انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 37
الجیرین عورتوں کو سماجی اور قانونی محاذ پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے وہ دل برداشتہ ہو کر بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتی ہیں ۔ بچوں اور عورتوں کو جنسی استحصال جبکہ مردوں کو جبری مشقت کیلئے سمگل کیا جاتا ہے ۔ 2009ء میں الجیریا میں بچوں سے جنسی زیادتی کے ایک ہزار سے زائد واقعات ریکارڈ کیے گئے ۔ دیگر صحاراممالک کے 10ہزار کے قریب باشندے الجیریا میں غلاموں کے طور پر کام کر رہے ہیں ۔ بعض ذرائع بنیا د پر ست گروپو ں پر بھی بچوں اور عورتو ں کے استحصال کالزام لگاتے ہیں۔ بچوں کو ’’سپاہی بچے ‘‘بنا کر ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ الجیریاسے بچوں کو اغواء کر کے ان کے اعضاء کاٹ کر اسرائیل اور امریکہ بھیجنے کی اطاعات بھی منظر عام پر آچکی ہیں ۔ 2009ء میں حکومت نے انسانی سمگلنگ کے جرم کی سزا 3سال سے بڑھا کر 10سال جبکہ جرمانے میں بھی اضافہ کرتے ہوئے 3لاکھ درہم سے 10لاکھ درہم کر دیا ۔ اس کے علاوہ 18سال سے کم عمر شہری کو ملک سے باہر بھیجنا جس کے متعلق شک ہو کہ اسے استحصال کا سامنا کرنا پڑے گا کو جرم قرار دیکر اس کی سز ا10سال مقر ر کی ۔ ان تمام قوانین کی موجودگی میں انسانی سمگلنگ کا عمل جاری ہے۔ یا د رہے کہ الجیریا میں سمگلنگ کے شکار افراد کی دیکھ بھال یا ان کی بحالی کا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ حال ہی میں بین الاقوامی سطح پر اس جرم کی روک تھام کے لیے یونسیف اور آئی ۔ او۔ ایم مل کر الجیریا کے ساتھ معاہدے کر رہے ہیں ۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 36 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اتھوپیا میں ہونے والی انسانی سمگلنگ کا جائزہ لیا جائے تو افسوسناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ یہاں سے عورتوں ، مردوں ،اور بچوں کو سمگل کر کے خصو صاً جبری مشقت اور جبری جسم فروشی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ یہ ملک انسانی سمگلنگ کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ اتھو پیا کے دیہی علاقو ں سے لڑکیوں کو گھریلو خدمات کے لیے لایا جاتا ہے ۔ اور ان کی ایک قلیل تعداد سے کاروباری جسم فروشی کرائی جاتی ہے۔ لڑکوں سے ملک کے روایتی ٹیکسٹائل کے کار خانوں، زراعت ، گلہ بانی میں جبری مشقت لی جاتی ہے جبکہ کچھ لڑکو ں سے بازار میں پھیری لگانے کا کام لیا جاتا ہے ۔ اتھوپین لڑکیوں کی ایک تھوڑی تعداد سے ملک سے باہر ڈجبوٹی اور سوڈان میں گھریلو خدمات لی جاتی ہیں جبکہ ان جگہوں پر لڑکوں کو دوکانوں پر زبر دستی کام پر رکھا جاتا ہے ۔ اتھوپیا کے تمام علاقوں سے عورتوں کو مڈل ایسٹ کے ممالک ، سوڈان ، مصر ، لیبیا، اور یمن میں گھریلو کامو ں پر رکھا جاتا ہے جہا ں ان کی حالت قابلِ رحم ہوتی ہے ۔ مڈل ایسٹ میں اتھوپین عورتوں سے شدید قسم کی بدسلوکی کی جاتی ہے، ان کوجسمانی اور جنسی طور پر ہر اساں کیا جاتا ہے اور تنخواہ دینے سے انکار کیا جاتا ہے ۔ ان کو مکمل آرام نہیں کرنے دیاجاتا اوران کو قیدمیں رکھا جاتا ہے ۔ بعض اوقات مقامی آجروں کا غیر اخلاقی حکم بجانہ لانے یا کسی مقامی عیاش عرب باشندے کے اوباش بیٹے کے حمل ٹھہر نے سے نوبت قتل تک بھی پہنچ جاتی ہے ۔ ایسی صورتحال میں بہت سی عورتیں مایوسی ، ذہنی اور نفسیاتی بیماری کا شکار ہوجاتی ہیں ۔ ان میں سے کچھ غیر ت مند اور انا پرست خود کشی کر لیتی ہیں ۔ ان میں سے کچھ عورتیں اپنی منز ل کے ملک پہنچ کر قحبہ خانو ں میں چلی جاتی ہیں اور کچھ سوڈان میں تیل کے کنوؤ ں کے قریب دھندے میں لگ جاتی ہیں ۔ اتھوپین مرد جو غیر ہنر مند ہوتے ہیں ان کی ایک بڑی تعداد ایجنٹ مافیا کے ذریعے سعودی عرب یا خلیج کے ممالک بھیجی جاتی ہے ۔ کچھ مردوں کو دیگر افریقی ممالک پہنچا دیا جاتا ہے جہا ں ان سے جبر ی مشقت لی جاتی ہے ۔2سال قبل حکومت نے اس جرم پر قابو پانے کے لیے پولیس اور انتظامیہ کے اہل کا روں کی تعداد میں اضافہ کیا لیکن یہ دونوں شعبے خود بچوں کی سمگلنگ میں ملوث پائے گئے ۔
مقامی ملیشیا فورس اور اسپیشل پولیس فورس پر بھا ری بجٹ خرچ کرنے کے باوجود سمگلنگ میں کمی واقع نہ ہوسکی ، اتھوپیا جو غریب ممالک کی فہرست میں شمار ہوتا ہے میں انسانی سمگلنگ کو روکنے کے لیے مطلوبہ وسائل نہ ہونے کے برابرہیں ۔ انسانی سمگلنگ ایک ایسا جرم یا انسانوں کا ایک ایسا غیر قانونی اجتما عی عمل ہے جس کے وقو ع پذیر ہونے میں غربت ایک بنیادی عامل تصور کی جاتی ہے ۔اس پر قابو پانے کے لیے بھی غربت ہی آڑے آتی ہے ۔ اتھو پیا میں انسانی سمگلنگ کے جرم کی روک تھام ، اندرونی اور بیرونی سمگلنگ کے مجرمو ں کو سز دینے اور اس کے شکار افراد کو تحفظ دینے یا ان کی امداد کرنے کے بہت کم اقدامات کیے جاتے ہیں ۔ کمزورریاستی ڈھانچہ اور سرکاری وسائل کی کمی اس کا اہم سبب قرار دیے جاتے ہیں ۔ اتھوپین حکومت نے اگر چہ بین الاقوامی سطح پر اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلا ف مقدمات قائم کرنے اور ان کو سزائیں دینے کی کو ششوں میں اضافہ کیا ہے، لیکن ملک کے اند ر سمگلنگ کرنے والو ں کے مقدمات کی سما عت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ قانونی طو ر پر ’’اتھو پین کریمنل کو ڈ ‘‘اور دیگر مقامی قوانین میں عورتو ں اور بچوں کو استحصال کے لیے سمگل کرنے کی 20 سال تک قید با مشقت کی سزا مقرر ہے ۔ اسی طرح ما ورائے قانون غلامی اور جبری مشقت کو بھی قابل سزا جرم قرار دیا جا چکا ہے ۔ لیکن کچھ دیگر افریقی ممالک کی طرح قانون پر عملد رآمد نہیں ہو رہا ہے۔ عدالتوں میں 80 فیصد مجرموں کو بری کر دیا جاتا ہے ،2009ء میں عدالتوں میں کل 15مقدمات لائے گئے جن میں سے 5میں ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی ۔ ان میں سے بھی 3 کو پانچ پانچ سال کی سزادی گئی ۔ حال ہی میں کچھ سرکاری اہل کاروں کو تر بیت دینے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ پولیس اور غیر سرکاری تنظیموں کو ابتدائی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں اور کچھ محکموں نے حکومت کو امداد کی پیشکش بھی کی ہے ۔ اتھوپیا 2000ء پر وٹو کول کنونشن کا فریق نہیں ہے ۔
افریقہ ایک ایسا براعظم ہے جس کے باشندوں کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر نسلی امتیاز کا سلو ک کیا جاتا ہے ۔ ان کو رنگ اور نسل کی بنیا د پر بد تر امتیاز ی سلو ک کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔ اس مجموعی رویے سے افریقی باشندوں کی نفسیا ت پر گہرا اثر پڑ ا ہے جس سے وہ اپنے آپ کو ایک کم تر درجے کے انسان سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ مڈل ایسٹ میں افریقی بچوں او رکم سن لڑکیوں سے غیر قانونی اور غیر انسانی سلو ک کیا جاتا ہے ۔ لبنان میں کام کرنے والی افریقی عورتوں کی اکثریت کئی نفسیا تی بیماریوں میں مبتلا ہو چکی ہیں ۔ افریقی ممالک میں گھا نا ایک ایسا ملک ہے جو عورتوں اور بچوں کی بین الاقوامی سمگلنگ کے لیے راہداری کے طو ر پر استعمال ہو تا ہے اور یہا ں پر عورتوں سے جبری جسم فروشی اور بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے ۔ غیر ملکی تارکین کی سمگلنگ سے زیادہ گھمبیر مسئلہ بچوں سے ان کی رضامندی کے بغیر نا پسندیدہ افعال کی اد ا ئیگی ایک اہم ایشو بن چکا ہے جس میں بچوں کا استحصال کیا جاتا ہے ۔ بچوں کی سمگلنگ دو طر ح سے کی جاتی ہے ۔
اول یہ کہ بچوں کو دیہی علاقوں سے شہروں میں لایا جاتا ہے اور دوسرا یہ کہ ان کو ایک جگہ سے ہٹاکر دوسری جگہ پر کام میں لگا یا جاتا ہے جیسا کہ ماہی گیری سے ہٹا کر زراعت میں لگا دینا ہو تا ہے ۔ گھانا میں اندرون ملک لڑکیوں اور لڑکوں سے ماہی گیری ، گھریلوخدمات ، گلیوں میں پھیری لگانے کے کام ، بھیک مانگنے ، سامان ڈھونے اور زراعت کے شعبے میں جبری مشقت لی جاتی ہے اندرون ملک سمگلر ز پورے ملک سے بچوں کو سمگل کر نے میں آزاد ہیں۔ ہر سال گھانا سے سینکڑوں عورتیں روس کے قحبہ خانوں تک پہنچائی جاتی ہیں ۔ اسی طرح چین ، نائجیریا ، ایوری کوسٹ سے گھانا لائی گئی لڑکیوں اور عورتوں کا بھی جنسی استحصال کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر افریقی ممالک سے گھانا لائے جانے والوں کا استحصال کیا جاتاہے ۔ سمگلرز ایسے افراد کے ذمہ قرضے کا اضافی بوجھ تھوپ دیتے ہیں جو اتارنے میں ان کو کافی وقت لگتا ہے ۔ ان کو جنسی بد سلوکی اور جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ گھانا حکومت اس کی روک تھام کے لیے کامیاب اقدامات کرنے سے قاصر ہے۔ اپنے محدود ذرائع کے باوجود حال ہی میں حکومت کی طر ف سے چند ایک مو ثر اقدامات کیے گئے ہیں ۔ قانون کے نفاذ میں سنجیدگی کا مظاہر ہ کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت سمگلر ز کے خلاف مقدمات قائم کرنے اور ان کو عدالت کے کٹہرے تک لانے کے لیے کو ششیں کر رہی ہے۔ ریاستی اداروں نے سب سے پہلے لیک وولٹا کی ماہی گیری کی انڈسٹری پر ہاتھ ڈالا جہا ں جبری مشقت اور بچوں کے ساتھ نازیبا سلوک روا رکھا جا رہا ہے ۔ انٹر پول کی مدد سے مقامی پولیس کو تر بیت دینے کے لیے علاقائی سطح پر انگلو فون افریقہ کا تعاون بھی حاصل کیا گیا ۔ حکومت نے اس جرم کے واقعات پر موثر طریقے سے قابو پانے کے لیے چار مقامی یو نٹس بھی قائم کیے تاکہ انسانی سمگلنگ کے عمل کو ابتداء ہی سے روکا جا سکے ۔2009ء میں صدر نے ’’انسانی سمگلنگ کے انتظامی بورڈ ‘‘میں نئے ارکان کو تعینات کیا جن کو اس کی پیشر و حکومت نے ملازمت سے سبکدوش کر دیا تھا ۔ تاہم حکومت کی طر ف سے انسانی سمگلنگ کے شکار افراد کے تحفظ کے لیے کوششوں میں اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا اور نہ ان افراد کی بہبود کے لیے بین الاقوامی اداروں یا غیر سر کاری تنظیموں کے فنڈ ز میں اضافہ کیا گیا ۔ یاد رہے کہ یہ فنڈز پنا ہ گھروں کی تعمیر اور سمگلنگ کے شکار افراد کے علاج اور خوراک کے لیے استعمال ہو تے ہیں ۔ گھانا میں 2009ء میں نئی حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد انسداد انسانی سمگلنگ کی کو ششوں میں اضافہ ہو اور قانون کو بھی حرکت میں لایا گیا ۔ یاد رہے کہ ریاستی قانون ’’انسانی سمگلنگ ایکیٹ2005ء ‘‘ کے تحت اس کی تمام صورتوں کو جرم قرار دیا گیا لیکن سمگلنگ کی تمام اقسام کی سزا 5سال قید مقر ر کی گئی جو کہ نا کا فی ہے ۔گھاناحکومت نے انسانی سمگلنگ کی تعریف کو بدل کر پرو ٹوکول کنونشن 2000ء کے مطابق کرتے ہوئے اس کی زبان اور مفہوم میں تبدیلی کی ۔ 2009ء میں گھا نا پولیس نے ایک الگ یونٹ قائم کیا اور تین درجن کے قریب مقدمات کی تفتیش شروع کردی ۔ ان مقدمات میں کچھ مجرموں کو سزا بھی دی گئی ۔ ان میں آدھی درجن چینی باشندے بھی شامل تھے جو چینی عورتوں کو جسم فروشی کے لیے یہا ں سمگل کر کے لائے تھے ۔حکومت کی طرف سے سمگلنگ کے شکار افرا دکیلئے بھی خاطر خواہ انتظاما ت کیے گئے اور سمگلر ز اور سمگلنگ کے شکار افراد کے درمیان شناخت کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے عملے کو تربیت دینے کے لیے فنڈ ز مختص کیے گئے ۔ عدالتوں کو باا ختیا ر بنایا گیا تاکہ مقامی سطح پر پائی جانے والی غلامی اور استحصال کی حوصلہ شکنی کی جاسکے ۔ یاد رہے کہ گھانا میں کم عمر بچوں کو جن کی عمر یں 6سے 10برس کی ہوتی ہیں غلام بنانے کا جرم بھی عام ہو چکا ہے ، وولٹا لیک میں ایسے ہی دو بچوں کو غیر قانونی طو ر پر اپنے پاس رکھنے کے جرم میں ایک عورت کو سز ا سنا ئی گئی ۔ اس طرح گھانا سے عورتوں کو روس سمگل کرنے والے ایک نیٹ ورک کو بھی پولیس نے ختم کیا جو سینکڑو ں عورتوں کو روس سمگل کر چکا تھا ۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ گھانا نے قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر انسانی سمگلنگ پر قابو پانے کی کو ششوں کو تیز کر دیا ہے ۔ گھانا پر و ٹوکول کنونشن 2000ء کا رکن نہیں ہے ۔ اس کے با وجود وہ کئی قحبہ خانوں اورفحاشی کے مراکز کو ختم کر چکا ہے ۔ افریقہ سے باہر جانے والوں کی دل ہلادینے والی داستانوں کے علاوہ اس کے اندر سمگل ہونے والوں کی کہانیا ں زیادہ اندوہ ناک اور حیران کن ہیں ۔ ذیل میں ایک ایسے ملک میں انسانی سمگلنگ کی صورتحال اور انسانوں کے استحصال کا احوال بیان کیا گیا ہے جہاں عورتوں کو یورپ یا دیگر ممالک جانے کیلئے کئی سال تک جبری مشقت کرنا پڑ تی ہے اور آخر میں ا ن کوپولیس یا ایمیگریشن کا عملہ پکڑکر ان کو واپس اپنے آبا ئی مما لک بھیج دیتا ہے ۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں بین الا قوامی جرائم پیشہ گروہ قانون کے خوف سے بے نیاز انسانوں کی تجارت کرتے ہیں اور ان کو رسواکن صورتحال سے دوچار کرتے ہیں۔ اس ملک کا نام ہے جنوبی افریقہ جو براعظم افریقہ میں ایک قدرے خوشحال اور امیر ملک تصور کیا جاتا ہے ۔ جنوبی افریقہ مردوں ، عورتوں ،اور بچوں کی سمگلنگ کے لیے ایک ذریعہ یا راہداری ہی نہیں بلکہ سمگل شدہ افراد کی منزل بھی ہے۔ جنوبی افریقہ میں مقامی لڑکیوں کو ملک کے اند ر پیسے کمانے کی غر ض سے جسم فروشی اور گھریلوخدمات کے لیے سمگل کیا جاتا ہے جبکہ لڑکو ں کو بھکاری بنا نے ، پھیری لگانے اور ہوٹلوں سے امیر لوگوں کے لیے کھانا لانے کے کام پر جبراًلگایا جاتا ہے ۔صحت مند لڑکو ں کی ایک بڑی تعداد کو کھیتوں میں اجرت کے بغیر کام کرنے پر مجبو ر کیا جاتا ہے ۔ ایسی رپورٹس بھی منظر عام پر آچکی ہیں جن سے ظاہر ہو تا ہے کہ مذکورہ با لا لڑ کو ں کو جاگیر داروں اور بڑے زمینداروں کی زمینوں پر اپنے خاندانوں کی زمین پر قابض رہنے اور رہائش اور مزارع بننے کے حقو ق کو یقینی بنا نے کے عو ض ایک طویل عرصے تک کام کرنا پڑتا ہے ۔ جنوبی افریقہ کے شہری علاقوں میں بچوں کا جنسی استحصال بھی عام ہو چکا ہے ۔ دیگر افریقی ممالک سے عورتوں اور لڑکیوں کو جنوبی افریقہ لا یا جاتا ہے ۔ اس بین الا ممالک انسانی سمگلنگ میں متعدد افراد مارے جا چکے ہیں ۔ جنوبی افریقہ لائی جانی والی لڑکیوں اور عورتوں کا ہر لحاظ سے استحصال کیا جاتا ہے ۔خصو صاًتنزانیہ اور چاڈ کے باشندوں کو غیر انسانی اور غیراخلاقی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ان سے نقد ی اور لباس وغیرہ چھین لیے جاتے ہیں اور صرف کھانے اور پانی پینے کے عوض ان کو کئی گھنٹوں تک سخت مشقت کرنا پڑتی ہے ۔ بیمار ہونے کی صورت میں ان پر دیسی ٹوٹکے آز مائے جاتے ہیں جو جنگلی جڑی بوٹیوں اور تعویز گنڈوں پر مشتمل ہوتے ہیں ۔بیماری کی تشخیص کسی ماہر معالج سے نہیں کرائی جاتی ۔(جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 38 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں