اقوام متحدہ او رامر یکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طر ف سے انسانی سمگلنگ روکنے کے لیے خاطر خواہ کا ر کر دگی کا مظاہر نہ کرنے پر اسے سرکل 2میں رکھا گیا ہے ۔ پروٹو کو ل کنونشن 2000ء کے بعد تقریباً پوری دنیا سے انسانوں کی غیر قانونی نقل و حرکت کے متعلق اعدا دو شما ر جمع کیے جاتے ہیں ، سالانہ رپورٹس تیا ر کی جاتی ہیں اور ان عوامل کا بھی رسمی جائزہ لیا جاتا ہے جو انسانو ں کی نقل و حرکت کا سبب بنتے ہیں ۔ بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہ مخصوص سیاسی مقاصد کے لیے کیا جا رہا ہے۔ 28اگست 2012کو ،ارن، کی طرف سے شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کے مطابق مڈ غا سکر کے ساحلی شہر کے علاقے تواما سینہ کا ہر ساتوا ں فرد سیکس ورکر بن چکا ہے۔2013ء میں شہر میں ان ور کر ز کی تعداد 2لاکھ سے زائد ہو چکی ہے جبکہ 1993میں یہ تعداد صر ف 17 ہزار تھی ۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 38 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جیساکہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ بند رگاہ کی تعمیر اور شہر کے قریب کان کھلنے سے ملک میں غیر ملکیوں کی آمد کا سلسہ شروع ہو ا تو ان کے لیے رہا ئش اور دیگر ’’ضروریا ت ‘‘کو پو را کرنے کے لیے مقامی آبادی کا تعاون حاصل کیا گیا ۔ کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کے اس منصوبے نے ملک کے طو ل و عرض سے جوان لڑکیوں اور لڑکوں کو اپنی طرف کھینچ لیا ۔ اس منصوبے کے شروع ہونے سے کو فی اور لونگ کے مقامی روایتی کا روبا ر میں کمی واقع ہونے لگی ۔ جو ان لڑکیاں جو اس کا روبار سے وابستہ تھیں مذکو رہ اشیا ء کی قیمتیں گرنے سے جسم فروشی کرنے لگیں ۔ اس کے علاوہ دیہی علاقوں سے ہی لیبر کی طلب پوری کرنے کے لیے لائی گئی عورتیں بھی غیر ملکیوں کے ساتھ مسائل کا شکار ہونے لگیں جس میں جسمانی تعلقا ت کو فوقیت دی جاتی تھی ۔ مقامی دلا لوں اور سیکس گروپوں کے سر براہوں نے کان کے کھلنے اور بند ر گا ہ کی تعمیر کو عورتوں کے ،بہتر، مستقبل کا نا م دیا اور عام لڑکیوں کو بھی سیکس ورکر ظاہر کر کے ہزاروں ڈالر کما نے لگے ۔ سمگلرز اور ایجنٹ ما فیا کی چاندی ہو گئی اور وہ دیہا توں سے لڑکیوں اور عورتوں کو سمگل کر کے تو ر مانیہ لانے لگے۔ جسم فروشی کا دھندہ پورے معاشرے میں پھیل گیا ۔ کچھ لو گ اس بڑھتے ہوئے رجحان کو غر بت کی وجہ قرار دینے لگے جو 2009ء کے بحران کی طفیل معاشرے کو اپنی لپٹ میں لے چکی ہے۔ دراصل 2009ء میں دوفعہ منتخب ہونے والے صد ر مارک واو ا لو ما نانا کو اینڈری ر ا جو لیتا نے معزول کر دیا جسے فوج کی حما یت حاصل تھی ۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطا بق اب ما لا گاسی کی تین چو تھائی آبادی ایک روز میں ایک امر یکی ڈالر پر گزارہ کر رہی ہے جو بحران سے قبل 68فیصد سے کم تھی ۔ مڈ غا سکر کے لیے آبادی کے مسائل پر قابو پانے کے لیے اقو ام متحدہ کے فنڈز کے انچارج کا کہنا ہے کہ اب اس ملک میں زندہ رہنے کے لیے مقامی باشندوں کا جسم فروش بننا لا زمی ہو چکا ہے ۔یہ ایک پرا ڈکٹ ہے جسے مدغاسکر میں قانونی طو ر پر جائز قرار دیدیا گیا ہے ۔ اگر چہ دیگر جنوبی افریقی مما لک کے مقا بلے میں یہاں /Hiv ایڈز کم پا ئی جاتی ہے ۔ یہا ں 15 سے 49سال کے لو گوں میں 0.2فیصد افراد اس مر ض میں مبتلا ہیں ۔ اقو ام متحدہ کی ایڈز کمیٹی کے مطا بق جنسی عمل کے ذریعے جرا ثیم کی منتقلی سے آتشک جیسی بیما ریا ں لا حق ہو جاتی ہیں ۔ یہ علاقائی سطح پر بھی عام بیماری ہو چکی ہے ۔حکومت کے ذرائع کے مطابق حاملہ عورتوں کی 4 فیصد اور زنا نہ سیکس ورکر ز کی 12فیصد تعداد آتشک (مثانہ کی گرمی )میں مبتلا پا ئی گئی ۔
چھ سال قبل شمالی علاقے صو فیہ کے دار الحکومت آنٹسو ہہلی کا باقی ماندہ ملک سے رابطہ منقطع رہا لیکن 2006ء میں سڑک کی دوبارہ تعمیر سے اس علاقے میں کا رو بار ی سر گر میوں اور سیکس ورک کادوبارہ آغاز ہو ا۔آنسٹوہہلی میں بے شما ر ورکرز پہلی بار دیکھے گئے ۔ ہر روز بس سٹاپوں پر نئے چہرے دیکھنے کو ملتے تھے ۔ سو لو مینڈ رسی کا کہنا ہے کہ غر بت ہی واحد عنصر ہے جو نو جوان لڑکیوں کو اس دلدل میں اتار نے میں اہم کر دار اداکر رہی ہے ۔ اس کے مطابق 15 سالہ نیدائن 2011ء میں پرائمر ی سکول چھوڑ کر 50 کلو میٹر دور آنسٹو ہہلی میں اپنی 18 سالہ بہن کے پاس چلی گئی ۔ اب دونوں بہنیں سیکس ورکر کے طور پر زندگی گذار رہی ہیں ۔ جب نیدائن سے پو چھا گیا جو فی کلائنیٹ 15امریکی ڈالر کما تی ہے کہ اگر اسے مو قع ملے تو وہ واپس سکول جوائن کر ے گی ؟۔ اس کا جواب نفی میں تھا ۔ حالانکہ اسے ا س کام میں پڑے ہو ئے ابھی صرف ایک سال ہو ا تھا ۔ اسے کسی نے نہیں بتایا کہ وہ اس قدر جوان ہو چکی ہے جو سیکس کے لیے در کار ہو نی ہے ۔ اس نے (IRiN) کو بتایا کہ وہ پولیس سے ہر گز خوف زدہ نہیں ہوتی کیونکہ پولیس اہل کاروں کی ایک بڑی تعداد اس کے گاہکوں میں شامل ہے۔ اسی طرح کے ہزاروں واقعات افریقہ اور مشرق وسطی میں وقو ع پذیر ہو تے ہیں، ہزاروں درد ناک داستانیں دنیا میں بکھری ہو ئی ہیں ۔ یہ تو انکی رضامندی سے ہو ا لیکن لا کھوں کم عمر لڑکیوں کو افریقہ سے یورپ اور مڈل اسیٹ لا کر جسم فروشی کرائی جاتی ہے ۔ مڈغا سکر میں دیگر افریقی ممالک سے سمگل کر کے بھی لڑکیاں لا ئی جاتی ہیں۔ سمگلر ز مر دوں کے ساتھ ایسی لڑکیوں کو بھی سمگل کر تے ہیں جن کی قیمت زیادہ وصول ہونے کی امید ہو تی ہے ۔
مڈغاسکر اور اس کے شمالی علاقو ں میں حکومت سیکس ورکرز کو کا رڈ جاری کرتی ہے اور ان کا باقاعدہ اندراج سرخ بک میں کیا جاتا ہے تا کہ ان کو قانونی امداد مہیا کی جا سکے اور میڈیکل کی سہو لت سے بھی مستفید کیا جا سکے ۔ یہ کا ر ڈ 18سال سے کم عمر لڑکیوں کو جاری نہیں کیے جا تے ۔ 18سال سے کم عمر لڑکیاں اپنے’’ کا م‘‘ کے دوران ہونے والی زیادتی یا باہمی طے شدہ رقم کی عدم ادائیگی کے خلاف عدالت نہیں جا سکتی ہیں کیونکہ قانون ان کو ایساکرنے سے منع کر تا ہے ۔ اس کے با وجو د 18سال سے کم عمر لڑکیوں کی تعداد اس کام میں زیادہ پائی گئی ۔ 2007ء میں اقوام متحدہ کے ’’چلڈرن فنڈ‘‘ نے تواما سینہ اور جزیرہ نو سیبی کا سر وے کر ایا تو معلوم ہو ا کہ 30 سے 50 فیصد زنا نہ سیکس ورکر ز 18سال سے کم عمر کی تھیں ۔ تو اما سینہ میں کان کنی کے منصو بوں پر کام جا ری ہے اور ہر ویک اینڈ پر مزدور اور کمپنی کے ملازمین ان سیکس ورکر ز کی خدمات حاصل کر تے ہیں ۔ ان میں اکثر یت ایسے افراد کی ہوتی ہے جو کم تنخواہ والے ہو تے ہیں ۔ وہ تھوڑی رقم کے عوض کم عمر لڑکیوں کا انتخاب کر تے ہیں ۔ 2011ء میں کم عمر لڑکیوں کی کثر ت ہونے کی وجہ سے حکام نے ایک ہو ٹل کو مستقبل طور پر بندکر دیا جن کی اکثر یت دوسرے علاقوں سے سمگل کر کے لائی گئی تھی ۔(جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 40 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں