یہ داستان خود ان کی زبانی سنئے۔
’’بھاٹی دروازے کے پرائمری گرلز اسکول میں داخل کے بعد مجھے پہلی بار یہ احساس ہوا کہ میری آواز بہت اچھی ہے۔ میں ابھی نو عمر بچی ہی تھی اور موسیقی کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی اسکول میں پڑھائی شروع کرنے سے پہلے بچے دعا پڑھتے تھے ایک بار ٹیچر نے مجھے کلاس میں بلا کر اپنے پاس کھڑا کیا اور بلند آواز میں دعا سنانے کو کہا۔ میں نے
لب پہ آتی ہے دعا بن کر تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
سنائی، ٹیچر کو میری سنائی ہوئی دعا اتنی پسند آئی کہ انہوں نے اس کے بعد ہر روز صبح مجھے دعا پڑھنے کی ڈیوٹی سونپ دی۔ میں دعا پڑھتی تھی اور دوسری لڑکیاں اس کے بعد دہراتی تھیں۔ ایک دم علامہ اقبال صاحب نے یہ دعا سنی تو اس کے بعد ان کا معمول بن گیا کہ وہ مجھے گھر بلا لیتے اور اکثر یہ دعا اور اس زمانے کی نعتیں سنتے تھے۔ ایک نعت ۔۔۔میرے مولا بلا لو مدینے مجھے۔ انہیں بہت پسند تھی۔ جب بھی میں یہ نظم گاتی تھی علامہ اقبال جانے کہاں کھو جاتے تھے پھر وہ جیسے جاگ جاتے اور کہتے ’’جاؤ بیٹا چلم بھر کر لاؤ۔‘‘
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر554 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں ان کے حقے کے لیے چلم بھر کر لاتی۔ وہ پیار سے مجھے ایک پیسہ دیتے۔ اس زمانے میں وہ پیسہ بھی ایک نعمت ہوتا تھا کہ ایک پیسے کی چار پانچ چیزیں آجاتی تھیں پھر بھی دو پائیاں بچ جاتیں ( اس زمانے میں روپیہ، آنا ، پائی ہوتے تھے اور پائیوں سے بھی بہت سی چیزیں خریدی جا سکتی تھیں) میں نے ابتدائی تعلیم اسی اسکول میں حاصل کی۔ آٹھویں پاس کی تو مجھے اسکول سے اٹھا لیا گیا۔ اس زمانے میں لڑکیوں کو زیادہ تعلیم دلانے کا رواج نہیں تھا پھر ہمارا گھرانہ بھی مذہبی قسم کا تھا۔‘‘
یہ اعزاز فلمی اداکاراؤں میں خورشید بانو کے سوا کسی اور کو نصیب نہیں ہوا کہ مفکر قوم علامہ ابقال نے اس کی زبانی اپنی نظمیں اور نعتیں سنی ہوں۔ اسے علامہ اقبال کا حقہ تازہ کرنے کا شرف حاصل ہوا ہو اور جسکی خوش اخلافی سے خوش ہو کر علامہ صاحب ایک پیسہ ہی سہی انعام دیتے ہوں۔
یہ وہ ابتدائی ماحول تھاجس میں خورشید کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ ان کے فلمی دنیا میں آنے کا سبب یہ ہے کہ بھائی دروازے میں اس زمانے میں اے۔ آر کار دار ، ایم، اسماعیل، لالہ یعقوب ، عنایت بیگم اور بہت سے دوسرے فلمی فن کار رہتے تھے۔ خورشید بانو کے بھائی کی لالہ یعقوب سے بہت دوستی تھی۔ خورشید کو صرف گانے کا شوق تھا اور وہ بھی انہوں نے باقاعدہ کسی سے نہیں سیکھا تھا۔ اداکاری سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر تقدیر میں اداکار بننا اور اسی حیثیت سے بے مثال شہرت حاصل کرنا لکھا تھا سو ایسا ہو کر رہا۔
جب سید امتیاز علی تاج نے علامہ اقبال کے دولت کدے پر خورشید بانوکی زبان سے نظمیں اور نعتیں سنیں تو وہ بہت متاثر ہوئے۔ اس زمانے میں وہ فلم ’’سورگ کی سیڑھی‘‘ (جنت کی سیڑھی) بنا رہے تھے۔ انہوں نے خورشید بانو سے کہا وہ انکی فلم میں کام کریں اور گانا بھی گائیں۔ خورشید بانو کے گھر کے حالات ان دنوں ٹھیک نہ تھے۔ انہوں نے یہ بات اپنے بھائی کو بتائی۔ انہوں نے اپنے دوست لالہ یعقوب سے مشورہ لیا تو انہوں نے بہت پر زور انداز میں اس پیش کش کو قبول کرنے کا مشورہ دیا۔ اس وقت خورشید بانو کی عمرہ پندرہ سال تھی۔ ’’سورگ کی سیڑھی‘‘ میں انہوں نے پہلی بارکام کیا اور گانا بھی گایا۔ یہ ایک معمولی سا کردار تھا۔ فلم کا ماحول بہت اچھا تھا کیونکہ بہت اچھے اچھے لوگ اس میں کام کر رہے تھے اور سید امتیاز علی تاج جیسی ہستی اسکی ہدایت کار تھی۔
ابھی یہ فلم زیر تکمیل ہی تھی کہ کلکتہ سے ایک پارسی سیٹھ لاہور آئے۔ انہوں نے خورشید بانو کو سیٹ پر کام کرتے ہوئے دیکھا تو ان کی شخصیت اور اداکاری سے کافی متاثرہوئے۔ وہ کلکتہ میں ایک پنجابی فلم بنا رہے تھے۔ جس کے لیے انہیں ایک ہیروئن کی ضرورت تھی۔ انہوں نے اس کردار کے لیے خورشید بانوکو بہت موزوں پایا تو فوراً انہیں پیش کش کر دی۔ ’’سورگ کی سیڑھی‘‘ مکمل ہونے کے بعد خورشید بانو اس فلم میں کام کرنے کے لئے اپنے بھائی کے ساتھ کلکتہ چلی گئیں۔ لالہ یعقوب ، بھائی دیسا، امیر علی اور عنایت بیگم وغیرہ بھی ان کے ساتھ گئے تھے۔
فلم کا نام عشق پنجاب عرف مرزا صاحباں تھا۔ یہ خورشید بانوکی پہلی پنجابی فلم تھی۔ اس فلم کی تکمیل کے بعد وہ اپنے بھائی کے ہمراہ بمبئی چلی گئیں۔ اب وہ اداکارہ اور گلوکارہ بن چکی تھیں۔ لالہ یعقوب نے ان کے بھائی کو مشورہ دیا کہ بمبئی فلم کا بڑا مرکز ہے اور وہاں ترقی کے مواقع بھی زیادہ ہیں۔ اس طرح خورشید بانوکلکتہ سے بمبئی پہنچ گئیں۔
خورشید بانو اس لحاظ سے بھی غالباً واحد اداکارہ تھیں جنہوں نے ایک ہی سال میں لاہور، کلکتہ اور بمبئی کی پانچ فلموں میں اداکاری کی۔ بمبئی میں اس سال ان کی تین فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ ان میں غیبی ستارہ، چراغ حسن اور ہم شکل شامل ہیں۔ بمبئی میں ہر زمانے میں ہر معیار کے فلم ساز اور ہدایت کار موجود رہے ہیں جو دوسرے درجے کی ایکشن اور جادوئی فلمیں بنایا کرتے تھے۔ خورشید بانو کا واسطہ بھی آغاز میں ایسے ہی فلم سازوں سے پڑا تھا۔ یہ 1935کا ذکر ہے۔
اسی سال خورشید بانو سروج مودی ٹون سے وابستہ ہوگئیں۔ 1936ء میں اس ادارے نے فلم ’’کیمیا گر‘‘ بنائی جس کے ہیرو اس وقت کے معروف ہیرو ماسٹر نثار تھے۔ اسی سال اس کی فلم ’’سپہ سالار‘‘ بھی ریلیزہوئی۔ اسن کی اگلی فلم ’’اعلان جنگ‘‘ تھی۔ یہ فلم کامیاب تھی لیکن یہ دوسرے درجے کے فلم ساز کی کہانی تھی۔ ایسے ادارے عموماً ایکشن فلمیں بنایا کرتے تھے۔ خورشید بانو بے ابھی تک بی کلاس فلموں ہی میں کام کیا کرتے تھا۔ ان کی فلم ’’دلربا‘‘ اور ساقی بھی نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ ایمان فروش کے بعد1938ء میں انہوں نے ایک اچھے ہدایت کار ضیا سرحدی کی فلم ’’افسانہ‘‘ میں جیراج کے بالمقابل کام کیا۔ اس جوڑی کو بہت پسند کیا گیا۔ آئندہ دو سال میں خورشید کو نسبتاً اچھی فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ 1939ء میں خورشید کی آٹھ فلمیں نمائش پذیر ہوئیں۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر556 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں