ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ پاکستان ریلوے کی مال گاڑیاں خالی اسٹیشن پر کھڑی محکمے اور حکومت کا منہ چڑاتی رہیں، کیونکہ ان گاڑیوں کیلئے انجن ہی نہ تھے
مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:16
اسی طرح مال گاڑیوں کے ذریعے سامان کی جو ترسیل ہوتی تھی اس کا رحجان بھی ٹرکوں اور ٹریلروں کو فراخ دلی سے دی گئی سہولتوں کے سبب اْدھر منتقل ہوگیا، جہاں پاکستان میں ایک دن میں دس پندرہ مال گاڑیاں چلا کرتی تھیں، ان کی تعداد ہفتے میں بس برائے نام ہی رہ گئی اور ایک وقت تو ایسا بھی آیا تھا کہ پاکستان ریلوے کی مال گاڑیاں خالی اسٹیشن پر کھڑی محکمے اور حکومت کا منہ چڑاتی رہیں۔ کیوں کہ ان گاڑیوں کو لے جانے کے لیے کوئی انجن ہی موجود نہ تھے۔
پاکستان بھی تو آنا ہی تھا
اس علاقے میں، جو اب پاکستان کہلاتا ہے، ریل گاڑی تو تقریباً اسی وقت آگئی تھی جب سارے ہندوستان میں اْس کی پٹریاں بچھ رہی تھیں یعنی انیسویں صدی کے وسط تک۔ لیکن اس طرف کے تمام مجوزہ منصوبے مکمل کرنے میں کوئی ایک صدی تو مزید لگ ہی گئی تھی- ہمیں چونکہ پاکستان ہی میں رہنا ہے اس لیے اس کتاب کا بڑا حصہ پاکستان میں ریلوے کے نظام پر ہی مرتکز رہے گا۔
دریائی سفر: انڈس سٹیم فلوٹیلا
ریل گاڑی کے منصوبے شروع ہونے سے پہلے ہی سندھ میں انڈس اسٹیم فلوٹیلا کے نام سے ایک ریلوے کمپنی وجود میں آ چکی تھی جو ریل گاڑی تو نہیں چلاتی تھی البتہ اْن کے دْخانی جہاز اور سٹیمر مختلف دریاؤں میں سفر کرتے ہوئے ملتان، لاہور اور اٹک کے علاوہ ان بڑے شہروں میں بھی پہنچتے تھے جو ان دریاؤں کے کنارے آباد تھے۔ ریلوے کی طرح ان سٹیمروں میں مسافر سفر کرتے تھے اور بھاری سامان اور اجناس وغیرہ کی ترسیل بھی ہوتی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ پالتو جانور بھی لادلیے جاتے تھے۔ زیادہ تر تو گھوڑوں، اونٹوں اور بیل گاڑیوں پر ہی آمدو رفت ہوتی تھی، جو مختصر فاصلے کے لیے تو مناسب تھے لیکن لمبے سفر کے لیے اس قسم کی کشتیاں اور بحری جہاز ہی استعمال ہوتے تھے-
تب پاکستان میں 6دریا پورے زورو شور سے بہا کرتے تھے، جن میں سے 5 دریا تو صرف پنجاب ہی میں تھے یعنی، جہلم، چناب، راوی، ستلج اور بیاس۔ اْنہی 5 دریاؤں کی نسبت سے اس دھرتی کو پنج آب یعنی 5دریاؤں کی سَرزمین کہا گیا تھا۔
ان کے علاوہ ایک چھٹا اورعظیم ”دریائے سندھ“ گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے سَر پٹختا اور دریائے کابل کا پانی دامن میں سمیٹے اٹک خورد پہنچ کر پْرسکون ہو جاتا تھا۔ پھر یہ جنوبی پنجاب میں مشہور صوفی شاعر خواجہ غلام فریدؒ کے قصبے کوٹ مٹھن کے مقام پر اْن پانچوں دریاؤں کو اپنے اندر پناہ دیتا ہوا کراچی کے قریب ڈیلٹا بناتا ہوا سمندر میں جا گرتا تھا۔ یہ سارے ہی دریا سٹیمروں اور جہازوں کے ذریعے بحری سفر کے لیے بے حد موزوں تصور کیے جاتے تھے- اس لیے ان دنوں ان دریاؤں میں ہر طرف بڑی کشتیوں کے ساتھ ساتھ بحری جہاز اوراسٹیمر بھی چلتے نظر آتے تھے۔
دریائی نقل و حرکت کے اس نظام کو یوں تو کئی چھوٹی بڑی اور مقامی کمپنیاں بھی جاری رکھے ہوئے تھیں، تاہم ان میں سب سے بڑا اور مقبول نام انڈس سٹیم فلوٹیلا ریل کمپنی کا ہی تھا۔یہ کمپنی 1823ء میں کراچی میں قائم کی گئی تھی اور وہیں ان کا ایک بڑا دفتر بھی موجود تھا۔ انھوں نے برطانیہ سے کوئی درجن بھر مختلف جسامت کے بحری جہاز اور سٹیمر منگوا کر اپنے بیڑے میں شامل کر لیے تھے۔ یہ بڑے جہاز اور سٹیمر دریائے سندھ میں ٹھٹھہ کے قریب”جِھرک“ کے مقام پر بنائی گئی ایک بڑی بندرگاہ پر لنگر انداز رہتے تھے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔