عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 90

Oct 16, 2018 | 02:40 PM

ادریس آزاد

مجلس غروب آفتاب کے بعد جلد ہی ختم ہوگئی اور قاسم کی گرفتاری کی بدولت کلیساؤں کے اتحاد میں چند لوگ مزید کھلے دل کے ساتھ شامل ہوگئے۔ شہنشاہ نے شاگال کو انعامات دینا چاہئے لیکن شاگال نے کچھ بھی لینے سے انکار کردیا۔ وہ جس طرح آیا تھا اسی طرح مڑا اور ’’آیا صوفیاء‘‘ کے ہال سے نکل گیا۔ مجلس ختم ہوئی اور سب لوگ آج کے سنگین واقعہ کا تاثر لے کر یہاں سے جانے لگے۔ لیکن بطریق اعظم اور سپہ سالار نوٹاراسکی حالت دیکھنے والی تھی۔ وہ دونوں قاسم کے دام میں پھنسے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ شرمندہ دکھائی دے رہے تھے۔ سب سے زیادہ خراب حالت مارسی کی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں جانے کے لیے قدم تو اٹھا رہی تھی لیکن اسے یوں لگتا تھا جیسے اس کا ایک ایک قدم ایک ایک من کا ہو چکا ہو۔ وہ اپنی قسمت پر حیران ہو رہی تھی جس نے سات سال کے بعد قاسم سے ملوایا۔ لیکن وہ اس سے دو باتیں بھی نہ کر سکی۔ مارسی کو اتنا دکھ کبھی نہ ہوا تھا جتنا اب ہو رہا تھا اب اسے قاسم کی زندگی سے زیادہ کسی چیز کی فکرنہ تھی۔ وہ سر جھکائے ڈھیلے ڈھیلے قدموں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھتی رہی۔
****

عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 89پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
قیصر روم
قاسم بن ہشام کو گرفتارکرکے شاہی محل کے تاریک تہہ خانے میں پھینک دیا گیا تھا۔ سلطان محمد خان کے پاس قاسم کا آخری مکتوب یہی پہنچا تھا کہ دونوں کلیساؤں کا اتحاد سبوتاژ کر دیا گیا ہے۔ اور سپہ سالار ’’نوٹاراس‘‘ رومی کلیسا کے خلاف سخت برہم ہے۔ قاسم نے سلطان کو یہ بھی لکھا تھا کہ ’’جان جسٹیانی‘‘ عنقریب آبنائے باسفورس میں پہنچنے والا ہے۔ اور شہر میں کئی سال تک محصور رہنے کی صورت میں لاکھوں ٹن رسد جمع کی جا چکی ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے سلطان، قاسم کے متعدد خط وصول کر چکا تھا جن میں سب سے اہم خط فصیل شہر اور ’’گولڈن ہارن‘‘ سے متعلق تھا۔لیکن اب آج سلطان کو خبر ملی تھی کہ قاسم بن ہشام کو بطریق ڈیمونان کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے اور جلد ہی شہنشاہ اسے سزائے موت دے دے گا۔ سلطان نے با آواز بلند۔۔۔مرحبا کہہ کر قاسم بن ہشام کو خراج تحسین پیش کیا اور قاسم کی رہائی کے سلسلے میں اپنے سالاروں سے بات چیت کرنے لگا۔ قاسم کی سزائے موت پر ابھی عملدرآمد نہ ہوا تھا۔ شہنشاہ نے خود محل میں آنے کے بعد قاسم کی سزا رکوا دی تھی اور اسے تاریک قید خانے میں ڈال دیا۔ ق
سطنطین کا خیال تھا کہ وہ قاسم سے سلطان محمد خان کی افواج کے بارے میں بہت کچھ اگلوا سکتا ہے۔ ادھر قاسم کے وہ شناسا مسلمان جو اکا دکا قسطنطنیہ میں موجود تھے، قاسم کی گرفتاری کے ساتھ ہی روپوش ہوگئے یہ خبر اڑتی اڑتی رومیل کے گھر تک جا پہنچی۔ اور بریٹا نے بھی سن لیا کہ فادر ڈیمونان کا قاتل جوایک مسلمان جاسوس تھا۔۔۔’’آیا صوفیا‘‘ سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔
مارسی ابھی تک نڈھال تھا۔ وہ اپنے آپ کو کسی بے بس پرندے کی طرح محسوس کرتی تھی جو ایک آہنی پنجرے میں جکڑ لیا گیا ہو۔ وہ اٹھتے بیٹھتے قاسم کی رہائی کے لئے ترکیبیں سوچنے لگی۔ لیکن اسے کوئی ممکن راستہ نظر نہ آیا۔ یہ تو مارسی کی حالت تھی۔ لیکن سب سے زیادہ قابل دید کیفیت ’’سونیا‘‘ کی تھی جسے قاسم دیوانی لڑکی کہہ کر مخاطب کیا کرتا تھا۔ سونیا کل سے اپنے چھوٹے سے کمرے میں بے سدھ پڑی تھی۔ اس کے لئے قاسم کا مسلمان ہونا ہی ایک بہت بڑا جھٹکا تھا۔ وہ اگرچہ کوئی سنجیدہ مذہب پرست تو نہ تھی لیکن پھر بھی وہ اس خوف میں مبتلا تھی کہ بھلا ایک مسلمان جاسوس ایک عیسائی خادمہ کے ساتھ کیونکر مخلص ہو سکتا ہے۔ دن تیزی کے ساتھ گزرنے لگے۔
’’ادرنہ‘‘ کے قصر سلطانی میں آج گہما گہمی تھی۔ آج ’’سلطان محمد خان‘‘ اپنے بحری بیڑے کا معائنہ کرنے کے لیے ’’بحر اسود‘‘ کی جانب روانہ ہونے والا تھا۔ اس کے پسندیدہ سالار آغا حسن، احمد کدک پاشا اور محمود پاشا بھی اس کے ہمراہ جانے والے تھے۔ سلطان کی سواری تیار تھی کہ اسی اثناء میں سلطان کا ایک قاصد آنکلا۔ قاصد نے پیغام دیا کہ ۔۔۔’’رومیلی حصار‘‘ پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ صرف ایک ماہ کی معمولی تعمیر باقی ہے اور جلد ہی حصار کے برج پر توپیں چڑھائے جانے کے قابل ہو جائیں گی۔
سلطان کے لیے یہ بہت اچھی خبر تھی۔ ادھر اس کا بحری بیڑا بھی اپنی تیاری کے آخری مراحل میں تھا۔ بڑے بڑے تمام جہاز تیار ہو چکے تھے اور انہی جہازوں کا معائنہ کرنے کے لیے سلطان آج بحرہ اسود کی جانب جا رہا تھا۔ سلطان شہنشاہوں کی طرح بگھیوں اور رتھوں میں سفر کرنے کا عادی نہ تھا۔ اس کی سواری تو صرف ایک عربی نسل کا ’’ابلخ‘‘ گھوڑا تھا۔ سلطان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سورج نکلنے کے ساتھ ہی روانہ ہوگیا۔ یہ عثمانی سلطنت کا پہلا سلطان تھا جس کی شخصیت میں ادبی رنگا رنگی اور فنون لطیفہ سے بے پناہ دلچسپی کا بہت زیادہ رجحان تھا۔ ’’محمود پاشا‘‘ بھی شاعر تھا۔ چنانچہ جب کبھی سلطان محمد خان اور محمود پاشا ایک ساتھ کہیں روانہ ہوتے تو راستے بھر محفل زعفران رہتی۔ سلطان محمد خان کو فارسی کے ہزاروں شعر زبانی یاد تھے۔ فارسی اور ترکی زبان میں سلطان خود بہت اچھے شعر کہہ لیتا تھا۔ چنانچہ بحر اسود تک کا سفر ہنستے کھیلتے کٹ گیا۔ اور سلطان عثمانی فوج کے بحری بیڑے کے نزدیک پہنچ آیا۔ یہاں کھلا ساحل تھا اور براعظمی ترائی دو سو فٹ تک چلی گئی تھی۔ سلطانی بیڑے کے جہاز اور کشتیاں بحر اسود میں کھڑے جھول رہے تھے۔ ساحل پر بہت سے سپاہی اور ملاح چلتے پھرتے نظر آئے۔ ایک ملاح نے سلطانی دستے کو آتے دیکھا تو دوڑتا ہوا امیر البحر کے پاس پہنچا۔
امیر البحر ’’بلوط اغلن‘‘ ایک بحری جہاز کے عرشے پر کھڑا سمندر کی جانب دیکھ رہا تھا۔ بلوط اغلن کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ سلطان دو سو سواروں کے تیز رفتار دستے کے ہمراہ خود آپہنچا ہے تو اس کے اوسان خطا ہوگئے۔ وہ دیوانوں کی طرح نیچے کی طرف بھاگا۔ امیر البحر نے ساحل پر پہنچ کر دیکھا کہ سلطان ایک بوڑھے ملاح کے ساتھ محو گفتگو ہے۔ اس نے دیکھا کہ سپاہیوں اور بہت سے ملاحوں نے سلطان محمد خان کا والہانہ استقبال کیا۔ امیر البحر سلطان کے پاس پہنچا اور مودبانہ سلام کہنے کے بعد بحر اسود کے ساحل پر خوش آمدید کہا۔
بوڑھا کپتان’’عباس‘‘ سلطان کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ ساحلی ہوا کے جھونکے سلطان محمد خان کے سیاہ عمامے کو لہرا رہے تھے۔ یہ بوڑھا ملاح یونانی جہازوں کا سابق کپتان’’بارٹا کوزین‘‘ تھا جو مسلمان ہونے کے بعد ادرنہ چلا آیا تھا اور سلطان نے اسے بحر اسود میں اپنے بیڑے کی تیاری کا نگران مقررکیا۔ اصل ذمہ داری تو امیر البحرکی تھی۔ بوڑھا عباس محض اس کا معاون تھا۔ سلطان اپنے سالاروں اور میزبانوں کے ہمراہ سب سے بڑے جہاز کے عرشے پر چڑھ آیا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)

مزیدخبریں