مسلمان مورخین اور تذکرہ نویس البلاذری،الطبری، المسعودی، ابن ِ خلدون، ابن صوقل، ابن خلکان،ابن کثیر، ابن اثیر،ابن خطیب، عوفی، اصطخری، الادریسی، یاقوتی، المقدسی اور یشاری نے واقعات اور روایات کواس فضل وکمال کے ساتھ ہم تک پہنچایا کہ تاریخ کا قاری اسلامی دور میں پہنچ جاتا ہے اسی طرح برعظیم کے ان مورخین میر علی شیر قانع، محمد قاسم فرشتہ،میر محمد معصوم بکھروی، مستعد خان،مولانا نظام الذہن، طاہر ٹھٹھوی، طباطبائی،ابو الفضل ذکاء اللہ، شبلی نعمانی، سلیمان ندوی، ابو ظفر ندوی، مولانا ابو الرزاق اور اکبر شاہ نجیب آبادی نے تاریخ کی پر پیچ وادیوں میں تحقیق کی وہ شمعیں روشن کیں جن پر ہمیں ناز ہے لیکن اس میدان میں کچھ ایسے لوگ بھی آئے جنہوں نے تاریخ کو مسخ کیا۔
شیخ الاسلام حضرت بہاؤالدین زکریا سہروردی ملتانی ؒ کے حوالے سے محققین نے بہت جستجو کی لیکن نامور لوگ بھی افراط وتفریط کا شکار ہوگئے۔ شیخ الاسلام بہاؤالحق زکریا ملتانی ؒ قریشی الاسدی تھے۔ آپ کا نسب نامہ یوں ہے، بہاؤالحق بن شیخ محمد غوث بن شیخ ابوبکربن شیخ جلالدین بن شیخ علی قاضی بن شمش الدین محمد بن الحسین بن عبداللہ بن الحسین بن المطرف بن خزیمہ بن حازم بن المطرف بن عبدالرحیم بن ھبار بن اسود بن مطلب بن اسد بن عبدالعزی بن قصی۔
آپ 27رمضان المبارک 566ھ کو شب جمعہ لیلتہ القدر، ماہِ صیام اور طلوع سحر کے وقت حضرت محمد غوث کے ہاں پیدا ہوئے۔ابتدا میں مولانا نصیرالدین بلخی ؒ کے ہاں پڑھنے لگے سات سال کی عمر میں قرات کے ساتھ حفظ قرآن کیا۔ درسی کتب کی طرف متوجہ ہوتے ہی جب حرف ونحو پر تھے کہ انشراح صدر ہو گیا 577ھ میں والد بزگوار کی وفات کے بعد چچا محترم شیخ احمد غوث نے آپ کی دستار بندی کروائی اور آباء کی مسند پر لا بٹھایا آپ نے سب کچھ چچا کے حوالے کر کے حصول علم کی خواہش کی۔چچا نے بڑے بڑے تشریح اور منتہی علماء کوٹ کروڑ میں جمع کر دیئے ان سے اکتساب فیض کے بعد آپ عازم ملتان ہوئے یہاں جن علماء ومشائخ سے آپ نے علم حاصل کیا ان میں محلہ کٹرہ کے مولانا عبدالرشید کرمانی کے علاوہ کسی کا سراغ نہیں ملتا۔ان دنوں خراسان کے علمی اداروں کا چرچا تھا آپ وہاں تشریف لے گئے سات برس وہاں گزار کر بخارا کی راہ لی۔ آپ کے اکتساب علم کا طریقہ یوں تھا کہ پہلے ایک استاد کی خدمت میں حاضر ہوتے ان کے سینے میں جو علم ہوتا دو تین روز میں اس کا مکاشفہ فرماتے پھر اگلے استاد کے پاس حاضر ہو جاتے اس طریقے سے ان 444اساتذہ سے آپ نے سند فضیلت حاصل کی جوعلم فضل، زہد وتقوی کے لحاظ سے یگانہ روزگار تھے، بخارا میں آپ کا قیام آٹھ برس رہا۔
اس کے بعد آپ تزکیہ نفس اور سخت مجاہدات میں مصروف ہو گئے۔پانچ سال کامل جوار رسول صلی اللہ علی وآلہ وسلم میں بسر کئے اور مولانا کمال الدین محمد یمنی ؒ کے درس حدیث میں شامل ہوئے یہاں سے بیت المقدس کی طرف سفر فرمایا،جہاں مقابر انبیاء کی زیارت کے بعد آپ دمشق تشریف لے گئے۔ پھر آپ نے ثمرقند کا رخ فرمایا ابھی تلاش مرشد میں سر گرداں تھے کہ ایک بزرگ جن پر استغراق کا عالم تھا کی خدمت میں حاضر ہو گئے جو ایک عرصہ تک تو متوجہ نہ ہوئے،دو برس کے بعد جب انہیں ہوش آیا تو آپ پر نظر پڑی،شیخ السلام اسی ساعت کے منتظر تھے، بڑھ کر قدم بوس ہوئے۔بزرگ نے فرمایا: بہاؤالدین تیس سال سے یہ فقیر بحر تجلیات میں مستغرق ہے اور آنے جانے والے سے بے خبر، آج دوست کا حکم ہوا آپ سے ہم کلام ہوں یہ کہ کر مصلی اور مٹھی بھر اشرفیاں حضرت بہاؤالحق ؒ کو عنایت فرمائی اور فرمایا آپ کا سفر دور کا ہے تشریف لے جائیے یہ کہا اور آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ اب آپ تلاش مرشد میں سفر کرتے شیخ شہاب الدین عمر سہروردیؒ کی بارگاہ میں پہنچے انہوں نے آپ کو سینے سے لگا کر انوار الٰہی سے مستفیض کیا۔شیخ سہروردی کے حلقہ ارادت کے صحیح ماہ سال کا راقم کو علم نہیں ہوسکا۔شیخ نے اپنا مصلی اور خرقہ حضرت علیؓ آپ کے سپرد کیا ایک دن آپ شیخ کے پاس موجود تھے کہ ایک کٹا ہوا انار آپ کے ہاتھ میں دیا گیا فرمایا کھا لیجئے شیخ السلام نے جونہی وہ انار ہاتھ میں لیا ایک دانہ گر گیا آپ نے اٹھا کر منہ میں ڈالا شیخ الشیوخ نے فرمایا:
”بہاؤالدین! یہ دانہ دنیا تھا میں نے چاہا تم اس جھمیلے میں نہ پڑو اس لئے عمدا گروایا لیکن تو نے اٹھا کر کھا لیا جاؤ اب دین اور دنیا دونوں تمہارے قبضے میں رہے گی پھر ملتان جانے کا حکم ہوا۔ سید جلاالدین تبریزی ؒان دنوں شیخ الشیوخ ؒ کے آستاں پر رہتے تھے کچھ دنوں کی ملاقات کے بعد حضرت بہاؤالحق ؒ کے اس قدر گرویدہ ہوئے کہ ساتھ ہی ملتان جانا چاہا۔اجازت شیخ کے بعد دنیائے تصوف کے یہ شمش وقمر ملتان روانہ ہوئے جونہی نیشاپور پہنچے سید تبریزی وہاں کے مشائخ سے ملنے شہر میں چلے گئے جبکہ شیخ السلامؒ منزل گاہ ہی میں مصروف عبادت رہے۔ واپسی پر جب سید تبریزی نے مشائخ کے مراتب اور فخرالدین نیشاپوری کے فضائل بتائے اور کہا کہ ان کی عظمت میرے دل میں یوں چھائی کہ میرا ذہن اپنے شیخ کی طرف منتقل نہ ہو سکا آپ کو ان کے جواب سے صدمہ ہوا اور ان کو وہیں چھوڑ چھاڑ ملتان تشریف لے آئے۔ آپ جونہی شہر میں داخل ہونے لگے یہاں کے مشائخ نے دودھ کا ایک پیالہ بھیجا مطلب واضح تھا کہ یہاں پہلے ہی بزرگ موجود ہیں کہیں اور تشریف لے جائیں آپ نے اس پیالے پر پھول رکھ کر واپس کیا مطلب یہ تھا کہ اس پھول کی ماندہم یہاں سماں سکتے ہیں اور ہماری شہرت اور نیک نامی بھی خوشبوکی ماند پھیلے گی۔
ملتان میں آپ کی غیر حاضری میں انقلابات آ چکے تھے چچا رحلت فرما گئے تھے۔حضرت بہاؤالحق والدین زکریا سہروردی ملتانی ؒ نے ملتان میں رہ کر لوگوں کو دین محمدی کی طرف لانا شروع کیا۔ خانقاہ عالیہ کے پہلو میں ایک علمی، دینی اور صوفیانہ درس گاہ کی بنیاد رکھی جہاں علماء اور مبلغین کو تیار کیا جاتا تھا۔آپ کی اس درس گاہ نے اس منبع ہدایت کا روپ اختیار کیا جس سے مسلم و غیر مسلم فیضیاب ہوئے۔آپ نے تجارت کو بطور پیشہ اختیار کیا۔سکھر،بھکر، ٹھٹھہ،منصورہ عراق، مصر، عرب تک آپ کا سامان تجارت جاتا خشکی کے راستے کابل، ایران دلی اور لاہور تک آپ تجارت کرتے رہے،اس کے علاوہ کوٹ کروڑ، لودھراں میں آپ کی زرخیز ارضیات تھیں یہ سب ہوتے ہوئے بھی آپ نے دنیا سے لو نہ لگائی ہر رات ایک قرآن کی تلاوت فرماتے آپ کی صحت آخر عمر تک قابل رشک رہی96 برس کی عمر میں بالاخانے سے اُتر کر جماعت کے ساتھ نماز ادا فرماتے آپ نے تمام عمر ضابطے کی زندگی گزاری جس میں افراط وتفریط نہیں توازن تھا۔آپ نے 96برس کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا ملتان میں آج بھی آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔