فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر556
خورشید بانو کی قابل ذکر فلم’’آپ کی مرضی‘‘ تھی جس میں انہوں نے نذیر، شوبھنا سمرتھ۔ پرتھوی راج، گوپ، مبارک، مسعود اورکے این سنگھ جیسے نامور اداکاروں کے ساتھ کام کیا۔ یہ فلم خاصی پسند کی گئی اور خورشید بانو کی شہرت اور عظمت کا آغاز اسی فلم سے ہوا تھا۔ اس کے بعد ان کی فلم ’’میری آنکھیں‘‘ ریلیز ہوئی جس کے موسیقار کھیم چند پرکاش جیسے مانے ہوئے موسیقار تھے۔ کھیم چند پرکاش پہلے موسیقار تھے جنہیں یہ احساس ہوا کہ خورشید کی آواز بہت اچھی اور سریلی ہے۔ اس فلم کی موسیقی پسند کی گئی۔ خورشید کی اگلی فلم ’’دیکھا جائے گا‘‘ تھی۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر555 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
1940ء خورشید بانو کے لئے ایک اہم سال تھا کیونکہ اسی سال ان کی لالہ یعقوب سے شادی ہوگئی تھی اور ان کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اسی سال خورشید بانو کا رنجیت مودی ٹون جیسے بڑے فلم ساز ادارے سے معاہدہ ہوگیا۔ یہ خورشید کی فلمی زندگی کا ایک اہم موڑ تھا۔ اس زمانے میں ہر آرٹسٹ کسی فلم ساز ادارے سے وابستہ ہوتا تھا۔ رنجیت مودی ٹون ایک باوقار اور معروف ادارہ تھا جو معیاری اور کامیاب فلمیں بنانے کے لیے مشہور تھا۔ اس سے پہلے خورشید اسسٹنٹ فلمیں بنانے والے ادارون کے ساتھ منسلک رہی تھیں۔ یہ پہلا ادارہ تھا جس میں خورشید کو پہلی بار ایک بڑے اور معیاری ادارے کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تھا۔
اس کمپنی سے وابستہ ہوتے ہی خورشید کی قسمت کھل گئی۔ اس ادارے کی پہلی فلم ’’ہولی‘‘ تھی جس کے ہدایت کار اے آر کار دار تھے۔ اس فلم میں بڑے اداکار تھے لیکن اس کی نمایاں خوبی اس کی موسیقی تھی جو کھیم چند پرکاش نے ترتیب دی تھجی۔ وہ خورشید کی مدھر آواز کا صحیح استعمال کرنے والے پہلے موسیقار تھے۔ اسی فلم سے خورشید نے گلوکارہ کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ اس ادارے کی دوسری فلم ’’مسافر‘‘ تھی۔ یہ ہر اعتبار سے ایک بڑی فلم تھی۔ اسکی کاسٹ میں اپنے زمانے کے نامور اور مقبول فن کار شامل تھے جن میں ایشور لال، یعقوب ، مرزا اشرف وغیرہ شامل تھے۔ اس زمانے کے نامور ترین کامیڈین چارلی اسکے ہیرو تھے۔ یہ ایک کامیاب فلم تھی۔1941ء میں اس ادارے کی فلم ’’بیٹی‘‘ ریلیز ہوئی جس کے موسیقار گیان دت اور ہدایت کار جینت ڈیسائی تھے۔ اس فلم میں خورشید نے ہیروئن کا کردار ااد کیا تھا اور چار گانے بھی گائے تھے جو سب کے سب ہٹ ہوگئے۔ اب فن کارہ اور گلوکارہ کی حیثیت سے خورشید کا طوطی بولنے لگا تھا اور اس کی قسمت کا ستارہ عروج کی جانب رواں دواں تھا۔ اسی سال خورشید اور موتی لال کی فلم ’’پردیسی‘‘ ریلیز ہوئی۔ مونی لال اس وقت کے سپر اسٹار تھے اور ان کے ساتھ خورشیدکی یہ پہلی فلم تھی۔ یہ فلم موسیقی کی وجہ سے بھی ممتاز تھی۔ اس میں تیرہ گانے تھے اور سبھی سپرہٹ تھے۔ چند گانے شاید آپ کو بھی یاد ہوں۔
پہلے جو محبت سے انکار کیا ہوتا
یوں ہم کو نہ دنیا سے بیزارکیا ہوتا
موری اٹریا ہے، سونی موہن نہیں آئے
موتی لال اور خورشید کی جوڑی کو بے انتہا پسند کیا گیا۔ اس فلم کی کہانی ایک انگریزی فلم سے اخذ کی گئی تھی۔ اس کہانی پر لاہور میں تقسیم سے پہلے ایک یادگار۔۔۔فلم ’’داسی‘‘ بنائی گئی تھی اور پاکستان میں نذر الاسلام نے ’’بندش‘‘ بنائی تھی۔ یہ دونوں فلمیں بھی بہت کامیاب ہوئی تھیں اور موسیقی کے اعتبار سے بھی انہیں سراہا گیا تھا۔
اسی سال خورشید کی اگلی فلم ’’شادی‘] تھی جومنشی دل نے لکھی تھی جینت ڈیسائی اس کے ہدایت کار تھے اور موسیقی کھیم چند پرکاش نے بنائی تھی موتی لال اس کے ہیرو تھے۔ مادھوری اور ایشور لال بھی اس فلم کے اہم کردار تھے۔ اس فلم کی نمائش کے بعد ہر طرف خورشید کا چرچا ہونے لگا اور وہ سپر اسٹار بن گئیں۔ خورشید اب مقبولیت کے عروج پر تھیں۔
یہ موقع مناسب جان کر ان کے شوہر لالہ یعقوب نے سوچا کہ کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے چنانچہ انہوں نے اپنی ذاتی پنجابی فلم ’’ہیولا‘‘ بنائی جس کے ہدایت کار منور ایچ قاسم تھے۔ منور ایچ قاسم کی یہ بطور ہدایت کار پہلی فلم تھی۔ منور ایچ قاسم صاحب نے بعد میں پاکستان آخر بھی فلمیں بنائیں جن میں ایک فلم ’آج کل‘کے مکالمے ہم نے لکھے تھے۔ خدا جانے کسی فقیر کی بددعا تھی کہ منور صاحب کی کوئی فلم کامیاب نہیں ہوئی بلکہ یہ بری طرح فلاپ ہوئیں۔ منور صاحب کے واقعات ہم پہلے ہی کافی تفصیل سے بیان کر چکے ہیں۔ ان کی بیٹی کی منگنی اداکار اور ’’آج کل‘ کے بعدہیرو سید کمال سے ہوئی تھی لیکن بعدمیں قائم نہ رہ سکی۔ بعد میں ان کی بیٹی کی شادی معروف و ممتاز بینکرز آغا عابد سے ہوگئی جو بی سی سی آئی کے خالق اور چیئرمین تھے۔
’’ہیولا‘‘ کی عبرت انگیز ناکامی بھی خورشید کو متاثر نہ کر سکی کیونکہ ان کا ستارہ عروج پر تھا۔اسی زمانے میں زنجیت مودی ٹون نے کلکتہ سے اس زمانے کے سپر اسٹار اور نامور گلوکار کے ایل سہگل کو فلم ’’بھگت سور داس‘‘ میں کام کرنے کے لیے خصوصی طور پر بلایا۔ کے ایل سہگل کے نام کا ہر طرف ڈنکا بج رہا تھا۔ ان کے ساتھ خورشید بانو کا ہیروئن کی حیثیت سے کام کرنا کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔
اس فلم کی کہانی بہت انوکھی اور دلچسپ تھی۔ فلم کا ہیرو سور داس ایک طوائف کے عشق میں مبتلا ہو کر دنیا کی ہر چیز سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ طوائف کا کردار خورشید بانو نے بہت خوبی سے ادا کیا تھا۔ جب سور داس اپنی محبوبہ کی محبت میں دیوانہ ہو جاتا ہے تو طوائف ایک دن اس سے کہتی ہے کہ جتنی محبت ہو اس سے کرتا ہے اگر اتنی ہی محبت وہ بھگوان سے کرے تو وہ لافانی حیثیت کا مالک ہو سکتا ہے ۔ سور داس طوائف کے عشق میں اس قدر آگے بڑھ چکا ہے کہ اسے دیکھتے ہی دین دنیا سے بے گانہ ہو جاتا ہے۔ اس کمزوری کے پیش نظر وہ اپنی دونوں آنکھیں پھوڑ لیتا ہے کہ نہ وہ طوائف کو دیکھے گا اورنہ بھگوان سے دور ہوگا۔ اسی لیے وہ خود کو اندھا کرلیتا ہے۔ سور داس کا یہ جذبہ طوائف کو اتنا متاثر کرتا ہے کہ وہ فیصلہ کر لیتی ہے کہ اگر سور داس دنیا کو نہیں دیکھ سکتا تو وہ بھی اس دنیا کو نہیں دیکھے گی۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتی ہے اور اپنے بھگوان سے پراتھنا کرتی ہے کہ جب تک سور داس دنیا کو دیکھنے کے قابل نہیں ہوگا وہ بھی اپنی آنکھیں نہیں کھولے گی۔
ادھر سور داس خودکو بھگوان کی عبادت کے لیے وقف کردیتا ہے۔ اپنی زندگی اس کی پوجا پاٹ کے لیے وقف کر دیتاہے اس کی عبادت دیکھ کر لوگ اسے بھگت سور داس کہنے لگتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں وہ بھگوان کا چہیتا بندہ تھا۔ طوائف نے بھی اپنی زندگی بھگوان کے لیے وقف کر دی تھی۔ ان دونوں کی عبادت سے بھگوان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ پھر ایک معجزہ رونماہوتاہے اور بھگت سور داس کی دونوں آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں۔ ان دونوں کی عبادت رنگ لے آتی ہے۔ طوائف بھی اپنی قسم کے مطابق آنکھیں کھول دیتی ہے۔ اس طرح ان دونوں کی دعائیں اور عبادت قبول ہو جاتی ہیں اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔
اس فلم کے گانے سپرٹ ہٹ ہوئے تھے۔ چند گانے ملاحظہ کیجئے
(۱) مدھر مدھر گا رے منو!
مدھر مدھر گا
(۲) پنچھی بانورا
چاند سے پریت لگائے
(۳) جوں جوں پیت بڑھائے گا تو
توں توں گھٹتا جائے
’’بھگ سور داس‘‘ اس سال کی کامیاب اور مقبول ترین فلم ثابت ہوئی اور خورشید بانو ایک بار پھر بام عروج پر پہنچ گئیں۔
اسی سال خورشید بانو کی فلم’’چاندنی‘‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اس فلم میں خورشید بانو نے ڈبل رول ادا کیا تھا۔ وہ بیک وقت ماڈرن اور دیہاتی لڑکی کے روپ میں سامنے آئی تھیں۔
1943ء میں رنجیت کی کلاسیکی فلم ’’تان سین‘‘ آئی جس نے مقبولیت اور کامیابیوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ تان سین میں خورشید اور کے ایل سہگل ایک بار پھر یکجا ہوئے تھے اور اس فلم میں نہ صرف انہوں نے لاجواب اداکاری کی تھی بلکہ اس فلم کی موسیقی ایسی تھی کہ بھلائے نہ بھلائی جائے۔ کے ایل سہگل اور خورشید نے اپنی گائیکی کا سکہ سارے ملک پر بٹھا دیا تھا۔ انہیں گائیکی میں حرف آخر تسلیم کر لیا گیا تھا اور بڑے بڑے موسیقاروں نے انہیں عظمت کی سند دے دی تھی۔
تان سین کے سارے گانے سپرہٹ تھے جنمیں سے چند یہ ہیں۔
(۱) گھٹا گھن گھور گھور
مور مچا وے شور
مورے سجن آجا آجا
مورے سجن آجا(خورشید بانو)
(۲) وہ دن بھول گئے (خورشید بانو)
(۳) برسو رے کالے بدروا برسو(خورشید بانو)
(۴) دکھیا جیا را روئے نیناں (خورشید بانو)
(۵) دیا جلاؤ رے جگمگ جگمگ (کے ایل سہگل)
1944ء میں رنجیت کی فلم ’’شہنشاہ جابر‘‘ ریلیز ہوئی جس میں خورشید کے ساتھ شیخ مختار، سوشیل کمار، لالہ، یعقوب وغیرہ نے کام کیا تھا۔ کھیم چندر پرکاش اس کے موسیقار تھے۔ وجاہت مرزا چنگیزی اس فلم کے مصنف اور ہدایت کار تھے۔ یہ فلم بہت کامیاب ہوئی اس کی موسیقی فلم کی نمایاں خوبی تھی۔ اس فلم کے چندیادگار گانے یہ ہیں۔
(۱) بلبل آ
میں گاؤں پیار کے نغمے
تو بھی گا
(۲) محبت میں سارا جہاں جل رہا ہے
زمیں تو زمیں آسماں جل رہا ہے(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر557 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں