حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... قسط نمبر 8
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت خالدؓ جیسا بہترین گھڑ سوار سالار دنیا کی تاریخ میں پیدا نہیں ہوا ۔وہ جس طرح گھڑ سوار دستے کو جنگ میں استعمال کرتے تھے،اس سے پہلے کبھی انکا ایسا استعما ل نہیں کیا گیا۔وہ دشمن کے گھڑ سوار دستوں کو الجھائے رکھتے۔عموماً دشمن کے پاس بھاری گھڑ سوار دستے ہوئے، جبکہ مسلمانوں کے پاس ہلکا گھڑ سوار دستہ (Light Cavalry) ہوتا تھا۔ وہ دشمن کے گھڑ سوار دستوں کو الجھا کر اپنے گھڑ سوار دستے کا ایک حصہ اس لڑائی سے نکال کر دشمن کے پیادہ دستے پر کاری ضرب لگاتے ہوئے اسے پیچھے دھکیل دیتے۔ پھر دوبارہ یہاں سے پیچھے ہٹ کرایک مرتبہ پھر دشمن کے گھڑ سوار دستوں کے خلاف حملہ آور ہوتے ۔
حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... قسط 7 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
جس طریقے سے خالدؓ گھڑ سوار دستے کے ذریعے مخالف فوج پر پہلو کی جانب سے حملہ آور ہوتے اور جھپٹتے پلٹتے، یہ اس وقت کی حربی حکمت عملی میں ایک نیا اضافہ تھا۔یہ ایک ایسی جنگی و حربی چال تھی کہ جو دنیا نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔حضرت خالدؓ کی وضع کردہ اس جنگی تکنیک کو جدید دور میں جرمن افواج نے بھی جنگ عظیم دوم میں افریقہ کے محاذ پر نہایت کامیابی کے سا تھ استعمال کیا تھا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت خالدؓ دنیا کے عظیم ترین سپہ سالار تھے، مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ حضرت خالدؓ خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ان کی کامیابیوں کا راز اس نور اور فیض میں ہے کہ جو ان کو حضورﷺ کی طرف سے نصیب ہوا ہے۔ وہ ایمان کی حد تک حضورﷺ کے بال مبارک اپنے وجود سے لگا کر رکھتے تھے اور پھر سیدی رسول اللہﷺ کی طرف سے ان کو ’’سیف اللہ‘‘ کا لقب بذات خود اس بات کی ضمانت تھا کہ اب دنیا کی کوئی طاقت ’’اللہ کی تلوار‘‘ کو شکست نہیں دے سکتی۔ کوئی تو وجہ ہے کہ عراق و شام کی فتح کا کام خالدؓ سے لیا گیا۔
اجنا دین کی جنگ کے بعد مسلمان اب اس قابل ہوگئے تھے کہ پورے شام کے مختلف علاقوں میں پھیلیں اور براہ راست دشمن کے مقابلے پر آئیں۔ اجنا دین کی شکست رومیوں کے لیے ایک بہت بڑی شکست تھی۔لیکن اب بھی بڑے بڑے شہر یعنی دمشق،بیت المقدس وغیرہ ان کے پاس تھے اور وہاں بھی ان کی بڑی بڑی چھاؤنیاں موجود تھیں۔ لیکن خالدؓ کے ہاتھوں اپنی فوجوں کے قتل عام سے ان کی آنکھیں کھل گئیں۔انہوں نے پہلی مرتبہ اس شکست کو انتہائی سنجیدگی سے لیا۔انہوں نے اپنی پوری سلطنت سے فوجیں بلانی شروع کیں۔ آرمینیا کا بادشاہ ’’باہان‘‘(Baanes) خود اپنی فوج لے کر پہنچا، پورے یورپ اور یوگو سلاویہ سے فوجیں آئیں اور خود ہرقل یعنی ہر کولیس اپنے لشکر جرار کیساتھ وہاں موجود تھا۔اب انہوں نے مل کر ایک اور بڑی جنگ کی بھرپور تیاریاں شروع کردیں۔ مسلمانوں کو اندازہ تو تھا کہ مزید خونریزجنگیں آنے والی ہیں، لیکن خود اکثر مسلمانوں کو بھی، کہ جومکہ و مدینہ سے یہاں آئے تھے، یہ اندازہ نہیں تھا کہ انکی شدت کتنی ہوگی۔
اگر ہم ان تمام مہمات کا ایک جامع تجزیہ کریں کہ جو اس زمانے میں مسلمانوں کو فارسی اور رومی سلطنتوں کے خلاف درپیش آئیں، مسلمان اور رومی بازنطینی افواج کی عسکری چالوں اور جنگی منصوبہ بندی پر نظر ڈالیں، تو ہم ان سب تجزیات میں ایک بہت اہم پہلو کوبھی موضوع بحث بنانا چاہیں گے کہ جس کی تاریخ شہادت دیتی ہے۔
جنگ اجنا دین میں جب پہلی دفعہ رومیوں کا واسطہ سیدنا خالد بن ولیدؓ سے پڑا، تورومیوں کا ایک پادری سیدنا خالد بن ولیدؓ کے پاس آیا اور سیدنا خالدؓ سے پوچھا کہ کیا تم ان کے سپہ سالار ہو؟ خالدؓ نے فرمایا کہ میں اس وقت تک ان کا سپہ سالار ہوں کہ جب تک میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتا رہوں گا اور جب میں حکم عدولی کرونگا ،پھریہ نہ میری عزت کریں گے اور نہ ہی میں ان کا سپہ سالار رہوں گا۔یہ سن کرپادری کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ یہی وجہ ہے کہ تم لوگ ہمیں شکست پر شکست دیتے جارہے ہو۔
اسی طرح ایک مرتبہ خالدؓ نے حضرت ضرارؓ کو بھیجا کہ وہ رومی لشکر کی جاسوسی کریں۔ضرارؓ ’’ ننگے بدن جنگجو‘‘ کے نام سے مشہور تھے، یعنی جب وہ دشمن کی صفوں پر حملہ کرتے، تو جوش ایمانی میں آکر کمر تک اپنی قمیض اتار دیا کرتے اور زرہ پھینک کر دشمن پر ٹوٹ پڑتے ،یعنی صرف تلوار اور نیزہ لیکر جنگ کرتے اور اپنے اس خاص حلیے کی وجہ سے دور سے پہنچانے جاتے کہ یہ ضرار بن الازورؓ ہیں۔وہ فطرتاً ایک دلیر اور جانباز جنگجو تھے۔
جب ضرارؓ کو جاسوسی کے لیے بھیجا گیا تو وہ رومی لشکر کے اتنے قریب چلے گئے کہ بالکل رومیوں کے سامنے کھڑے ہو کر انکا جائزہ لینا شروع کردیا ۔رومیوں نے ان کے مقابلے پر ۳۰ مضبوط سپاہی روانہ کیے کہ ان کو گرفتار کرکے لاؤ ۔ضرارؓ پہلے تو اپنے گھوڑے کو آہستہ آہستہ دُلکی چال دوڑاتے رہے ۔جب رومی اپنے کیمپ سے دور آگئے، تو پھر ضرارؓ نے پلٹ کر ان پر حملہ کردیا۔ آناً فاناً ۳۰ میں سے۱۹ کو ضرارؓ نے موقع پر ہی مار گرایا ،جبکہ باقی دہشت زدہ ہو کربھاگ کھڑے ہوئے۔ اب صحیح معنوں میں رومی لشکر پر مسلمانوں کی دہشت طاری ہوچکی تھی اور رومی لشکر میں بھی یہ افواہیں زور پکڑنے لگیں تھیں کہ کوئی غیر مرئی طاقتیں اور روحانی قوتیں مسلمانوں کیساتھ ہیں۔
رومی جرنیل نے بھی اپنا ایک جاسوس خالدؓ کے لشکر میں بھیجا۔وہ شخص مسلمانوں کیساتھ آسانی سے گھل مل گیا کیونکہ وہ ایک عرب عیسائی تھا۔اس نے مسلمانوں کے لشکر میں آکر ایک رات گز اری اور واپس جا کر اپنے بادشاہ کو بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ رات میں ان کو دیکھو تو لگتا ہے کہ راہب ہیں۔ساری رات عبادت، نماز،زہد، قرآن ،ذکر و اذکار میں گزار دیتے ہیں کہ جیسے دنیا سے ان کا کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں ۔اور دن میں دیکھو تو ایسے شہسوار ہیں کہ لگتا ہے شہ سواری کے سوا ان کا کوئی اور کام ہی نہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ان کے بادشاہ کا بیٹا بھی چوری کرے تو وہ اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیں اور اگر بادشاہ وقت خود کوئی گمراہی یا بدکاری کرے تو اس کو بھی سنگسار کردیں! یہ مسلمان فوج کے کردار کے حوالے سے اتنی بڑی گواہی تھی کہ جو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ثبت کر دی گئی۔(جاری ہے )
حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... قسط نمبر 9 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں