نبی پاکؐ  غزوۂ تبوک میں!

Apr 18, 2024

حافظ محمد ادریس

 غزوۂ تبوک کے لیے قیصر روم اپنی لاکھوں فوجوں کے ساتھ آرہا تھا۔ مگر آنحضورؐ اور صحابہؓ کی آمد کی خبر سن کر ہی اتنا بدحواس ہوگیا کہ میدان میں اترنے سے پہلے ہی بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ رعب رسول رحمتؐ  کو اللہ کی خاص عطا تھی۔ غزہ میں آپؐ کے نہتے امتی جس طرح ڈٹے ہوئے ہیں اور اسرائیلی ساری قوت کے باوجود جس طرح چیخ و پکار کر رہے ہیں، یہ اسی رعبِ نبوی کا اثر ہے۔ایران کے ایک ہی حملے میں اسرائیل کا جو حال ہوا ہے وہ اسلام دشمنوں کا پول کھول چکا ہے۔

نبی اکرمؐ تبوک پہنچے تو آپؐ نے فرمایا کہ ہم یہیں قیام کریں گے۔ پھر آپؐ نے قبلہ کا رخ متعین کرکے وہاں کچھ پتھر زمین پر رکھوائے، جن سے محراب کی صورت بن گئی۔ اس جگہ کو آپؐ نے نمازوں کے لیے استعمال فرمایا۔ وہیں آج مسجد تبوک کی خوب صورت عمارت اہلِ ایمان کو دعوتِ عبادت و ذکر بھی دیتی ہے اور تاریخ کے عظیم الشان واقعات کا نظارہ بھی کراتی ہے۔ نبی اکرمؐ نے تبوک کے مقام پر سب سے پہلے جو نماز پڑھائی وہ نماز ظہر تھی۔ نماز پڑھانے کے بعد آپؐ نے فرمایا: یہاں نہ شام کا علاقہ ہے نہ یمن کا۔ (مغازی للواقدی)۔ 

آپؐ یہاں قیام کے دوران ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کرکے پڑھتے رہے۔ یہ ایسے وقت میں پڑھی جاتی تھیں جب ظہر کا وقت ختم اور عصر کا شروع ہو رہا ہوتا۔ اسی طرح مغرب کا وقت اختتام پر پہنچ چکا ہوتا اور عشاء کا وقت داخل ہو رہا ہوتا۔ آپؐ نوافل اپنے خیمے ہی میں ادا کرتے تھے۔ رات کو جب آپؐ اٹھتے تو صحابہ کرامؓ کو اپنے خیمے کے باہر پاتے۔حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ ایک رات کہیں سے کچھ خطرے کی آوازیں آئیں۔ لوگ خوف زدہ ہوگئے مگر عین ا س وقت میں باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ سالمؓ مولیٰ ابو حذیفہؓ آنحضورؐ کے خیمے کے باہر اسلحہ بند ہو کر کھڑے ہیں۔ میں بھی اپنے اسلحے سمیت ان کے پہلو میں جاکر کھڑا ہوگیا۔ آپؐ نے لوگوں کی گھبراہٹ محسوس کی تو ہمارے پاس کھڑے ہو کر فرمایا تمھارے اندر یہ ضعف اور ہلکا پن کیوں پیدا ہوگیا۔ تم سب لوگ ان دو صالح نوجوانوں کی طرح کیوں نہ تیار ہوگئے۔ (بخاری کتاب الجہاد)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہاں قیام کے دوران آنحضورؐ تہجد کی نماز کثرت سے اور بہت طویل قیام کے ساتھ پڑھتے تھے۔ یہیں پر ایک رات کو آپؐ نے تہجد پڑھنے کے بعد فرمایا کہ مجھے پانچ ایسی خصوصیات عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہ دی گئیں۔ مجھے تمام بنی نوع انسان کی طرف مبعوث کیا گیا ہے جبکہ پہلے انبیاء اپنی اپنی قوم اور علاقے کی طرف بھیجے جاتے تھے۔ میرے لیے پوری زمین کو مسجد کا درجہ دیا گیا ہے اور اسے پاک بنا دیا گیا ہے۔ میرے لیے غنائم کو حلال کیا گیا ہے جبکہ پہلے لوگوں کے لیے یہ حرام تھے۔ میری مدد رعب کے ساتھ کی گئی ہے۔ ایک مہینے کی مسافت سے دشمن پر میرا رعب چھا جاتا ہے۔ روزِ قیامت مجھے شفاعت کا اعزاز دیا گیا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ)

ایک مشکل جس سے صحابہ راستے میں بھی دوچار ہوتے رہے تھے اور یہاں بھی اس کا سامنا کرنا پڑا، وہ پانی کی شدید قلت تھی۔ جو لوگ آج تبوک اور اس کے گردونواح کو دیکھتے ہیں، وہ یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ یہاں کسی زمانے میں خشکی و ویرانی بھی تھی۔ نبی اکرمؐ  کو جو معجزات عطا فرمائے گئے ہیں، ان میں تبوک کا ایک چشمہ بھی ہے، اس چشمے کے جاری ہونے کے بعد پوری فوج اور سواری کے جانور قیام کے دوران اس سے خوب سیراب ہوتے رہے۔ نبی اکرمؐ نے یہ خوش خبری بھی دی تھی کہ یہ علاقہ خوب صورت باغات اور درختوں سے لہلہائے گا۔ آج اس علاقے کی واقعی یہی شان ہے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ کی ایک روایت الخصائص الکبریٰ میں بیان ہوئی ہے۔ یہی روایت امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں بھی لکھی ہے کہ آنحضورؐ نے چشمہ جاری ہونے سے پہلے اپنے صحابہؓ سے فرمایا تھا کہ کل دن چڑھ آنے کے بعد تم یہاں ایک چشمہ پاؤ گے۔ جو شخص بھی اس کو پہلے دیکھے، وہ میرے چشمے پر آنے تک اس کے پانی کو استعمال نہ کرے۔ حضرت معاذ ؓ فرماتے ہیں کہ وہ چشمہ جب ہم نے دیکھا تو وہ تھوڑا تھوڑا پانی خارج کر رہا تھا۔ ہم سے پہلے دو آدمی وہاں پہنچ گئے تھے۔ آپؐ نے پوچھا کیا تم نے اس پانی کو چھوا ہے تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ آپؐ نے اپنے ہاتھوں کے چلو میں تھوڑا تھوڑا پانی جمع کرکے ایک مشکیزے میں ڈالا۔پھر آپؐ نے اپنا چہرہ مبارک اور ہاتھ دھوئے اور پھر پانی کو چشمے میں انڈیل دیا۔ چشمہ پانی سے ابلنے لگا۔ لوگوں نے اسے خوب استعمال کیا۔ آپؐ نے حضرت معاذؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے معاذ اگر تم نے لمبی زندگی پائی تو تو عن قریب دیکھے گا کہ یہ جگہ باغات سے بھر جائے گی۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر ۵۹۴۷) 

قیامِ تبوک کے دوران آنحضورؐ کے پاس کچھ لوگ آئے، ان کا تعلق بنو سعد بن ہذیم سے تھا۔ انھوں نے عرض کیا: ”یا رسول اللہ ہمارے اہل و عیال ایک کنویں کے پاس مقیم ہیں، جس کا پانی بہت کم ہے اور شدت کی اس گرمی میں پانی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے تو اس کی مقدار اور بھی کم ہو جاتی ہے۔ ہم اسلام قبول کرچکے ہیں مگر گرد و نواح کے لوگ ابھی اسلام سے بے بہرہ ہیں۔ آپؐ اللہ سے دعا کریں کہ اس کنویں میں اتنا پانی آ جائے کہ ہم اور ہمارے اہل و عیال اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔“ آپؐ نے فرمایا مجھے تین سنگریزے دو۔ پھر آپؐ نے ان کو اپنے ہاتھوں میں لے کر رگڑا۔ اس کے بعد ان لوگوں سے کہا کہ یہ سنگریزے لے جاؤ اور ایک ایک کرکے اللہ کا نام پڑھ کر ان کو کنویں میں پھینکتے جانا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا تو اللہ کی قدرت سے کنوئیں کی تہہ سے پانی پورے زور کے ساتھ اچھلنے لگا۔ آس پاس کے علاقے میں جب یہ خبر پھیلی تو لوگوں نے آکر یہ منظر دیکھا اور وہ بھی اس واقعے سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔ (سیرۃ ابن ہشام) 

حضور پاکؐ اپنی امت کے سچے خیر خواہ تھے۔ آپؐ تو اپنوں اور غیروں سبھی کے لیے رحیم و کریم تھے۔ ارشادِ ربانی ہے: ”دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمھارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے“(توبہ۹:۱۲۸)۔پھر جو آپؐ پر ایمان لا کر خود کو سچا امتی ثابت کریں، ان سے تو آپؐ کا انس و محبت بے مثال ہے۔ آپؐ کی نظروں میں ان کا مقام انتہائی ارفع و اعلیٰ ہے۔ آپؐ کی اکثر دعاؤں میں اپنے صحابہ اور اپنی ساری امت کے لیے مخلصانہ دعاؤں کی کثرت ملتی ہے۔ اس جہادی سفر میں اس عظیم الشان خطبے کے آخر میں آپؐ نے فرمایا: ”اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَلِاُمَّتِیْ۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَلِاُمَّتِیْ۔“ یعنی اے اللہ میری اور میری امت کی مغفرت فرما۔ اس کے بعد فرمایا: ”اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ لِیْ وَلَکُمْ“ یعنی میں اپنے لیے اور تمہارے لیے اللہ سے استغفار کرتا ہوں۔ (مغازی للواقدی ج۳، ۱۰۱۶-۱۰۱۷)

آج امتِ محمد ؐ کی ایک مختصر سی تعداد، جن کے پاس نہ اسلحہ ہے، نہ خوراک، ظالم صیہونی درندوں کے سامنے لوہے کی دیوار بنے کھڑے ہیں۔ یہ حوصلہ ایمان کی قوت اور عشقِ رسولؐ کا انعام ہے۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور دیگر شیطانی قوتیں جتنا زور لگا لیں اہل ایمان ان کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹے حازم، عامر اور محمد اور دو پوتے اور دوپوتیاں عید کے اگلے روز اسرائیلی حملے میں شہید ہوئے تو قطر کے ہسپتالوں میں بیماروں کی عیادت کرتے ہوئے اسماعیل ہنیہ کو یہ خبر ملی۔ اس شیرِ خدا نے فوراً کہا میرے 36ہزار سے زائد بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں شہید ہو چکے ہیں۔ ہم ان تمام شہداء کے خون کے وارث ہیں۔ خونِ شہداء کا نہ سودا کریں گے نہ اسے رائیگاں جانے دیں گے۔ ”ظلم آخر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ خون آخر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا۔“

مزیدخبریں