کتا ب سے کرکٹ کھیلنا بھی دل پسند کھیل تھا،کیا کیا باتیں یادوں کے دریچوں سے جھانک رہی ہیں، سب خواب لگتا ہے، افسوس ہم نے جلد خوابوں کو کھو دیا 

کتا ب سے کرکٹ کھیلنا بھی دل پسند کھیل تھا،کیا کیا باتیں یادوں کے دریچوں سے ...
کتا ب سے کرکٹ کھیلنا بھی دل پسند کھیل تھا،کیا کیا باتیں یادوں کے دریچوں سے جھانک رہی ہیں، سب خواب لگتا ہے، افسوس ہم نے جلد خوابوں کو کھو دیا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:57
بلے کو السی کا تیل لگا کر دھوپ میں رکھنا، بلا ہینڈل سے کم کمزور ہو جاتا تو کہیں سے کوئی”چپر“ نکل جاتی تو ”سریش“ لگا کر وہاں تندی(خاص قسم کا مضبوط دھاگہ۔)کس کر باندھ دی جاتی۔ کتاب سے کرکٹ کھیلنا بھی دل پسند کھیل تھا۔ میں اور بھائی جان پاشا خوب کھیلتے تھے۔ گلی کی نکڑ پر بیٹھے نائی سے شیو اور حجامت بنوا نا بھی اس دور کی ثقافت تھی۔ایسے حجام کی کل متاع گھنے درخت کے نیچے رکھی میز، سلور کاایک مگا، تبت سنو کریم کی شیشی، 2استرے، میلا سا تولیہ، ایک قینچی، بال کاٹنے کی مشین، 2 گنگھیاں، موچنا، پھٹکڑ ی اور آف وائیٹ رنگ کاشیونگ صابن۔ شیو کے بعد تبت سنو کا کھردرے ہاتھوں سے مساج بھی کمال ہوتا۔دیہاتی کھلونے بھی زیادہ تر کاغذ، گتے یامٹی کے بنے ہوتے۔ بچوں کے کھیلنے کے لئے کاغذ کا گڈا بھی بنایا جاتا اسے دھاگے سے کھینچتے تو”ٹک ٹک“کی آواز آتی تھی۔سائیکل پر شوقین لوگ ”ڈنمو“(denmo) لگاتے اور رات کو اس ڈنمو کی روشنی سائیکل چلانے میں مدد گار ہوتی تھی۔پانچ دس پیسے کے سوراخ والے سکے بھی دیکھے،چھرے والی بندوق سے گتے کے بورڈ پر دھاگے سے لٹکتے بھارتی سپاہیوں اور غباروں پر نشانہ بازی بھی کی، کاغذ کی کشتی اور بارش کا پانی کی نظم بھی سنی اور کاغذ کی ناؤ پانی میں چلائی بھی، کاغذ ی ہوائی جہازوں کو کلاس روم میں اڑایا بھی اور ماسٹر صاحب کی ڈانٹ بھی کھائی، چاک بھی ساتھیوں کو مارے اور پھر استاد کی مار بھی کھائی، ماں سے سرمہ دانی سے آنکھوں میں سرمہ بھی لگوایا، کوئی کھیل کھیلنے سے پہلے بلے یا سلیٹ کی آڑ لے کر”باریاں بھی ڈالنی“اور پھر بھاگ کر انگلی رکھ کر اپنی باری بھی ملی۔
واہ واہ یار! کیا کیا باتیں یادوں کے دریچوں سے جھانک رہی ہیں۔ سادہ زمانے میں کیا سادگی تھی، کیسا پیار چھپا تھا۔ یہ سب خواب ہی لگتا ہے۔ افسوس ہم نے بہت جلد ان خوابوں کو کھو دیا ہے۔ ایک بات کہہ سکتاہوں کہ یادداشت نے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیا۔
اُس زمانے میں ڈور بیل نیا نیا رواج ہوا تھا۔ کسی کی ڈور بیل بجا کر بھاگ جانا بچوں کی پسندیدہ شرارت تھی۔ ان شراتوں میں گستاخی یا بد تمیزی کا عنصر کبھی بھی نہ تھا۔
آلو گوشت اور شادی؛
میرے بچپن میں شادی بیاہ پر عمو ماً آلو گوشت، زردہ اور نمکین چاولوں سے برات کی تواضع کی جاتی تھی۔زمین پر دستر خوان لگایا جاتا تھا۔ سالن مٹی کے پیالوں میں تقسیم ہوتا جس میں ایک بوٹی اور 2 آ لو ہوتے تھے۔ بعد میں صرٖف آ لو اور شوربا ملتا بوٹی نہیں۔ میٹھے میں لوگ زردہ اور نمکین چاول ملا کر کھاتے اور اس کا ذائقہ لاجواب ہوتا تھا۔ بعض لوگ اس میں سالن بھی ملا لیتے تھے۔ آج بھی کچھ علاقوں میں لوگ زردہ اور پلاؤ مکس کر کے کھاتے ہیں۔ مجھے بھی جب موقع ملے میں گھر میں یہ میٹھے اور نمکین چاول ملا کر ہی کھاتا ہوں۔عمر اور احمد مجھے یہ میٹھے اور نمکین چاول ملا کر کھاتا دیکھ کر ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ بچپن کے ذائقے آسانی سے بھلا کہاں چھوٹتے ہیں۔ دریوں پر بیٹھے براتیوں کے لئے پھر نواڑ کی کرسیاں آ ئیں، لکڑی کے فولڈنگ میز اور آج تو یہ صنعت ترقی کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ہر چیز کے پیسے ہیں، ہال کے، جال کے، پھولوں کے، جھولوں کے، کھانے کے اور شرمانے کے بھی۔     
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -