حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... قسط 7

May 18, 2018 | 01:01 PM

زید حامد

یہ درست ہے کہ رومی اور فارسی سلطنتوں میں طوائف الملوکی تھی، مگراس کے باوجود بھی وہ بڑی زبردست فوجی قوتیں تھیں۔لہذا صرف عسکری نقطہء نظر سے یہ وضاحت نہیں کی جاسکتی کہ کیوں مسلمان ہر جنگ میں ان کو اس بری طرح شکست دیتے رہے۔ حالانکہ وسائل اور عددی اعتبار سے بھی مسلم افواج دشمنو ں سے کئی گنا کم ہوتیں۔اس کا جواب عسکری پہلو میں نہیں،سیدنا خالد بن ولیدؓ کی روحانی قیادت میں ہے۔جو کچھ بھی ان جنگوں میں ہورہا تھا اس کو کسی جنگی قائدے کے تحت نہیں سمجھا جاسکتا، جب تک کہ اس روحانی پہلو کو نہ سمجھا جائے کہ جو ’’سیف اللہ‘‘ کو حاصل تھا۔

حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... قسط 6 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مسلمانوں کو نفسیاتی فائدہ بھی حاصل تھا، کیونکہ شروع میں احساس برتری اور تکبر سے سرشار فارسی فوج نے مسلمانوں کو کچھ سمجھا ہی نہیں۔ وہ سمجھے کہ روپے، پیسے، مال و دولت کے چکر میں کچھ لٹیرے آگئے ہیں کہ جو ہمارے ملک میں لوٹ مار کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں تو ہم اپنے چھوٹے چھوٹے کمانڈروں کے ذریعے ہی ٹھکانے لگا دیں گے۔ اس احساس برتری کے زعم میں مبتلا فارسی منصوبہ ساز مسلمانوں کی اس حربی طاقت کو سمجھ ہی نہ سکے کہ جس کی بنیاد اسلام کی اخلاقی وروحانی اساس پر تھی۔
ان تمام حالات میں شام کی حیثیت غیر معمولی تھی ۔ اس زمانے میں ملک شام میں موجودہ اردن، لبنان اور فلسطین بھی شامل تھے۔ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش بیت المقدس (یروشلم) میں ہوئی ،لہذا تمام عیسائی دنیا کے لیے بیت المقدس کی وہی حیثیت ہے کہ جو مسلمانوں کے لیے مکہ و مدینہ کی ۔ جب حضرت عیسیٰؑ کا ظہور ہوا تو اس وقت اس تمام علاقے پر رومی حکمرانی کررہے تھے۔ 
حضرت عیسیٰؑ کے تین سو سال بعد رومی سلطنت نے بھی عیسائیت قبول کرلی۔آج بھی استنبول میں ’’آیا صوفیہ‘‘ کا ایک نوسو سال پرانا کلیسا ہے کہ جو آج بھی اس بازنطینی سلطنت کی نشانی کے طور پر موجود ہے۔ آنے والی صدیوں میں تمام صلیبی جنگوں کا مرکز بھی قسطنطنیہ ہوا کرتا تھا کہ جو بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔یہ صلیبی ایشیا کوچک اور ترکی کے راستے آیا کرتے اور شام، مصر اور بیت المقدس پر حملہ آور ہوتے ۔جب حضرت خالد بن ولیدؓ نے عراق میں اپنی عسکری مہم جوئی شروع کی اور اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انہیں شام جانے کا حکم دیا، تو اس وقت شام، رومی بازنطینی سلطنت کا ایک بہت بڑا صوبہ تھا۔ بنیادی طور پر وہاں جتنے بھی بازنطینی کمانڈر تھے، وہ یورپ سے آیا کرتے تھے ۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کی یہ شام کی مہم رومیوں کے ساتھ مسلمانوں کا پہلا بڑا تصادم تھا۔ اس تصادم میں شام میں موجود وہ تمام رومی فوج شریک تھی کہ جس کی قیادت قسطنطنیہ کا حکمران ’’ہر قل‘‘ یعنی ہر کولیس خود کررہا تھا۔بازنطینی سلطنت کے صوبے آرمینیا سے یورپ تک پھیلے ہوئے تھے۔ اس رومی فوج میں آرمینی، سلاو، انگریز، فرانسیسی اور جرمن دستے اپنے اپنے کمانڈروں کے ہمراہ شامل تھے۔ 
جب خلیفہ اوّل حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے اپنی فوج کے ہر اوّل دستے کو شام کی طرف بھیجا، اس وقت شام کی ساری آبادی عیسائی تھی کہ جس میں عرب عیسائیوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی۔اس کے علاوہ پارسی(مجوسی)بھی بہت بڑی تعداد میں آباد تھے۔اس ساری صورتحال میں جنگی مہم کیلئے سیدنا خالد بن ولیدؓ کو وہاں بھیجا گیا۔شام میں پہلے سے موجود دستوں میں سے ایک کی قیادت جلیل القدر صحابی امین الامت ،حضرت سیدنا ابو عبیدہ بن الجراحؓ کررہے تھے کہ جو عشرہ مبشرہ میں سے بھی ہیں۔ مختلف جانب سے مسلمانوں کے کئی دستے کہ جو مختلف علاقوں میں موجود تھے ،ملک شام پہنچ رہے تھے۔ ان کے مقابلے پر ہرقل نے ایک بڑی فوج اکٹھی کرنا شروع کردی۔ چنانچہ خطرہ پیدا ہوا کہ چونکہ مسلمانوں کے دستے آس پاس کے علاقوں میں بکھرے ہوئے ہیں ،اس لیے وہ رومی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان مسلمان دستوں کو اکٹھا ہی نہ ہونے دیا جائے اور ایک ایک دستے کو اپنی اپنی جگہ پرحملہ کرکے تباہ کردیا جائے۔ہرقل کی حکمت عملی بھی یہی تھی کہ وہ بھاری لشکر کے ہمراہ ان مسلمان دستوں کو ملانے والے راستوں کو منقطع کردے۔وہ مسلمان لشکروں کو تقسیم کرکے ختم کرنا چاہتا تھا۔ جب یہ اطلاع سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ تک پہنچی تو آپؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو حکم دیا کہ وہ فوراً شام پہنچیں اور وہاں کے لشکروں کی قیادت سنبھالیں۔ پھر حضرت خالدبن ولیدؓ ریگستان سے ہوتے ہوئے شام میں داخل ہوگئے۔ رومی فوج کو یہ توقع ہی نہ تھی کہ مسلمان لشکر اس راستے سے بھی آسکتا ہے ۔
شام پہنچ کر سیدنا خالد بن ولیدؒ نے سب سے پہلے ابو عبیدہ بن الجراحؓ سے رابطہ قائم کیا اور پھر دونوں افواج آپس میں مل گئیں۔ آپس میں بیٹھ کر صلاح مشورہ کرکے جنگی حکمت عملی تیار کی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ تمام مسلمان فوجیں فی الفور اکٹھی ہوں، تاکہ اکیلے اکیلے دشمن کے نرغے میں آنے کی بجائے ایک بڑا لشکر تشکیل دیا جاسکے کہ جو براہ راست رومی سلطنت کے قلب ،یعنی دمشق پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے۔ دمشق پر قبضہ کرنے کی صورت میں شام پر قبضہ کرنا بہت آسان ہوجاتا۔شام کے بڑے بڑے شہروں یعنی دمشق، انطاکیہ، بیت المقدس اور سمندر کے ساتھ ساتھ لبنان میں بیروت کے آس پاس کے علاقوں میں بڑے بڑے قلعے اور شہرآباد تھے۔
شام بازنطینی سلطنت کا سب سے خوبصورت صوبہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ بہت شدت سے اس کا دفاع کررہے تھے۔چنانچہ پہلے مسلمانوں کی رومیوں سے چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہوئیں اور چند ایک چھوٹے قلعوں پر قبضہ کیا گیا۔ اس کے بعد مسلمانوں نے براہ راست دمشق کا محاصرہ کرلیا۔دمشق کا محاصرہ جاری تھا کہ مسلمانوں کو خبر ملی کہ رومی بادشاہ ہر قل نے اپنی فوجوں کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو پشت سے گھیرنا چاہتا ہے اور اجنا دین کے مقام پر رومی فوجوں کو جمع کیا جارہا ہے۔ 
مسلمانوں نے جب یہ دیکھا کہ دمشق کا محاصرہ طویل ہوتا جارہا ہے، تو خالد بن ولیدؓ نے اپنی فوجوں کو لیا اور حضرت ابو عبیدہؓ کیساتھ اجنا دین کی جانب بڑھنا شروع کیا، کہ جہاں پر مسلمانوں کی رومیوں کے ساتھ ایک بہت بڑی اور فیصلہ کن جنگ ہونے والی تھی۔ لیکن اس سے پہلے ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا۔
مسلمانوں کا کیمپ اور لشکر جب دمشق کے محاصرے کو چھوڑ کر واپس پلٹا تو اس کے آخر میں مسلمان عورتوں کے کیمپ پیچھے رہ گئے۔ سیدنا خالد بن ولیدؓ تھوڑا جب تھوڑا آگے نکل گئے، تو رومی قلعے سے باہر نکل کر اس کیمپ پر حملہ آور ہوئے کہ جس میں مسلمان عورتیں تھیں۔ان حملہ آوروں کی تعداد تقریباً چھ ہزار تھی۔رومیوں نے مسلمان عورتوں کے خیموں کو گھیر لیا ۔ان میں حضرت خولہؓ بھی تھیں کہ جو مشہور صحابی حضرت ضرارؓ کی بہن تھیں۔انہوں نے تمام مسلمان خواتین کو ہمت دلائی اور وہ خیموں کے ڈ نڈے اور چوبیں نکال کر رومیوں سے مقابلے کے لیے تیار ہوگئیں۔ رومیوں کا خیال تھا کہ وہ مسلمان عورتوں کو زندہ گرفتار کرکے دمشق کے قلعے میں لے جائیں گے ۔خالدؓ بن ولید کو جب یہ اطلاع ملی تو وہ فوراً پلٹے اور صرف مٹھی بھر مجاہدین کو ساتھ لیکر غیض و غضب کے عالم میں قیامت بن کر کفار پر ٹوٹے۔کفار کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ انہوں نے کس کو چھیڑ دیا ہے۔ایک طرف تو خالدؓ تھے کہ جن کا جلال اپنی انتہا کو چھو رہا تھا کہ رومیوں نے مسلمانوں کی عزت پر حملہ کیا تھا اور دوسری طرف حضرت ضرار بن الازورؓ کا جلال کہ جن کی جان سے پیاری بہن رومیوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی تھیں۔رومیوں کو اندازہ بھی نہ ہواکہ کہاں اور کس طرح سے ان پرقیامت ٹوٹ پڑی۔ حضرت خالدؓ بن ولید اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ بجلی بن کر ان پر گرے ۔ چھ ہزار رومیوں میں سے صرف چند سو ہی بمشکل اپنی جانیں بچا کر واپس قلعے تک پہنچ سکے۔ باقی پوری فوج اسی میدان میں کاٹ دی گئی۔
جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ سیدنا خالد بن ولیدؓ دشمن پر ہلکا ہاتھ رکھنے کے قائل ہی نہ تھے ۔وہ جب تلوار نکالتے تو جب تک ہزار دو ہزار کی گردنیں نہ اتار لیتے،ان کو سکون ہی نہیں ملتا تھا۔خالد بن ولیدؓ کے وہ سارے کارنامے کہ جو یہ عراق میں فارسیوں کے خلاف انجام دے چکے تھے، ان کے شام پہنچنے سے پہلے ہی رومی فوج کے ایک ایک سپاہی سے لیکر سپہ سالار تک پہنچ چکے تھے، اور خالدؓ کا نام سن کر ہی دشمن پر سراسمیگی طاری ہوجاتی تھی۔
اجنا دین کی لڑائی وہ پہلی بڑی جنگ تھی کہ جو مسلمانوں اور رومیوں کے مابین ہوئی۔ یہاں پر عددی تناسب دیکھا جائے تو ایک لاکھ رومی تھے۔ رومیوں نے بھی صرف اپنے ہر اوّل دستے ہی بھیجے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ چالیس ہزار مسلمانوں کیلئے رومیوں کایہ ہر اوّل دستہ ہی کافی ہوگا۔رومیوں کا ابھی تک مسلمانوں سے کوئی ایسا واسطہ نہیں پڑا تھا کہ وہ باقاعدہ جنگ میں مسلمانوں کی جنگی حکمت عملی دیکھ سکتے۔ حضرت خالدؓ کا انہوں نے نام ضرور سنا تھا، لیکن خالدؓ کو میدان جنگ میں لڑتے نہیں دیکھا تھا۔رومیوں کی کئی صدیوں کی حربی تاریخ کی جنگی حکمت عملیاں، حضرت خالدؓ کے خلاف معرکوں میں ٹوٹتی اور بکھرتی جارہی تھیں۔مسلمان فوج کے پاس کوئی خاص ہتھیار نہیں تھے، جبکہ رومیوں کے پاس منجنیقیں اور گھڑ سوار دستے تھے، اور وہ خود بھی سر سے پاؤں تک زرہ بکتر میں غرق تھے۔ مسلمانوں کے پاس ہلکی تلواریں اور نیزے اور ہلکا گھڑ سوار دستہ تھا۔ لیکن جب جنگ اجنا دین اختتام پذیر ہوئی تو نتائج انتہائی غیر معمولی اور ناقابل یقین تھے۔ ستر ہزار رومی قتل ہوئے جبکہ صرف ساڑھے چار سو مسلمان شہید ہوئے۔ان نتائج کو سمجھنے سے انسانی ذہن قاصر ہے۔
دنیا کی تمام جنگی تاریخ میں آپکو ایسے نتائج کہیں نہیں ملیں گے۔یہ کون سی طاقتیں تھیں کہ جو وہاں کام کررہی تھیں؟ کہا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔یہاں سوال یہ ہے کہ کیا رومی اور فارسی سلطنتوں نے چوڑیاں پہنی ہوئی تھیں ؟رومیوں کو عددی برتری بھی حاصل تھی ،اسلحہ کے زور پر وہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کردینے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔مگر اس کے باوجود وہ مسلمانوں کی چھوٹی سی جماعت کے سامنے ٹک نہ پائے۔ جب تک اس معاملے کے ایمانی و روحانی پہلو کو نہ سمجھا جائے ان باتوں کو آپ نہیں سمجھ سکتے۔ جب تک آپ مسلمانوں کی ان روحانی طاقتوں کو نہیں سمجھیں گے کہ جو ان فوجوں کیساتھ تھیں، آپ کبھی بھی اس امرکا اندازہ نہیں کرسکتے کہ اس قسم کی جنگ کے بعد یہ نتیجہ کیسے نکل سکتا ہے۔
قرآن پاک میں جنگ بدر میں حضورﷺ کی ایک مشت خاک پھینکنے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ ترجمہ:’’۔۔۔ جب آپ نے (ان پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ اللہ نے مارے تھے۔۔۔‘‘(الانفال آیت نمبر۱۷)اور پھر ملائکہ کے نزول کا واقعہ کہ جب وہ حضرت جبرائیلؑ کی سرکردگی میں صف در صف نازل ہوئے اور مسلمان لشکر میں شامل ہوکر مشرکین کے خلاف لڑے ۔جنگ بدرمیں بھی ۱۴ مسلمان شہید ہوئے اور۷۰ کفار مارے گئے۔ اور پھر وہی بات کہ مسلمان دشمن کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی کم تعداد میں تھے اور ان کے پاس کوئی قابل ذکر اسلحہ بھی نہ تھا، پھر بھی انہوں نے دشمن کو ایک فیصلہ کن شکست سے دوچار کیا ۔تاریخ اسلام میں شاید ہی کوئی ایسی جنگ لڑی گئی ہو کہ جس میں مسلمان عددی طور پر دشمن سے زیادہ ہوں ۔یہ ایک حیران کن معجزہ ہے۔
(جاری ہے ، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں )

مزیدخبریں