پاکستان سمیت دنیا بھر میں گزشتہ روز عالمی ”یومِ روا داری و برداشت“ منایا گیا۔اقوامِ متحدہ کے زیر اہتمام یہ دن ہر سال 16 نومبر کو منایا جاتا ہے،اِس دن کو منانے کا آغاز 2005ء میں ہوا البتہ اس کی منظوری 1999ء میں ایک قرارداد کے ذریعے دے دی گئی تھی۔اِس دن کو منانے کا مقصد معاشرے میں برداشت، صبر و تحمل کی اہمیت اُجاگر کرنا اور عدم برداشت کے منفی اثرات سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔یہ دن نہ صرف افراد بلکہ حکومتوں اور تنظیموں کو بھی اپنے رویوں اور طرزِ عمل پر غور کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں خصوصاً اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور منافرت کی روک تھام اور اُس پر سزا کی ضرورت کو اُجاگر کرتی ہیں،اِس دن کا اہم پیغام ایک دوسرے کے مذہب،عقائد اور حقوق کا احترام کرنا بھی ہے۔ اقوامِ متحدہ کا اِس دن کے حوالے سے اعلامیہ اِس بات کی توثیق کرتا ہے کہ برداشت یا رواداری،عیش و عشرت ہے اور نہ ہی بے حسی،یہ دنیا کی ثقافتوں کی مختلف اقسام اور اظہار کی مختلف شکلوں کے علاوہ بنی نوع انسانی کا احترام ہے کیونکہ رواداری کے ذریعے ہی عالمی انسانی حقوق اور کسی کی بنیادی آزادی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے برداشت و رواداری کے عالمی دن پر جاری کیے گئے قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ نبی کریمؐ نے اپنی زندگی میں رواداری اور برداشت کی شاندار مثالیں قائم کیں، ہمیں اُن پر عمل کرنا ہے،ان کی ترجیح ایسا معاشرہ ہے جو ہر شہری کو مساوی مواقع اور حقوق فراہم کرے،اختلافات قبول کریں،ایک دوسرے کے لئے برداشت، عزت و احترام کو فروغ دیں،پاکستان کو اَمن، روا داری اور بھائی چارے کی مثال بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں پُراَمن معاشرے کا قیام بنیادی انسانی حقوق سے وابستہ ہے، جن میں کسی کی ثقافت اور زبان کا احترام، مذہب اور عقیدہ پر عمل کی آزادی اور حق ِ رائے دہی کو اہمیت دینا شامل ہے۔ دنیا کا ہر مذہب انسانوں کو برداشت کا درس دیتا ہے، انبیائے کرام کے علاوہ ہر برگزیدہ ہستی کی زندگی بطور مثال سب کے سامنے ہے کہ کس طرح اُنہوں نے برداشت اور رواداری کو اپنی زندگی میں خاص جگہ دی اور دوسروں کو اِس کا درس دیا۔ آقائے دوجہاں حضرت محمدؐ کی حیاتِ طیبہ صبر و استقامت اور برداشت کا بہترین نمونہ ہے، یہ آپؐ کی ہی خاصیت تھی کہ کوڑا پھینکنے والی عورت کا حال معلوم کرنے کے لئے تشریف لے گئے۔
آج دنیامیں اِس دن کو منانے کی ضرورت بہت زیادہ ہے، مہذب معاشروں میں بھی ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کی جا رہی ہیں۔ اسرائیل فلسطینیوں کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے،بھارت کشمیریوں کو اُن کا حق ِ رائے دہی استعمال نہیں کرنے دینا چاہتا بلکہ وہاں تو اقلیتوں کو بھی ان کے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔عالمی سطح کے علاوہ قومی و انفرادی سطح پر بھی حالات کچھ خاص مختلف نہیں ہیں۔ یہاں برداشت کی شدید کمی ہے، لوگ ذرا ذرا سی بات پر بھڑک جاتے ہیں،دوسرے کی بات سننا بھی گوارا نہیں کرتے،ہر وقت دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ عدم برداشت کی وجہ سے معاشرہ تقسیم در تقسیم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کہنے کو تو یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے لیکن یہی ٹیکنالوجی عدم برداشت پیدا کرنے کے لئے استعمال کی جا رہی ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے فیک نیوز کو پھیلا کر لوگوں کے جذبات اُبھارے جاتے ہیں،انہیں اُکسایا جاتا ہے، پُر تشدد احتجاج کی طرف دھکیلا جاتا ہے۔ جھوٹی معلومات کی بنیاد پر لوگوں کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ ایک زمانے میں عرب سپرنگز کو سوشل میڈیا کی بہت بڑی کامیابی تصور کیا جاتا تھا، حکومت گرانے کا سہرا سوشل میڈیا کے سر باندھا گیا، لیکن اب جب ہر کسی نے اپنے مفادات کی خاطر اِس ہتھیار کو استعمال کرنا شروع کر دیا تو ہر ملک اِس سے متعلق قانون سازی پر زور دے رہا ہے۔
بعض ممالک میں قوانین بنا لئے گئے ہیں، بعض جگہوں پر غور کیا جا رہا ہے کہ کس طرح قواعد و ضوابط بنائے جائیں۔ چند ماہ قبل برطانیہ میں ہونے والا ایک واقعہ اس کی بہترین مثال ہے کیسے معصوم بچیوں کے قتل کو ایسا رنگ دے دیا گیا کہ اِس نے نسلی فسادات کو جنم دیا، مذہبی منافرت کو پروان چڑھایا۔ برطانیہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اِن فسادات پر قابو تو پا لیا، مجرموں کو سزائیں بھی دے دی گئیں تاہم اِس واقعے نے برطانیہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ پاکستان میں بھی پیش آیا جب ایک نجی کالج کے حوالے سے فیک نیوز پھیلا کر طلباء کو اُکسایا گیا، پُرتشدد احتجاج کیا۔معاملہ تو اب حل ہو گیا ہے لیکن بہت سے سوال ضرور چھوڑ گیا ہے۔ غلط معلومات پھیلا کر کیا کچھ کرایا جا سکتا ہے اور اِس کی ایک بہت بڑی وجہ معاشرے میں برداشت کی کمی ہے۔ہر کوئی اپنے موقف پر ڈٹا رہتا ہے اور مخالف بات سننے کا روادار ہی نہیں ہوتا۔ آج سب کے لئے اصول کی بجائے اپنے اپنے نظریات زیادہ اہم ہیں۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں برداشت کی اہمیت پر آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے، عدم برداشت کے معاشرے پر تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں، اِس نے نہ صرف فرد بلکہ معاشرے کے لگ بھگ سبھی گروہوں کو بھی متاثر کیا ہے۔پاکستان میں ہر قوم، رنگ، نسل اور مذہب کے ماننے والے بستے ہیں جن میں بھائی چارہ، اتحاد اور برداشت موجود تھا تاہم گزرے وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدل چکے ہیں،حالانکہ ایک دوسرے کے عقائد یا رائے کو قبول کرنا،اَمن اور سکون قائم رکھنا ہی مہذب معاشروں کی نشانی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں صبر و تحمل،برداشت،رواداری کو فروغ دینے کے لئے حکومتی سطح کے ساتھ ساتھ انفرادی سطح پر بھی کوششیں شروع کی جانی چاہئیں۔ ایسی نشستوں کا اہتمام کیا جانا چاہئے جن میں اہل ِ علم و دانش اپنی رائے کا اظہار کریں اور برداشت کی تلقین کریں۔ سکولوں میں بچوں کو اِس کی تعلیم دی جائے، سوک ایجوکیشن کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ یہ بات سمجھنا لازم ہے کہ آگے بڑھنے کے لئے ہر سطح پر برداشت و رواداری کا سبق پڑھانا ہو گا، سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کا وجود ماننا ہو گا، لوگوں کو ایک دوسرے کی بات سننے کی عادت ڈالنا ہو گی،اگر اب بھی اِس طرف توجہ نہ کی گئی تو آنے والا وقت مزید مشکلات لے کر آئے گا۔