بہنوں کو تنگ کرنے پر ابا جی کا ہاکی کھیلنا بند کر دیا جاتا تھا،اُس دور کے معاشرے میں دکھ سانجھے تھے اور سکھ بھی، آنکھوں میں حیا تھی،دید مرید کی دنیا تھی
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:29
میرے گھر میں بھی ملازم کو یا چاچا کہتے ہیں یا اس کا پورا نام پکارا جاتا ہے۔یہ قدریں اب کم ہو گئی ہیں۔ ہاں فوجی گھرانوں میں یہ عادت بہت حد تک پائی جاتی ہے۔ ابا جی مرحوم نے ایک بار مجھے بتایا تھا؛”بیٹا ایک روز بڑی تیز بارش ہو رہی تھی۔ سکول کا وقت تھا۔ میں نے تمھارے دادا سے کہا؛”ابا جان! بہت تیز بارش ہے۔کیا ڈرائیور مجھے سکول چھوڑ آئے؟“ جواب ملا؛”بیٹا بارش میں اور بہت سے طالب علم بھی سکول آئیں گے۔ تم بھی ویسے ہی سکول جاؤ جیسے وہ آئیں گے۔“بیٹا!یہ دنیاوی مشکلات سے نبٹنے کا پہلا درس تھا۔ایسی تربیت ابا جی کے آنے والے مشکل دنوں میں بڑی مدد گاررہی ہوگی۔ کسی بات یا بہنوں کو تنگ کرنے پر سزا کے طور پر ابا جی کا ہاکی کھیلنا بند کر دیا جاتا تھا۔ مجال ہے کہ وہ پھر گھر سے چوری جا کر کھیلیں یا ماں یعنی میری دادی سے پوچھ کر چلے جائیں کہ دادی صاف کہہ دیتی تھی کہ”تیرے باپ نے سزا دی ہے اگر تم کھیلنے جاؤ گے تو میں تیرے باپ کو بتا دوں گی۔“ ویسے بھی کیا مجال کہ ابا جی داداکی حکم عدولی کرتے۔ میں نے ابا جی سے ایک بار پوچھا تھا”ابا جی! آپ اگر کھیلنے چلے بھی جاتے تو دادا جی کو کیا پتہ چلنا تھا۔“ جواب دیا؛”پہلے تو تمھاری دادی نے ہی بتا دینا تھا دوسرا میرے والد کا مجھ سے ٹرسٹ ٹوٹ جانا تھا جو مجھے ہر گز قبول نہ تھا۔“اس دور کی بیویاں بھی خاوند کی مرضی کے مطابق ہی جیتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ گھر پر مرد کا راج تھا۔ گھر کے فیصلے مرد کرتے تھے۔ خاندان کا نظم و ضبط بھی قائم تھا اور معاشرے میں امن بھی تھا۔اسی لئے اُس دور کا معاشرہ پر امن تھا۔ دکھ بھی سانجھے تھے اور سکھ بھی۔ آنکھوں میں حیا تھی۔ وہ دید مرید کی دنیا تھی اور یہی ہندوستانی معاشرے کا حسن تھا۔
میری دادی؛
”عورت گھر کی ملکہ اور خاوند بادشاہ ہوتا ہے۔ ایسا بادشاہ جس کی حکومت بھی اپنی، عدالت بھی اپنی، جزا و سزا بھی اس کی لیکن پیار اور محبت سب کا۔ میری دادی کہا کرتی تھیں؛”بیٹا! بیوی کی گھر کی بادشاہت تب تک ہے جب تک خاوند زندہ ہے اور خاوند کی بادشاہت بھی ملکہ کے سر پر ہی ہے۔“ دونوں میں سے کوئی ایک چلا جائے تو رہ جانے والے کی بادشاہت ختم ہو جاتی ہے۔“ میں ان کو کہتا؛”بی بی جی!(ہم دادی کو بی بی جی کہا کرتے تھے۔) یہ کیسے؟“ ان کا جواب ہوتا؛”پتر! وقت آنے پر پتہ چل جائے گا۔“ واقعی وقت آنے پر ان کی کہی بات حرف بحرف سچ ثابت ہوئی۔ میں نے اپنے بہت سے قریبی رشتہ داروں کی وفات کے بعد یہ بادشاہی ختم ہوتی دیکھی ہے۔ دادی نے اپنی بیٹیوں کو اس دور کے رواج کے خلاف تعلیم بھی دلوائی اور گھر داری میں بھی سگھڑ بنایا۔ وہ پا نچ جماعت تک پڑھی تھیں لیکن بڑے بڑے سیانوں سے سیانی تھیں۔ان کے لئے خاوند ہی سب کچھ تھا۔ the ultimate authority کبھی بھی انہوں نے اس اتھارٹی کو چیلنج نہیں کیا تھا۔بی بی جی غصے میں ایک ہی گالی دیا کرتی تھیں ؛”روڑے روڑنا۔“ مجھے نہیں پتہ اس کا مطلب کیا ہے۔
تقسیم ہند میں وہ اپنے خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ بڑی مشکل سے پاکستان پہنچی تھیں۔ یہاں نئے ملک کے اپنے چیلنیجز تھے۔ انہوں نے سارے حالات کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا۔ ابا جی نے صحیح معنوں میں گھر کا بڑا مرد بن کر دکھا یا اور اپنی ماں کی دعاؤں سے کافی کچھ حاصل کر لیا جو وہ ہندوستان چھوڑ آ ئے تھے۔
میری دادی بتایا کرتی تھیں کہ”میں 1953ء میں حج کرنے گئی تھی۔ ان دنوں میں حج واقعی بڑی مشقت کا کام تھا۔ یہ فریضہ ادا کرنے کے لئے تقریباً 3 ماہ لگ جاتے تھے۔ وہ سفینہ عرب سے جدہ گئی تھیں۔ اپنے ساتھ 3 ماہ کا راشن، بستر وغیرہ بھی لے گئی تھیں۔غالبا ً ان کے بھائی اس سفر میں ان کے ساتھ تھے۔عبادت کے ساتھ ساتھ گھر کے باقی کام بھی خود ہی کرنے پڑتے تھے بیٹا۔“
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔