالمی درجۂ حرارت1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدد رکھنے کے لئے اس کا استعمال کم کرنے پر سب سے زیادہ توجہ دی جاری ہے۔
ایکشن ایڈ کے پالیسی ڈائریکٹر لارس کوچ بھی کافی مایوس ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امیر ممالک کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ جو ایک صدی سے زیادہ عرصے سے تیل اور گیس کی پیداوار جاری رکھے ہوئے ہیں اور آلودگی پھیلا رہے ہیں۔فرینڈز آف دی ارتھ انٹرنیشنل کی سارہ شا تو اس نتیجے کو ایک سنگین سکینڈل سے کم نہیں سمجھتیں۔ ان کے نزدیک فنڈز اور وسائل فراہم کئے بغیر صرف 1.5 ڈگری کہہ دینا کافی نہیں، کوپ 26 کو ترقی پذیر ممالک کے ساتھ دھوکا دہی کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔کانفرنس کے دوران فنانس ایک متنازع مسئلہ رہا۔ امیر ممالک نے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ سالانہ 100 بلین ڈالر فراہم کرنے کا جو وعدہ 2009ء میں کیا تھا ، وہ تو 2020ء تک پورا ہو جانا تھالیکن یہ اس مدت میں پورا نہیں ہو سکا۔
ہم جیسے غریب ملک کے مندوبین پورے اجلاس میں نقصان اور تلافی کے اصول کے ذریعے فنڈز فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے رہے۔کانفرنس میں بعض مثبت اقدامات بھی سامنے آئے جس امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔امریکا اور چین موسمیاتی تبدیلیوں کا مل کر مقابلہ کرنے پر متفق ہوگئے ہیں ۔چین نے میتھین کے اخراج میں کمی کے معاہدے پر پہلی بار آمادگی ظاہر کی ہے اور کوئلے کے استعمال میں 2026ء تک مرحلہ وار کمی پر تیار ہے۔سویڈن کی والوو، امریکہ کی فورڈ اور جنرل موٹرز، جرمنی کی 'مرسٹڈیز بینز، چین کی' بی -وائی -ڈی 'اور 'جیگوار لینڈ روور 'نے پیٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی کاروں کی پیداوار بند کرنے کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ ایمازون کے مالک جیف بیزوس کا ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ کے لیے 2 ارب ڈالر کا اعلان کیا ہے۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا 2050ء تک کاربن کا اخراج صفر تک لے جائیں گے ۔اب دیکھتے ہیں کہ آنے والے ماہ وسال میں یہ ممالک اپنے وعدوں پر کتنا عمل کرتے ہیں یا بقول غالب۔
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔