فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر557

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر557
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر557

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

رنجیت مودی ٹون کے مالک چندر لال شاہ تھے۔ وہ انڈین فلم انڈسٹری کے شہنشاہ کہلاتے تھے۔ بڑے بڑے نامور اداکاروں سے انکا معاہدہ تھا۔ انکی فلمیں اوپر تلے کامیاب ہو رہی تھیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہوگیا تھا کہ اگر وہ مٹی کو ہاتھ لگاتے ہیں تو وہ سونا بن جاتی ہے لیکن ہر عروج کو ایک دن زوال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اب چندر لال شاہ کے عروج کا زمانہ ختم ہونے لگا تھا اور ان کا ستارہ گردش میں آگیا تھا۔ یہ وجہ ہے کہ ’’شہنشاہ جابر‘‘ کے بعد ان کی کامیابیوں کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔ اب ان کی فلمیں بری طرح فلاپ ہو رہی تھیں۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر556 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ممتاز محل‘‘ شہنشاہ جابر کی کامیابی سے متاثر ہو کر دوسری تاریخی اور رومانی فلم بنائی گئی تھی جس کے مصنف اور ہدایت کار کیدار شرماجیسے ہنر مند انسان تھے۔ خورشید اس کی ہیروئن تھیں۔ یہ بڑے وسیع پیمانے پر بنائی گئی تھی مگر بری طرح فلاپ ہوگئی۔ اس کے بعد وجاہت مرزا کی ہدایت میں دوسری فلم ’’پربھوکا گھر‘‘ ریلیز ہوئی اور سخت ناکامی سے دوچار ہوئی۔ رنجیت اور خورشید کی ایک اور فلم ’’مورتی‘‘ بھی فلاپ ہوگئی مگر اس فلم کا ایک گانا
بدریا برس گئی اس بار
آج بھی لوگوں کویاد ہے
1936ء میں فلم ’’پھلواری‘‘ کا بھی یہی حشر ہوا۔ رنجیت ایک بڑا فلم ساز ادارہ تھا اوربیک وقت کئی فلمیں بناتا تھا لیکن قسمت کے پھیر میں آچکا تھا اسلیے اس کی ہر فلم ناکام ہو رہی تھی۔ اسکے ساتھ ہی خورشیدبانو کے عروج کا دور بھی ختم ہو رہا تھا۔ ’’پھلواری‘‘ رنجیت کی آخری فلم تھی جس میں خورشید بانو نے کامکیا تھا اور ناکامی کامزہ چکھا تھا۔ چندر لال شاہ جو کروڑ پتی تھے، دیکھتے ہی دیکھتے کنگال ہوگئے۔ ان کا اسٹوڈیو اور دوسرے اثاثے فروخت ہوگئے تھے اور قرض میں انکا بال بال بندھ گیا تھا۔ 


جب رنجیت مودی ٹون کو زوال ہوا تو اس سے وابستہ ذاتی فلم ساز ادارہ قائم کر لیا اور بڑے اہتمام کے ساتھ ایک تاریخی فلم ’’مہاراج پرتاپ‘‘ بنائی۔ ایشور لال نے اس فلم میں خورشید کے ساتھ مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ یہ فلم بالکل فلاپ تو نہ ہوئی مگر اسے کامیاب بھی نہیں کہا جاسکتا۔
1946ء کا ہنگامہ خیز سال تھا۔1947ء میں سہراب مودی نے سوشل فلم ’’منجدھار‘‘ میں خورشید بانو کو کاسٹ کیا۔ ماسٹرغلام حیدر اس فلم کے موسیقار تھے لیکن قسمت پر مہر لگ چکی تھی اس لیے یہ فلم بھی ناکام ہوگئی۔1947ء میں سینٹرل اسٹوڈیو نے فلم ’’مٹی‘‘ بنائی۔ لوگ کہتے ہیں کہ بعض نام بہت منحوس ثابت ہوتے ہیں۔ ’’مٹی ‘‘کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ یہ فلم بری طرح ناکام ہوئی۔ بقول ایک مبصرکے فلم ’’مٹی‘‘ ریلیز ہوتے ہی مٹی میں مل گئی۔ اس فلم میں خورشید اور صادق علی مرکزی کردار تھے۔
خورشید بانو کی شہرت رفتہنے ابھی تک ان کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا اس لیے مسلسل ناکامیوں کے باوجود فلم ساز ان کو کاسٹ کر رہے تھے۔ ایکٹر اور پروڈیوسر کمار نے بڑے زور و شور سے ایک سوشل فلم ’’آپ بیتی‘‘ کے نام سے شروع کی۔ یہ فلم مکمل ہونے کے بعد خورشید نے بھارت چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا اور اپنے شوہر لالہ یعقوب کے ساتھ پاکستان آگئیں۔ ’’آپ بیتی‘‘ ان کے پاکستان آنے کے بعد ریلیز ہوئی تھی اور یہ بھی فلاپ ہوگئی تھی۔
خورشید بانو نے بمبئی میں بہت عروج دیکھا تھا۔ ایک لحاظ سے فلمی دنیا پر حکومت کی تھی۔ نام اور دولت کمائی تھی۔ گلوکارہ اور اداکارہ کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا تھا مگر بالآخر جب وہ بمبئی سے پاکستان روانہ ہوئیں تو ایک ناکام ہیروئن کا ٹھپا ان پر لگ چکا تھا۔
پاکستان میں خورشید اوران کے شوہر لالہ یعقوب کا پہلا پڑاؤ کراچی تھا۔ پاکستان میں اس وقت فلمی صنعت نہ ہونے کے برابر تھی۔ لاہور میں چند فلمیں بنائی گئی تھیں اور سب فلاپ ہوئی تھیں لیکن لاہورہی پاکستان کا فلمی مرکز تھا۔ خورشید بانو کے شوہر کا خیال تھا کہ ان دونوں کو بھبی لاہور میں قیام کرنا چاہئے لیکن خورشید اس کے لیے رضا مند نہیں تھیں۔ وہ کراچی میں رہائش اختیار کرنا چاہتی تھیں۔ اس کے علاوہ ان دونوں میں کچھ اور اختلافات بھی پیدا ہو چکے تھے۔ یہی اختلافات ان دونوں میں علیحدگی کا سبب بن گئے۔ خورشید اور لالہ یعقوب ایک طویل عرصے کی رفاقت کے بعد ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن گئے اور ان میں طلاق ہوگئی۔
خورشید نے کراچی ہی میں قیام کرنا پسند کیا اور وہاں دو فلمیں ’’فنکار‘‘ اور ’’منڈی‘‘ میں کام کیا لیکن ناکامی کے اثرات ابھی تک بدستور باقی تھے۔ یہ دونوں فلمیں بھی بہت بری طرح فلاپ ہوئیں۔ ان میں سے ایک فلم ’’منڈی‘‘ کے ہدایت کار ہمارے دوست عزیز احمد تھے جو بعد میں لاہور آکر فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری کے عہدے پر کافی عرصے تک فائز رہے۔ چند سال قبل اچانک ان کا انتقال ہوگیا۔
خورشید بانو کی زندگی میں رفتہ رفتہ انقلابی تبدیلیاں رونماہو رہی تھیں۔ مذہب سے انہیں ہمیشہ لگاؤ رہا تھا لیکن اب ان کا رجحان مذہب کی طرف زیادہ ہوگیا تھا۔ انہوں نے فلمی صنعت میں ایک طویل عرصہ گزارا تھا لیکن ان کا دامن بدنامی سے ہمیشہ پاک رہا۔ مسلسل ناکامیوں کے علاوہ بھی ان کا دل اداکاری اور فلموں سے اکتا چکا تھا اور انہوں نے فلمی صنعت کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ کراچی میں ایک خاموش اور پرسکون زندگی گزار رہی تھیں جب ایک ممتاز صنعت کار یوسف میاں نے ان سے شادی کی خواہش کااظہار کیا۔ خورشید بانو فلمی دنیا کو خیر باد کہہ چکی تھیں اپنے شوہر سے طلاق حاصل کرنے کے بعد وہ تنہا اور بے سہارا ہوگئی تھیں کچھ غور و خوض کے بعد بالآخر انہوں نے یوسف میاں کی پیش کش قبول کر لی اور بیگم یوسف میاں بن گئیں۔ فلمی دنیا اور اداکاری اب ان کے لیے ایک بھولا ہوا خواب بن چکی تھی۔ اس وقت ان کی عمر بہ مشکل تیس سال ہوگی۔
اب وہ ایک ریٹائرڈ بزرگ خاتون کی زندگی گزار رہی ہیں۔ بیتے دنوں کی ناقابل فراموش یادیں ہی اب ان کا سرمایہ ہیں۔ ان کا بچپن اور علامہ اقبال کی شفقت اور حوصلہ افزائی کی یادیں وہ کیسے فراموش کر سکتی ہیں۔ انہیں یہ شرف بھی حاصل ہے کہ علامہ اقبال انہیں اپنے گھر بلا کر ان سے نعتیں اورنظمیں سنا کرتے تھے اور وہ ان کا حقہ بھی تازہ کیا کرتی تھیں۔ علامہ کا انعام میں دیا ہوا اور ایک ایک پیسہ وہ زندگی بھر نہیں بھول سکیں گی۔
زندگی اسی کا نام ہے ۔ کہیں سے شروع ہو کر نہ جانے کہاں ختم ہو جاتی ہے۔ راہ میں کیسے کیسے مراحل سے گزرتی ہے۔ کبھی خوشی،کبھی گم۔ کبھی کامیابی تو کبھی ناکامی۔ اسی کا نام زندگی ہے مگر خدا کا شکر ہے کہ خورشید بانو نے فلم میں ناکام ہونے کے بعد بھی ایک خوش گوار، پر سکون اور خوش و خرم زندگی بس رکی۔ شاید یہ علامہ اقبال کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ ان کی یادگار فلموں کی تعداد بھی ان کے نا قابل فراموش گانوں کی طرح بہت زیادہ ہے لیکن فلم ’’تان سین‘‘ کو ان فلموں میں ایک ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ ’’تان سین‘‘ کے ہدایت کار جینت ڈیسائی اور مصنف منشی دل تھے۔ موسیقار کھیم چند پرکاش اور خورشید بانو کی آوازوں نے لازوال گیتوں میں ڈھال دیا تھا۔ اس فلم میں سہگل تان سین تھے۔ ان کی محبوبہ تانی کا کردار خورشید بانو نے بہت خوب صورتی سے ادا کیا تھا۔ شہنشاہ اکبر کے روپ میں مبارک نے ایک باوقار اور بارعب کردار ادا کیا تھا۔ مغلیہ شہزادی کا کردار کملا چٹر جی نے ادا کیا تھا۔ تان سین کے خلاف ان کے مخالفین کی سازشوں کو اس شہزادی نے ہی الفاظ کا روپ دے کر شہنشاہ کے سامنے پیش کیا تھا کہ تان سین سے دیپک راگ سنا جائے۔ کملا چٹر جی مشہور اداکارہ سلوچنا چٹر جی کی بہن تھیں جن سے کیدار شرما نے شادی کر لی تھی۔ کیدار شرما انڈین فلم انڈسٹری میں مصنف ، ہدیات کار اور گیت نگار کی حیثیت سے بہت ممتاز اور بلند حیثیت کے حامل تھے۔ ان کی یادگار فلمیں چتر لیکھا ، بانو رے نین اور جو گن انڈیا کی فلمی تاریخ میں کلاسیکی فلمیں تسلیم کی جاتی ہیں۔
فلم ’’تان سین‘‘ ایک عجیب و غریب فلم تھی۔ تاریخی پس منظر میں پائی جانے والی اس فلمی کہانی میں بہت اتار چڑھاؤ اور ہر قسم کی دلچسپیاں تھیں۔ منشی دل نے اس کہانی کا تانا بانا بہت خوبصورتی اور ہنر مندی سے بنا تھا۔ تان سین اور تانی دونوں کے کرداروں کو اس کہانی میں یکساں اور مساوی حیثیت دی گئی تھی۔ تان سین نے اپنے فن کا مظاہرہ کئی بار کیاتھا۔ ایک بار بپھری ہوئی مست ہتھنی کو اپنے گانے سے رام کر لیا تھا۔ ایک منظر میں ہتھنی بے قابو اور غجب ناک ہو کر ہر چیز کو روندنے پر تلی ہوئی تھی جب تان سین نے ایک گیت گا کر اسے رام کر لیا۔ اس گیت کے بول یہ تھے۔
رم جھم رم جھم چال تہاری
کاہے بھئی متواری
(ترجمہ: تمہاری چال میں رم جھم کا حسن ہے۔ تم دیوانی کیوں ہو رہی ہو؟)
اس کے مقابلے میں تانی ایک گیت گا کر جنگل کے ڈھورڈنگروں کو ایک جگہ اکٹھا کر لیتی ہے۔ اس گانے کے بول یہ تھے۔ 
آؤ گوری
آؤ شاما
سانجھ بھئی گھر آؤ
اس کے بعد کلائمکس میں دیپک راگ اور دوسرے کلائمکس میں میگھ ملہار نے اس فلم میں نا قابل بیان حسن پیدا کر دیا تھا۔ اس فلم میں کل تیرہ گانے تھے جن میں سے چھ گانے سہگل نے گائے تھے۔ ایک دو گانا سہگل اور خورشید کی آواز میں تھا۔ جس کے بول تھے۔
مورے بالا پن کے ساتھی چھیلا
بھول جائیونا
خورشید بانو کی آواز میں بھی چھ گانے تھے جو یہ ہیں
(۱) برسو رے، برسورے۔
کارے بدردامورے پیا پہ برسو
جیسے موری انکھیاں برسیں
(۲) آجا آجا مکھ دکھلا جا
(۳) پنگھٹ پہ مرے شیام بجائیں بنسریا
(۴) اودکھیا جیارا
(۵) اب راجا بھئے مورے بالم
وہ دن بھول گئے
(۶)آؤ گوری آؤ شاما
سانجھ بھئی گھر آؤ
دلچسپ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ جن دنوں فلم تان سین کی نمائش ہو رہی تھی اس سال ملک میں اتنی موسلا دھار بارش ہوئی تھی کہ بڑے بڑے تمام دریاؤں میں سیلاب آگیا تھا اور بہت سے دیہات غرقاب ہوگئے تھے۔ میگھ ملہار میں ایسے سہانے سر لگا دیئے ہیں کہ بارشیں رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔کسی گلوکارہ کے لیے اس سے بڑا انعام اور اعزاز بھلا کیا ہوسکتا ہے؟(جاری ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر558 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں