حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... قسط نمبر 9
جب تک مسلمان جرنیل، دفاعی، عسکری اور فوجی علوم و فنون کے ماہر، اس ایمانی و روحانی پہلو کو بروئے کار نہیں لائیں گے، کہ جس کو ماضی میں تاریخ اسلام کا ہر مسلمان جرنیل، سپہ سالار اور غازی بروئے کار لایا،کہ جس نے نئی تاریخ مرتب کی ، ہم وہ فتوحات حاصل نہیں کرسکتے کہ جو قرون اولیٰ میں ان مجاہدین کو حاصل ہوئیں۔ ان کی غیر معمولی فتوحات میں سب سے اہم یہی روحانی پہلو تھا۔ یہ عسکری زاوئیے سے نظر نہ آنے والا روحانی و اخلاقی پہلو ہی مسلمانوں کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرتا رہاہے اور آئندہ بھی کرے گا۔
جنگ اجنادین میں ایک اور غیر معمولی واقعہ ہوا کہ جس کا تذکرہ کرنا ضروری ہے ۔
حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... قسط نمبر 8 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وردان بور کہ جورومیوں کا ایک کمانڈر تھا ،اس نے منصوبہ بنایا کہ ہم دھوکے سے سیدنا خالد بن ولیدؓ کو شہید کردیتے ہیں اور اس مقصد کیلئے ایک خاص مقام پر اس نے اپنے دس شہسوار چھپا دیئے اور ایک آدمی قاصد کے طور پر خالدؓ کے پاس بھیجاکہ جو آپؓ سے یہ کہے گا کہ صبح وردان آپؓ سے ملنا چاہتا ہے، یعنی رومی سپہ سالار میدان جنگ کے عین بیچ میں حضرت خالدؓ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ جب خالد بن ولیدؓملاقات کے لیے میدان جنگ میں آئیں گے ،تو وہاں وردان خود ان کو پکڑے گا اور چھپے ہوئے دس سوار نکل کر حضرت خالدؓ کو شہید کردیں گے ۔
لہذاجب وہ عیسائی سیدنا خالدؓ کے سامنے پہنچا تو اس نے خرافات بکنی شروع کردیں کہ رومی سالار آپ سے معاہدہ امن کرنا چاہتا ہے۔ یہ نام نہاد اعتماد سازی کے اقدامات(Confidence Building Measures) کہ جن کے نام ہم آجکل بھی سنتے رہتے ہیں، یہ سب کمزوری کی علامتیں ہیں۔ دشمن کی فطرت مسلمانوں کے خلاف کبھی نہیں بدلے گی۔ یہ اعتماد سازی کے اقدامات محض دھوکہ اور فریب کا جال بچھا کر نقصان پہنچانے کی سازش ہی ہے۔ جنگِ اجنا دین میں بھی ایسی ہی سازش کارفرما تھی۔ آج بھی پاک ،ہندوستان تعلقات میں یہی سازش کارفرما ہے۔
بہرکیف خالدؓ سیف اللہ تھے، انہیں روحانی تائید و مددحاصل تھی۔ بظاہرکوئی وجہ نظر نہیں آتی تھی کہ قاصد کی بات پر اعتبار نہ کیا جائے، لیکن اللہ کی طرف سے اشارہ ہوا اور یہ اللہ کا مجاہد جلال میں آگیا۔ خالدؓ نے اسے گھور کر دیکھا اور صرف اتنا پوچھا کہ کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟ تو خوف کے مارے اس قاصد کے اوسان خطا ہوگئے اور اس نے اپنی جان کی امان لے کر سارے راز بتا دیئے۔ خالدؓ پر جب یہ عقدہ کھلاکہ وردان کا کھیل کیا ہے، تو پہلے آپؓ جلال میں آکر خود تلوار لے کر ان چھپے ہوئے دس رومیوں کو موت کے گھاٹ اتار نے پر تیار ہوگئے، مگر حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے صلاح دی کہ خودجانے کے بجائے ضرارؓ کو بھیج دیں اور ضرارؓ وہاں جا کر ان رومیوں کو قتل کردیں گے یا ان کو زندہ گرفتار کریں گے اور پھر اگلے دن کی ترتیب ویسے ہی رکھی جائے کہ جیسے پہلے سے طے شدہ تھی، تاکہ رومیوں کو شک نہ گزرے۔ لہذا اگلے دن جب حضرت خالد بن ولیدؓ رومی سپاہ سالار وردان سے ملاقات کے لیے میدان کے عین درمیان میں پہنچ گئے، تو اس سے پہلے ہی رات کو حضرت ضرارؓ دس ساتھیوں کیساتھ جاکے ان دس رومیوں کو قتل کرچکے تھے اور ان کے جنگی لباس اور زرہ بکتر پہن کر خود وہاں چھپے ہوئے تھے۔ جب وردان نے وہی شرارت کی کہ جس کا منصوبہ اس نے بنا رکھا تھااور خالدؓ کو پکڑنے کے بعد اپنے ساتھیوں کو آوازدی ،تو خالدؓ سکون سے اپنی جگہ کھڑے رہے اور حضرت ضرارؓ دس ساتھیوں کیساتھ وردان کو گھیر کر کھڑے ہوگئے۔ جب وردان نے یہ دیکھا کہ کھیل الٹ گیا ہے تو اس نے خالدؓ سے صرف یہ التجا کی کہ مجھے اپنے ہاتھ سے قتل کیجیے گا، ضرارؓ کے حوالے نہ کریں۔ خالدؓ اتنے جلال میں تھے کہ انہوں نے ضرارؓ کو صرف اشارہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ضرارؓ نے وردان کا سر تن سے جدا کردیا ۔
اجنا دین میں فتح حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کا رخ واپس دمشق کی جانب ہوگیا ۔دمشق میں مسلمان فوج کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ایک طرف سیدنا خالدؓ اور دوسری جانب سیدنا ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے کمان سنبھال لی۔ دمشق کے لوگوں کو یقین تھا کہ دمشق کا مضبوط قلعہ ان کی حفاظت کرے گا اور وہ کسی بھی قیمت پر صلح پر راضی نہیں تھے۔ جو مار رومیوں کو اجنا دین یا باقی چھوٹی چھوٹی لڑائیوں میں پڑچکی تھی، وہ اس سے نہایت خوفزدہ تھے، لہذا باہر نکل کر جنگ بھی نہیں کرنا چاہتے تھے ۔یہ رومی پہلے ہی حضرت خالدؓ کے ہاتھوں اپنے چھ ہزار جوانوں کا خون کرواچکے تھے۔ اب اس کیفیت میں حضرت خالد بن ولیدؓ کو محاصرہ نہایت طویل لگنے لگا تو آپؓ نے چھاپہ مار کارروائی(Commando Action) کے ذریعے قلعے کی دیوار پھلانگ کردروازے کھولنے کا فیصلہ کرلیا۔اور پھر یہی ہوا۔
شہر کے ایک جانب سے حضرت خالدؓ اپنی فوجوں کو لیکر جنگ کرتے ہوئے داخل ہوگئے۔جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ حضرت خالدؓ شہر میں داخل ہوگئے ہیں اور شکست یقینی ہے، تو شہر کی قیادت اس دروازے کی طرف دوڑی کہ جہاں حضرت ابوعبیدہؓ کی فوجیں موجود تھیں اور دروازہ کھول کر حضرت ابوعبیدہؓ کو امن و عافیت کے ساتھ شہر میں داخل ہونے اور اپنے ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کرتے ہوئے صلح کی شرائط طے کرلیں۔حضرت ابو عبیدہؓ نے ان کو امان دے دی۔ لیکن دوسری جانب حضرت خالدبن ولیدؓ کو اس امان نامے اور صلح کی اطلاع نہیں ہوئی تھی اور وہ ابھی تک لڑائی میں مصروف تھے۔ یہاں ایک عجیب و غریب منظر دیکھنے کو ملا کہ جب دونوں مسلمان فوجیں دمشق کے عین بیچ میں آپس میں ملتی ہیں، ایک امن سے داخل ہورہی ہے اور دوسری طرف خالدؓ کی تلوار سے خون ٹپک رہا ہوتا ہے۔خالدؓ کا استدلال یہ تھا کہ میں نے شہر تلوار کے زور پر فتح کیا ہے، جبکہ حضرت ابو عبیدہؓ اس بات پر مصر تھے کہ یہ شہر ایک صلح کے نتیجے میں قبضے میں آیا ہے۔بالآخر حضرت خالدؓ نے ابو عبیدہؓ کی دلیل کو تسلیم کرلیا اور تمام امن کی شرائط مان لی گئیں اور اس طرح مسلمانوں نے دمشق پر بھی قبضہ کرلیا۔(جاری ہے )
حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... قسط نمبر 10 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں