رحم و شفقت!

Jan 17, 2025

رحم اتنی اعلیٰ صفت ہے کہ خالق کائنات کی دو صفات اسی لفظ سے بنی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ایک رحمان دوسرے رحیم۔ ہم جب بھی کوئی کام شروع کریں تو ہمیں نبی کریم ؐ نے ہدایت فرمائی کہ پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لیا کرو جس کا ترجمہ یہ ہے کہ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان‘ نہایت رحم کرنے والا ہے معلوم ہوا کہ رحم کرنا خدائی صفت ہے۔ خدا تو انتہائی رحم و کرم کرنے والا ہے لیکن اس نے اپنے محبوب ؐ کو بھی یہی عہدہ عطا فرمایا۔

ترجمہ:”اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔“

تمام جہانوں اور تمام مخلوق کے لیے آپ کیسے رحمت اور مہربانی والے بنے؟ جب ہم آپ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی رحمت سے نباتات اور جمادات یعنی پودوں اور بے جان پتھروں نے بھی فیض حاصل کیا۔ چنانچہ جب بارش نہ ہوتی‘ زمین بیابان ہو جاتی آپ دعا فرماتے بارانِ رحمت کا نزول ہوتا‘ اس سے مردہ زمین زندہ ہو جاتی۔

حتیٰ کہ حضور اکرم ؐ جانوروں پر بھی انتہائی رحم فرماتے۔ اسی وجہ سے آپ نے جانوروں کو باہم لڑا کر تماشا دیکھنے سے منع فرمایا۔ زمانہ جاہلیت میں شکاری جانوروں کو باندھ کر انہیں نشانہ بناتے اور تیر اندازی کی مشق کرتے آپ نے اس سنگدلی سے منع فرمایا۔ ایک دفعہ ایک صحابی حاضر ہوئے ان کے ہاتھ میں چادر کے اندر لپٹے ہوئے کسی پرندے کے بچے تھے آپ نے فرمایا جاؤ ان بچوں کو ان کے گھونسلوں میں رکھ آؤ۔

حضور اکرم ؐ کافروں کے لیے بھی خیر سگالی کے جذبات رکھتے تھے۔ آپ ان کی حالت کو دیکھ کر کڑھتے تھے کہ یہ لوگ کفر و شرک سے باز نہیں آتے۔ کاش یہ کسی طرح صراط مستقیم پر چل پڑیں حتیٰ کہ کافروں کی طرف سے بدسلوکی اور اذیت ناک تکالیف کے پہنچنے کے باوجود بھی آپ نے اُن کے حق میں بددعا نہ فرمائی۔

حضور ؐ کو رحم کی حقیقت اور فضیلت معلوم تھی۔ جب ہی آپ کی پوری حیات طیبہ رحم و کرم کی بلندپایہ مثالوں سے لبریز ہے اور رحم کی وہ فضیلت آپ نے اُمت تک پہنچائی۔

”رسول اللہ ؐ فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل قیامت کے دن ضرور فرمائیں گے اے بنی آدم میں بیمار ہوا تونے میری عیادت نہ کی۔ بندہ عرض کرے گا میں تیری عیادت کس طرح کرتا تو تو خود سارے جہان کا پروردگار ہے۔ خدا فرمائے گا کیا تجھے نہیں معلوم میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور تو نے اس کی عیادت نہ کی اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے قریب پاتا۔ پھر ارشاد باری تعالیٰ ہو گا اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے نہیں کھلایا۔ بندہ عرض کرے گا اے رب العالمین تمام جہانوں کو پالنے والے میں تجھے کس طرح کھلاتا خدا فرمائے گا۔ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے اُسے نہیں کھلایا اگر تو اُسے کھلاتاتو مجھے اس کے پاس پاتا۔ پھرارشاد باری ہو گا اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا تو نے نہیں پلایا۔ بندہ عرض کرے گا اے پروردگار میں تجھے کس طرح پلاتا تو تو رب العالمین ہے خدا فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے نہیں پلایا اگر پلاتا تو میرے پاس موجود ہوتا۔“

بچوں پر شفقت بھی رحم کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ ا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک دیہاتی حضور ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ بچوں کو پیار فرما رہے تھے اس دیہاتی نے عرض کیا کہ آپ بچوں کو پیار بھی کرتے ہیں ہم تو نہیں کرتے۔حضور ؐ نے فرمایا:ترجمہ:”یعنی کیا میں اس پر قادر ہوں کہ تیرے دل سے خدا نے جو رحم نکال لیا ہے وہ پھر رکھ دوں۔“

حضرت نعما ن بن بشیر سے ایک روایت بخاری اور مسلم میں موجود ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ رحم کا تعلق ایسا ہے کہ پوری اُمت مسلمہ یک جان و یک قالب نظر آتی ہے۔فرمایا کہ حضور ؐ نے ارشاد فرمایا۔ تو مومنوں کو آپس میں رحم کرنے، محبت رکھنے اور مہربانی کرنے میں ایسا پائے گا جیسا کہ ایک بدن ہو جب بدن کا کوئی عضو دُکھتا ہے تو سارے بدن کے اعضاء اس دُکھ میں شریک ہوتے ہیں اور سارا جسم بیداری اور بخار سے سارے جسم کا شریک ہوتا ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ترجمہ: ”یعنی جو شخص چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کی تعظیم نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔“

حضور ؐ نے رحم کرنے کی جو فضیلتیں بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم فضیلت کسی یتیم بچے پر رحم کرنے کے بارے میں بیان فرمائی۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں جو شخص خدا کی خوشی حاصل کرنے کی خاطر کسی یتیم بچے کے سر پر ہاتھ پھیرے تو یتیم بچے کے سر کے ہر بال کے عوض جس پر اس کا ہاتھ پھرے نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔

٭٭٭

مزیدخبریں