انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 38
افریقہ میں چند ایک واقعات ایسے بھی رونما ہوئے جن میں عورتوں سے قرض کی وصولی کے لیے ان کو زبر دستی جنوبی افریقہ لا کر ان سے جسم فروشی کرائی گئی یا ان کو جرائم پیشہ گروپ کو فروخت کر دیا گیا ، کچھ لڑکیوں کو یورپ یا مڈل ایسٹ کے ممالک سمگل کر دیا جاتا ہے جبکہ عورتوں کو گھرو ں میں مفت ور کروں کی طرح رکھا جاتا ہے ۔موز مبیق ،زمبباوے اور مالوی کے مردوں اور جوان لڑکوں کو جنوبی افریقہ سمگل کرکے لا یا جا تا ہے جو زرعی فارمز پر کئی مہینوں تک بلا اجرت کا م کرتے ہیں ۔ اجرت مانگنے والوں کو بتائے بغیر ایمیگریشن کے اہل کاروں کے حوالے کر دیا جاتاہے جو ان کو واپس بھیچ دیتے ہیں ۔ جنوبی افریقہ میں اندرون اور بیرون ملک انسانی سمگلنگ میں چین ، نا ئیجر یا اور یو رپ کے گروپ ملوث ہوتے ہیں جو ملک میں جنسی استعمال کیلئے عورتوں اور لڑکیوں کو دیگر ممالک سے سمگل کر کے لا تے ہیں ۔ یہ گروپ ٹو لیوں کی شکل میں شہروں اور قصبات میں گھومتے ہیں اور اپنے چھوڑے ہو ئے ایجنٹوں اور مخبر وں کے تلاش کر دہ’’ شکار‘‘کو اونے پونے خرید کر بڑے شہروں میں فروخت کر تے ہیں ۔ جنوبی افریقہ کی حکومت انسانی سمگلنگ کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور مطلو بہ کا رکر دگی انتہائی ناکام ثابت ہو ئی ہے ۔ تا ہم یہ اپنی کار کر دگی کو بہتر بنانے کے لیے اہم اقداما ت لے رہی ہے ۔ اسے گذشتہ کئی سالوں سے مسلسل سر کل 2 میں رکھا جا رہا ہے ۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ حکومت انسانی سمگلنگ میں ملوث مجرموں جن کے خلاف کا رروائی ہو تی ہے یا ان پر فر د جرم عائد ہو تی ہے کے متعلق صیح معلومات کو ظاہر نہیں کر تی ۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 37 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
زیر تفتیش مقد مات میں مطلوبہ حقائق کی عدم دستیابی مجرموں کی بریت کا باعث بنتی ہے جس سے گینگ کے ارکان کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں اوروہ تازہ دم ہو کر انسانوں کی سمگلنگ میں جت جاتے ہیں ۔ افریقی حکومت سمگلنگ کے شکار افراد کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے ان کو واپس ان کے ممالک بھیج دیتی ہے۔ اس جرم کے متاثر ہ افراد کو تحفظ دینے کے لیے اداروں کی کارکر دگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سمگلنگ کے شکار افراد کی بحالی ، تحفظ یا حفاظت کیلئے اقدامات ناکافی ہو تے ہیں ۔ جنوبی افریقہ میں اس جرم کی تحقیقاتی رپورٹنگ کے دوران کو ئی قانون ایسا سامنے نہ آیا جو اس جرم کو ممنوع قرار دیتا ہو۔ اس جرم کے مقدما ت کو دیگر قوانین جن میں ’’پر یونشن آف آگنائزڈ کرائم ایکٹ ‘‘شامل ہے کے تحت قابل سماعت بنایا جا تا ہے ۔ مجا ز افسران اور ادارے دیگر قوانین کے ذریعے مفت گھریلوملازمت ،بچوں سے مشقت لینے اور جبری مشقت کے مقد مات قائم کر تے ہیں ۔ انسداد انسانی سمگلنگ کے متعلق مخصوص قانون کی عدم موجود گی اور واضح سزاؤں کے نہ ہونے سے ماضی میں بھی جنوبی افریقہ میں قانون کے نفاذ میں ایک رکاوٹ تھی جس کے سبب یہ جرم بڑھتا جا رہا ہے ۔ سر گرم اور متحرک شعبوں کے اہل کا ر اس جرم کے متعلق معمولی معلومات رکھتے ہیں یا وہ اسے اپنے فرائض کا حصہ نہیں سمجھتے ۔ البتہ 2007ء ’’جنسی جرائم کے ترمیم کا ایکٹ ‘‘کی کئی دفعات کو نا فذکیا گیا ،خصوصاًان حصو ں کو خصوصی اہمیت دی گئی جو جنسی سمگلنگ کے متعلق واضح طریقہ کا ر کی وضاحت کر تے ہیں۔ لیکن اس میں سمگلنگ کے شکار افراد کے تحفظ کے لیے کو ئی شق شامل نہ کی گئی ۔ اس مقصد کے لیے 2005ء کے ایکٹ کو جو بچوں کی سمگلنگ کے متعلق ہے کو نا مکمل رہنے دیا گیا ۔ 2008ء’’ جنو بی افریقہ کے کمیشن برائے قانونی اصلاحات‘‘ کے عملے نے انسانی سمگلنگ کے متعلق ایک جامع متن کو تیا ر کر کے محکمہ انصا ف کو اس کے متعلق سفارشات ارسال کر دیں ۔ افریقی حکومت کی طر ف سے گنتی کے چند افراد پر اس جرم کے ارتکاب پر مقدمات درج ہوئے ۔ ان میں ایک مقدمہ جس میں د س تھائی عورتیں اور دو انڈین باشند ے شامل تھے جو دربان میں ایک قحبہ خانہ چلاتے تھے کا فی مشہور ہو ا ۔اسی طرح ز مبابو ے کی پولیس کے سراغ لگائے گئے ایک واقعہ میں جنوبی افریقہ کی ایک عورت کو گرفتار کیا گیا جو ایک غیر ملکی عورت کو ملازمت کا جھانسہ دیکر جنوبی افریقہ لا رہی تھی ۔ بعد ازاں اس کا کیا بنا؟ کسی کو معلوم نہیں ۔جیساکہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ انسانی سمگلنگ اور جنسی نو عیت کے واقعات کے متعلق حکومت کی طر ف سے معلومات ظاہر نہیں کی جاتیں ۔ جنوبی افریقہ اور چند ایک دیگر افر یقی ممالک میں والدین کی طرف سے بچوں کو پڑوسی ریاستوں میں گھومنے پھرنے کی اجازت کا فائدہ ایجنٹ ما فیا اٹھاتے ہیں ۔
حکومتی پالیسی کے مطابق چھوٹی عدالتیں سمگلرز کو سزائیں نہیں دیتی ہیں۔ ایک مختصر مدت کے لیے مقدمے کی سماعت کی جاتی ہے اور ملزمان کو بری کر دیا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک مقدمہ میں دسمبر 2007ء میں کیپ ٹاؤن کے مجسٹریٹ نے ایک ایسے سمگلر کو بری کر دیا جس پر لڑکو ں کو شہر لاکر قید رکھنے اور ان سے بلامعاوضہ کام لینے کا الزام تھا ۔ جنوبی افریقہ کی پولیس نے مارچ 2008ء کو 27چینی عورتوں کو سات سمگلر ز کے ہمراہ تحویل میں لیا جن کو جنوبی افریقہ کے قحبہ خانوں میں فروخت کرنے کے لیے لایا گیا تھا ۔ پولیس نے یہ کہہ کر ان کو چھوڑدیا کہ وہ غیر قانونی طو ر پر جنوبی افریقہ میں داخل ہوئی ہیں ،ان کو واپس بھیج دیا جائے ۔ ملک میں داخل ہونا یااس سے باہر نکلنا مقامی قانون کی نظر میں جرم نہیں ہے۔ 2007ء کے ابتدائی مہینوں میں لیبر ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں نے گھروں میں کام اور ورکز کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اچانک دورے شروع کر دیئے ۔ ان دوروں کے نتائج اور گھروں میں کام کرنے والوں کی صورتحال کے متعلق عوام کو ابھی تک آگاہ نہیں کیا گیا ، اسی طرح عدالتوں میں زیر التوڑ مقدمات کی تفصیل بھی پو شیدہ رکھی جاتی ہے۔ ماضی میں سینکڑ وں بار جنوبی افریقہ اور ہمسائے ممالک کے درمیان سر حد عبور کرنے کے لیے ’’تعاون ‘‘کا تبادلہ کیا گیا۔ اس سے بھی عوام کو لاعلم رکھا گیا ۔ کچھ سرکاری اہل کاروں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی سمگلنگ کے منظم نیٹ ورک کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں اور رشوت کی صورت میں بھاری رقوم حاصل کر تے ہیں ۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ جنوبی افریقہ میں انسانی سمگلنگ کے شکار افراد کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا او رنہ ہی ان کی مدد کی جاتی ہے ۔
سرکاری سطح پر اس کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے ۔ اس کا اندازہ اس مثال سے لگایا جا سکتا ہے جو ’’ہوم ڈیپارٹمنٹ ‘‘ نے 2007ء میں ایک سال میں صرف ایک غیر ملکی بچے کو پنا ہ کے لیے بھیج کر قائم کی ۔ حکومت کی طرف سے جنسی سیاحت کے خلاف اقدام کرنے یا کاروباری جنسی مقاصد کے لیے مقامی طلب میں کمی لانے کے لیے کو ئی قدم نہیں ا ٹھا یا گیا ۔ اب بین الا قوامی اداروں نے جنوبی افریقہ کے سرکاری اہل کاروں کو تر بیت دینے کا انتظام کیا ہے ۔ افریقہ کے فوجی دستے جو ملک سے باہر امن مشن کے لیے بھیجے گئے ہیں کو ڈیوٹی پر تعینات کرنے سے پہلے جنسی استحصال کے مسائل کے متعلق تر بیت دی جاتی ہے ۔ افریقی ممالک میں اگر کوئی غیر ملکی کمپنی یا ادارہ کو ئی منصوبہ شروع کر تا ہے تو ا سکا اثر مقامی آبادی پر دو طر ح سے پڑتا ہے (i) روز گار کے مواقع بڑھتے ہیں (ii)جسم فروشی اور انسانی سمگلنگ میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ ایسا ہی مڈغا سکر میں اس وقت ہوا جب شہر کے قریب ’’ایمبیٹو نے نا ئیکل ‘‘کان کو کھو لا گیا اور بند ر گاہ کی تعمیر کے لیے ہزاروں غیر ملکی ملک کے اند ر داخل ہو ئے۔ مڈ غاسکر ایک ایسا افریقی ملک ہے جس کی آبادی تقر یباً 2کروڑ کے لگ بھگ ہے لیکن آج وہاں جسم فروشو ں کی تعداد 2 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے ۔ یہاں سے عورتوں اور لڑکیوں کو جبری مشقت کے لیے دیگر ممالک سمگل کیا جاتا ہے ۔ آج بھی 6ہزار سے زائد مالا گاسی عورتیں لبنان اور 7ہزار کے قریب کو یت میں گھریلوخادماؤں کے طور پر کام کر رہی ہیں ۔ ان عورتوں کی اکثریت کم پڑھی لکھی اور دیہی پس منظر سے تعلق رکھتی ہے۔ اپنی اس سادگی اور پس ماند گی کی وجہ سے ایجنٹ ما فیا ز ان کو آسانی سے اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔
افریقہ میں ہزاروں کی تعداد میں بو گس ریکرو ئنگ ایجنسیاں ہیں جو نیم خواندہ لڑکیوں سے بھاری رقوم وصول کر کے ان کو مڈل ایسٹ یا مغربی ممالک پہنچانے کا کام کر رہی ہیں ۔ ایسی لڑکیوں کی ایک بڑ ی تعداد کو کئی ما ہ تک راستے کے ممالک میں ٹھہرا یا جاتا ہے جہاں ان سے نہ صرف اضافی پیسے وصول کیے جاتے ہیں بلکہ ان کو جسم فروشی کرنے پر بھی مجبور کیا جا تا ہے ۔ ان لڑکیوں کو منزل پر پہنچنے سے پہلے کئی با ر مختلف ایجنٹوں کے ہا تھوں فروخت کیا جا تا ہے ۔ آخری خریدا ر تک پہنچنے تک ان کی قیمت کئی ہزار ڈالر بڑھ چکی ہوتی ہے جو ایجنٹ ما فیا جسم فروشی کے ذریعے ان سے وصول کر تا ہے ۔ کسمپر سی اور اذیت نا ک زندگی گذار کر واپس جانیوالی عورتیں اپنے ساتھ کئی بیما ریا ں بھی لیکر جاتی ہیں ۔ ان میں ایڈز ، ہیپا ٹا ئٹس اور بلڈ کینسر قابل ذکر ہیں ۔ لبنا ن اور دیگر عرب ممالک میں گھر یلو خاد ماؤ ں کے طور پر کا م کرنے والی عورتوں نے واپسی پر بتا یا کہ’’ ہم سے نہ صرف مشکل کام لیا جاتا تھا بلکہ ہمیں جنسی طو ر پر ہر اسا ں بھی کیا جا تا تھا ، زیادہ تر کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑ ا اور گھرو ں میں بند رکھا گیا ۔ پا سپورٹ اور دیگر شناختی دستاویزات پہلے دن ہی چھین لیے جاتے ہیں اور کئی ما ہ تک تنخو ا ہ بھی ادا نہیں کی جاتی تھی‘‘۔کو یت اور لبنان میں ایسی عورتوں کی درجن بھر تعداد کو 2009ء میں مو ت کی نیند سلادیا گیا جن کا سر کا ری یا غیر سرکاری سطح پر نوٹس تک نہ لیا گیا ۔ مڈغا سکر میں اندرون ملک انسانی سمگلنگ بھی زوروں پر ہے۔ دیہی علاقو ں سے بچو ں کو اغواء کر کے ما ہی گیری ، کان کنی اور زراعت کے شعبوں میں جبری مشقت لی جاتی ہے ۔ غربت اور لااینڈ آرڈر کی وجہ سے ان بچوں کے اغواء میں خاندان کے کسی فرد کا ’’تعاون ‘‘شامل ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ بچوں کے دوستوں کے رشتہ دار ٹرانسپورٹرز ،سیاسی گائیڈ ز ، اور ہو ٹل ورکر ز اس میں شامل ہو تے ہیں ۔ ہوٹلو ں میں کام کرنے والوں کو ایجنٹ ما فیا ز کے ارکان اپنے رابطے نمبر ز اور ان کی’’ فیس‘‘ دیتے ہیں جو ’’شکار ‘‘کی انکو بر وقت اطلا ع دیتے ہیں ۔ ہوٹل ورکرز دراصل چھوٹے دلال کا کردار ادا کر تے ہیں جو کم عمر لڑکیوں اور لڑکوں کو دیگر ممالک میں جانے کی تر غیب دیتے ہیں ۔ مڈ غا سکر سے ہر سال 10ہزار لڑکیاں سر حد عبور کر کے ملک ملک کی ٹھو کریں کھا تی اور اپنی قسمت آزماتی ہیں ۔(جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 39 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں