عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 89
اچانک جب شہنشاہ نے دوسری مرتبہ مارسی کو مخاطب کیا تو وہ جیسے کسی گہرے خواب سے جاگ گئی۔ اس نے ایک طائرانہ نظر حاضرین پر ڈالی اور کسی قدر بھرائی ہوئی آواز میں گویا ہوئی۔
’’شہنشاہ معظم! آپ نے جو خواب دیکھا ہے اس کی تعبیر بہت بھیانک ہے۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ قدرت نے قسطنطنیہ کا نوشتہ دیوار لکھ دیا ہے۔ دیوار پر بیٹھے ہوئے کوے قسطنطنیہ کے مذہبی پیشوا اور آپس میں لڑنے والے فرقہ پرست عوام ہیں۔ مغرب سے آنے والے گدھ رومہ کا کارڈنیل اور اس کے ساتھی ہیں۔ اور جس دیوار پر وہ بیٹھے ہیں یہ قسطنطنیہ کی فصیل ہے۔ آسمان کی جانب سے جھپٹنے والے شاہین عثمانی فوج کے بہادر ترک سپاہی ہیں۔ اور جیسا آپ نے بتایا کہ شاہین دیوار پر بیٹھے پرندوں کو کھا جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ فتح مسلمانوں کے حصے میں جائے گی۔
آپ نے دریا میں تیرتی ہوئی جو کشتی دیکھی ہے یہ سمندر کے بیچوں بیچ رکھا ہوا شہر قسطنطنیہ ہے اور کشتی میں چھید سے مراد ہے قسطنطنیہ کے اندرونی اختلافات۔۔۔اور آخر میں آپ نے جو دیکھا ہے کہ ایک دہکتی ہوئی آنکھوں والا دیو آپ کو پنا دینا چاہتا ہے۔۔۔تو یہ دیو فی الحقیقت آپ کا دشمن ہے جو آپ کو شکست سے دوچار کرکے دین عیسوی کو رسوا کرنا چاہتا ہے۔
شہنشاہ معظم! یہ سارا خواب ہمارے لئے اچھا شگون نہیں۔ لیکن اس کے آخر میں صرف ایک اچھا شگون ہے جو آپ کی ذات سے وابستہ ہے اور اسی کو میں امید کی آخری کرن سمجھتی ہوں ۔ آپ نے خواب کے آخر میں چونکہ دیو کا سر قلم کر دیا ہے اس لئے صرف ایک صورت میں آپ شاہین صفت مسلمانوں کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کر سکتے ہیں۔‘‘
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 88پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اتنا کہہ کر مارسی خاموش ہوگئی۔ شہنشاہ جو مارسی کی گستاخانہ تعبیر سے آگ بگولہ ہوا بیٹھا تھا ۔۔۔تعبیر کا آخری حصہ سن کر یکلخت نرم ہوگیا اور بے صبری سے پوچھنے لگا۔
’’مقدس راہبہ!۔۔۔آپ نے ہمارے خواب کی تعبیر بتا کر ہمیں اور حاضرین مجلس کو اگرچہ بہت مایوس کیا ہے لیکن ہم شاہین صفت مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی صورت جاننے کے لیے بے تاب ہیں۔ آپ جلدی سے بتائیے کہ ہمیں کیا کرنا ہوگا؟‘‘
مارسی نے کچھ اس انداز سے تعبیر بتائی تھی کہ شہنشاہ سمیت تمام لوگ پہلے تو غصے سے بھر گئے لیکن پھر ایک دم سب لوگ ٹھنڈے ہوگئے۔قاسم نے دل ہی دل میں مارسی کو بے پناہ داد دی۔ اب مارسی بولی’’شہنشاہ معظم! سرخ آنکھوں والا منحوس دیو آپ کے آس پاس ہی کہیں موجود ہے۔ اسے تلاش کیجئے اور اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیئے۔ تب میدان جنگ میں کامیابی آپ کی ہوگی۔‘‘
شہنشاہ کے ماتھے پر شکنیں پڑ گئیں۔ سرخ آنکھوں والا دیو وہ کہاں ڈھونڈتا؟ وہ بے حد مضطرب ہوا اور اس نے مارسی سے کہا’’مقدس راہبہ! ہم سرخ آنکھوں والا دیو کہاں ڈھونڈیں گے؟ کیا ہمیں اس سلسلے میں کوئی رہنمائی مل سکتی ہے؟‘‘
’’نہیں شہنشاہ معظم! میری نظر اس قدر گہرائی میں دیکھنے سے معذور ہے۔۔۔لیکن میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ یہ شخص آپ کے آس پاس ہی کہیں موجود ہے‘‘
مارسی نے اس مرتبہ کچھ اس انداز سے کہا کہ قسطنطنین بے چینی سے اپنے آس پاس نظر دوڑانے لگا۔ مارسی اپنی نشست پر بیٹھ چکی تھی۔ اجلاس کے تمام شرکاء پتھر کی طرح گم صم اور خاموش بیٹھے تھے۔ بطریق اعظم اپنی جگہ بار بار پہلو بدل رہا تھا۔ البتہ کارڈنیل اسیڈور زیر لب مسکرا رہا تھا۔ رومن کلیسا کے دیر پادری بھی خوفزدہ نہ تھے۔ البتہ یونانی کلیسا کے راہبوں کو توجیسے سانپ سونگھ گیا تھا شہنشاہ کا خواب بھی بھیانک تھا اور اس کی تعبیر بھی۔ لیکن یکلخت قسطنطنین نے مجلس کا رکا ہو اسلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا حکم دے دیا۔
مارسی کی بتائی ہوئی تعبیر نے درحقیقت شہنشاہ کا فائدہ ہی کیا تھا۔ اس طرح قاسم کے کئے کرائے پر پانی پھر سکتا تھا۔ کیونکہ قاسم تو دونوں کلیساؤں کا اتحاد نہ چاہتا تھا۔ جبکہ مارسی قاسم کے عزائم سے بے خبر تھی۔ وہ تو اب تک یہ سمجھ رہی تھی کہ قاسم صرف اسی کو لینے کے لیے یہاں آیا ہے۔ حقیقت تو یہ تھی کہ مارسی نے اپنے علم کے مطابق شہنشاہ کے خواب کی یہ تعبیر بتائی تھی اور اسنے کوئی بددیانتی نہ کی تھی۔ شہنشاہ کا فائدہ یہ ہوا کہ اب مارسی کی تعبیر سے یونانی کلیسا کے جو پادری خوفزدہ ہو چکے تھے وہ کلیساؤں کے اتحاد پر آمادہ ہوتے دکھائی دیتے تھے۔ شہنشاہ کو اپنے خواب کی تعبیر کے اس فائدہ کا ادراک ہوا تو وہ دل ہی دل میں خوش ہوا اورکہنے لگا۔۔۔اچھا ہوا، ایک خواب ہی تو تھا۔ اس کی تعبیر سن کر تمام پادری خوفزدہ ہوگئے تھے۔ امید ہے کہ اب کلیسائے رومہ کے ساتھ اتحاد بھی ممکن ہو سکے گا۔۔۔شہنشاہ نے دوبارہ مجلس کا آغاز کیا اور سپہ سالار نوٹاراس سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’نوٹاراس!یہ وقت آپس میں لڑنے کا نہیں۔ میں ایک شہنشاہ کی حیثیت سے تمہیں حکم نہیں دیتا، قسطنطنیہ کے ایک سپاہی کی حیثیت سے تمہیں اس مقدس اتحادمیں شمولیت کی دعوت دیتا ہوں۔‘‘
نوٹاراس ابھی تک اپنی بات پر بضد تھا۔ لیکن اب اس کا نشہ اتر چکا تھا۔ چنانچہ اس نے مودبانہ لہجے میں شہنشاہ سے کہا’’شہنشاہ معظم! نوٹاراس ہر قیمت پر مسلمانوں سے لڑے گا اور آخر دم تک لڑے گا۔ چاہے کلیساؤں کا اتحاد ہو یا نونے سے رہ جائے۔ میں شہنشاہ معظم کے مقدس لشکر میں ایک سپاہی کی حیثیت سے لڑنے پر بھی فخر کروں گا۔‘‘
سپہ سالار نے گول مول بات کی اور خاموش ہوگیا۔
قاسم اور مارسی ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔۔۔میٹنگ ہوتی رہی۔ شہنشاہ ، وزرائے سلطنت، آیا صوفیاء کے بطریق ، کارڈنیل کے بشپ سب بولتے رہے۔۔۔اور ہال میں دیر تک مختلف آوازیں گردش کرتی رہیں لیکن قاسم اور مارسی کے لیے مجلس کب کی ختم ہوچکی تھی۔ ہال میں موجود ہر شخص میٹنگ کی جانب متوجہ تھا لیکن مارسی اور قاسم ایک دوسرے کی جانب متوجہ تھے نہ جانے کتنا وقت گزر گیا۔۔۔آیا صوفیاء کی سب سے بڑی اور تاریخی مجلس جاری تھی۔ قاسم اپنے فرض کو بھلا چکا تھا۔ وہ اٹھ کر مارسی کے پاس جانا چاہتا تھا لیکن وہ ایسا نہ کر سکتا تھا۔ مارسی بھی ایسا نہ کر سکتی تھی۔۔۔
مجلس جاری رہی۔ یہاں تک کہ آیا صوفیاء کے بیس میں سے چار بطریق اور سو میں سے تیرہ پادری کلیسائے رومہ کی بالادستی تسلیم کرنے پر تیار ہوگئے۔ بوڑھا ’’فادر بروس‘‘ بھی ان میں شامل تھا۔ لیکن بطریق اعظم ابھی تک کوئی فیصلہ نہ کر پایا تھا۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ شہنشاہ نے صلح کا معاہدہ تیار کرنے کا حکم دے دیا۔ کلیسائے قسطنطنیہ پر کلیسائے رومہ کی بالادستی تسلیم کر لی گئی تھی اور شہنشاہ نے اپنے طور پر یونانی کلیسا کو رومی کلیسا میں ضم کرنے کا باضابطہ اعلان کر دیا تھا گویا اتحاد ہو تو گیا تھا لیکن اسے صحیح معنوں میں اتحاد نہیں کہا جا سکتا تھا۔ کیونکہ زیادہ تر پادری ابھی تک برافروختہ تھے۔
شہنشاہ کے اعلان کے بعد کسی جانب سے کسی راہب نے بطریق اعظم ثانی ڈیمونان کے قتل کا ذکر چھیڑا تو قاسم ایک دم چونکا۔ اور اب پہلی بار اسکی توجہ مجلس کی جانب مبذول ہوئی۔ مجلس میں ڈیمونان کا ذکر کرکے یہ کہا گیا کہ ابھی تک اس کے قتل کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی جبکہ اس بات کے واضح ثبوت ملے ہیں کہ یہ قتل کلیسائے رومہ کے کسی پادری نے کیا ہے۔
قسطنطنین کو معاہدہ ہو جانے کے بعد یہ بات ناگوار لگی اور اس نے حاضرین دربار کو ڈانٹ دیا۔لیکن عین اس وقت جب ڈیمونان کا قاتل نہ ملنے کی بات ہو رہی تھی پراسرار شاگال مجلس کے ہال میں داخل ہو چکا تھا۔ وہ اپنے عصا کو فرش پر ٹیکتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا اور اس کے عصا کی ٹھک ٹھک سن کر تمام حاضرین مجلس اس کی جانب دیکھنے لگے تھے۔قاسم کی نظریں اس کی جانب اٹھیں تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ قاسم کی چھٹی حس خطرے کا الارم بجانے لگی تھی۔ شاگال کو دیکھتے ہی اسے اپنی نشست پر گھٹن محسوس ہونے لگی۔ اس کا جی چاہا کہ وہ اٹھ کر شاگال کا سر قلم کر دے یا یہاں سے بھاگ جائے۔ شہنشاہ بھی شاگال کی جانب دیکھ رہا تھا۔ شاگال اپنے عصا کو ٹیکتا ہوا اکڑ کر چلتا ہوا حاضرین مجلس کے درمیان سے گزرنے لگا۔ وہ اگرچہ ایک بطریق تھا لیکن اس کے طور اطوار مصر کے قدم جادوگروں جیسے تھے۔ وہ لوگوں کو چیرتا ہوا تمام کرسیوں سے آگے نکل آیا اور شہنشاہ کے بالکل سامنے دائرے کے درمیانی صحن میں کھڑا ہوگیا۔ اسکی نظریں شہنشاہ کی جانب اٹھی ہوئی تھیں اور وہ اپنی بھیانک سرخ آنکھوں سے شہنشاہ کو گھور رہا تھا۔
یکلخت شہنشاہ کو سرخ آنکھوں والا دیو یاد آگیا۔ اورجب شہنشاہ نے شاگال کی شکل پر غور کیا تو اسے ایسے لگا کہ جیسے یہ واقعتاً وہی دیو ہو جو اس نے رات خواب میں دیکھا تھا۔ شہنشاہ کوسسٹر میری کی بتائی ہوئی تعبیر یاد آئی اور اسنے ساری دنیا کی پرواہ کئے بغیر اپنی شمشیر کے قبضے پر ہاتھ رکھا تاکہ آگے بڑھ کر اس سرخ آنکھوں والے دیو کا سر اپنے ہاتھ سے قلم کر دے۔ ابھی وہ اٹھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ شاگال کے چہرے پرایک مکروہ مسکراہٹ دیکھ کر رک گیا۔ شاگال شہنشاہ کی جانب انگلی کا اشارہ کرکے جب مخاطب ہوا تواس کی آواز سن کر قاسم کو ایسے لگا جیسے اس کے گلے سے بیک وقت دو انسانوں کی آواز نکل رہی ہو۔ شاگال کی آواز کسی کانٹے دار جھاڑی کی طرح کھردری تھی اس نے کہا۔
’’شہنشاہ معظم! اپنی شمشیر کے قبضے سے ہاتھ ہٹا لیجئے ابھی تو میں آپ کو اپنے دامن میں پناہ دینے آیا ہوں۔ ورنہ ہمارے اسلاف کا تاریخی شہر فنا ہو جائے گا۔‘‘
شہنشاہ نے رات خواب میں دیکھا تھا کہ سرخ آنکھوں والا دیو اسے اپنے دامن میں چھپانا چاہتا ہے۔ اور اب شاگال اسے اپنے دامن میں پناہ دینے کی بات کر رہا تھا۔ شہنشاہ کو یقین ہوگیا کہ یہی وہ شخص ہے جسے قتل کرکے قسطنطین کو جنگ میں کامیابی ہو سکتی ہے۔ لیکن شاگال کی آنکھوں میں کچھ ایسی طاقت تھی کہ شہنشاہ اپنی جگہ سے ایک قدم بھی نہ اٹھ پایا۔ شاگال پھر کہنے لگا۔
’’شہنشاہ معظم! میں آپ کو ایک ایسی خبر بتانے آیا ہوں کہ آپ اسے سن کر بے اختیار مجھے قسطنطنیہ کا نجات دہندہ قرار دیں گے۔‘‘
لیکن شہنشاہ کے ذہن میں ایک ہی چکی چل رہی تھی۔ اور وہ یہ تھی کہ شاگال ہی سرخ آنکھوں والا دیو ہے۔ شاگال نے اپنی بات جاری رکھی۔ اس نے کہا۔
’’شہنشاہ معظم! میں نے بطریق ڈیمونان کے قاتل کو تلاش کرلیا ہے۔‘‘
شاگال کے منہ سے یہ الفاظ نکلنے کی دیر تھی کہ قاسم اپنی جگہ پر دہل کر رہ گیا۔ صرف قاسم ہی نہیں، مارسی بھی بری طرح گھبرا گئی تھی۔ کیونکہ اسے بھی شک تھا کہ ڈیمونان کو قاسم نے قتل کیا ہے۔ اور شہنشاہ اپنی جگہ انتہائی حیرت سے اپنے دونوں آنکھیں پٹپٹا رہا تھا اور پوچھ رہا تھا۔
’’محترم بطریق! کون ہے وہ بدبخت قاتل جس نے دونوں کلیساؤں کے اتحادک و نقصان پہنچانے کے لیے یہ مذموم حرکت کی؟‘‘
شہنشاہ کی بات مکمل ہوئی تو بطریق کا سر دھیرے دھیرے گھومتے ہوئے قاتل کی جانب جا رکا۔ اب اس کی سرخ انگارہ آنکھیں قاسم کی آنکھوں میں پیوست ہو چکی تھیں۔اس نے ایک دم اپنا دایاں بازو اٹھا کر قاسم کی جانب انگلی کا اشارہ کیا اور شہنشاہ سے کہا۔
’’یہ ہے بطریق اعظم ثانی کا قاتل! جو اس وقت آپکے سامنے بیٹھا ہے۔ اس کی شمشیر نے ڈیمونان کا سر اس کے تن سے جدا کیا۔‘‘
مارسی کو محسوس ہواکہ اس کی دنیا جو دو روز قبل روشن ہوئی تھی یکلخت تاریک ہوگئی اور قاسم نے دل میں کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے خود کو سزائے موت کے لئے تیار کر لیا۔
اچانک قاسم کے دل سے تمام خوف دور ہوگئے اور اسے پہچان لئے جانے پر یک گونہ اطمینان ہوا ۔کچھ ایسا اطمینان جیسا مسافر کو منزل مل جانے پر ہوتا ہے۔ پورے ہال کو سانپ سونگھ گیا تھا بطریق اعظم جس نے قاسم کو اپنا مشیر مقرر کیا تھا تھر تھر کانپ رہا تھا اور شہنشاہ قاسم کو ٹکٹکی باندھ کر مسلسل گھور رہا تھا۔ شہنشاہ نے یکلخت بجلی کی طرح کڑکتے ہوئے کہا۔
’’کون ہے یہ شخص؟۔۔۔اور تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہی ڈیمونان کا قاتل ہے؟‘‘
’’میرے پاس یہ ثبوت ہے۔۔۔‘‘ شاگال نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کچھ کاغذات آگے بڑھ کر شہنشاہ کوتھما دیئے۔ اورکہا’’شہنشاہ معظم!یہ تین تحریریں ہیں ان میں سے پہلا وہ جعلی خط ہے جو ڈیمونان کی لاش سے ملا۔ یہ نیلے رنگ کے شاہی لفافے میں تھا اور اس خط پر جو الفاظ تحریر کئے گئے وہ آپ کے سامنے ہیں۔ دوسرا خط تھریس کے بشپ لیمارک کی طرف سے لکھا گیا۔اور وہ بھی جعلی ہے جو اس نوجوان نے بطریق اعظم کو یہ کہہ کر دیا کہ لیمارک نے لکھا ہے لیکن جب مجھے معلوم ہوا تو میرا ماتھا ٹھنکا کیونکہ میں تھریس کے چرچ میں اکثر جاتا ہوں میں نے اس شخص کو وہاں کبھی نہ دیکھا تھا اور تیسری تحریر میں نے اس کے کمرے میں موجود ان دستاویزات میں سے حاصل کی ہے جو اسنے حال ہی میں اپنے ہاتھ سے تحریر کیں۔
شہنشاہ معظم! ان تینوں تحریروں پر نظر ڈالی جائے تو یقین ہو جاتا ہے کہ یہ کسی ایک ہی ہاتھ کا رسم الخط ہے۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ شخص مسلمان ہے اور سلطان محمد خان کا جاسوس ہے۔‘‘
حاضرین مجلس کے چہروں سے ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ بطریق اعظم حیرت کے سمندر میں غوطے کھا رہا تھا اور شہنشاہ کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہو چکا تھا شہنشاہ نے انتہائی اونچی آواز میں دھاڑتے ہوئے کہا۔
’’جلاد! اس ناہنجار کا سر اتار کر ہمارے قدموں میں ڈال دو۔‘‘
قاسم یہ حکم سنتے ہی اپنی نشست پر اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ ظاہری طور پرایک راہب بنا ہوا تھا۔ چنانچہ اس کے پاس کوئی ہتھیار تو نہیں تھا۔ لیکن اس نے دل میں تہیہ کر لیا کہ شہید ہونے سے پہلے خالی ہاتھ ہی کئی عیسائیوں کا خاتمہ کرکے رہے گا۔ شہنشاہ نے جلاد کو پکار کر حکم تو دے دیا لیکن کوئی جلاد آگے نہ بڑھا۔ کیونکہ یہ مقدس چرچ تھا اور یہاں جلاد موجود نہ تھے۔ ایک دم شہنشاہ کو اپنی حماقت کا احساس ہوا اور اس نے فوراً کہا۔
’’سپاہیو! ۔۔۔اس مسلمان کو گرفتار کر لو۔ ہم اسے سر عام عبرتناک سزائے موت سے دوچار کریں گے۔‘‘
قاسم نے شہنشاہ کا دوسرا حکم سنا تو لڑنے کا ارادہ ترک کردیا اسنے سوچا کہ اس کے لیے گرفتار ہو جانا ہی بہتر ہے وہ ایک جاسوس ہے اور قید خانے سے فرار ہونے کی ہمت رکھتا ہے۔ محافظ دستے کے سپاہی آگے بڑھے اور قاسم کے ہاتھوں اور پیروں میں زنجیریں ڈال دیں۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)