فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر558
پرانے موسیقاروں اور کلاسیکی موسیقی کی باتیں اب داستانیں ہو کر رہ گئی ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کو اپنی پرانی تہذیب و ثقافت یہاں تک کہ تاریخ تک سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔ ہم جب چھوٹے تھے تو گھر میں اماں اور دوسرے بڑے لوگ تاریخی ہستیوں کے واقعات اور کہانیاں سناتے رہتے تھے۔ دین اور مذہب کے بارے میں بھی پہلی اور ابتدائی معلومات ہمیں ان ہی ذرائع سے حاصل ہوئی تھیں پھر جب ذرا بڑے ہوئے اور پڑھنا سیکھ لیا تو خود ہی کتابیں اور رسالے پڑھنے لگے۔ اس طرح ہمارا اور ہماری نسل کا تاریخی اور تہذیب و ثقافت سے بچپن ہی سے رشتہ استوار ہوگیا تھا۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پختہ ہوتا گیا۔ اب نہ وہ مائیں اور بہنیں ہیں، نہ وہ گھر جہاں پڑھنے لکھنے کا شوق اور کتابوں اور رسالوں کے انبار لگے ہوں ۔ اب تو رفتہ رفتہ گھروں سے کتابیں غائب ہی ہوتی جا رہی ہیں۔ جس قدر دولت مند اور ترقی یافتہ گھرانا ہے کتابوں اور جرائد سے اتنا ہی تہی دست ہے۔ اب ٹی وی ، ویڈیو، کمپیوٹر کا راج ہے۔ بچے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی کارٹون اور پھر کچھ برے ہونے کے بعد ٹی وی پروگرام اور فلمیں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ بعض بچے تو اپنا تمام تر فارغ وقت ٹی وی کے سامنے ہی گزار دیتے ہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ یہ شوق بھی بڑھتا رہتا ہے۔ اب کمپیوٹر نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ کمپیوٹر ایک بہت فائدہ مند ذریعہ معلومات بھی ہو سکتا ہے اور اگر کوئی چاہے تو پل بھر میں دنیا بھر کے علم و فنون کے بارے میں قدیم و جدید معلومات حاصل کر سکتا ہے لیکن پھر وہی بات کہ ہمارے ہاں کمیپوٹر کو بھی محض تفریح بلکہ سستی تفریح کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر557 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہمیں حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک جہاں یہ تمام ایجادات سالہا سال پہلے عام ہو چکی تھیں لیکن پڑھنے کاشوق اس کے باوجود وہاں کم نہیں ہوا۔ کتابیں، رسائل اور اخبارات لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتے ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے ہاتھوں میں بھی کتابیں اور رسائل نظر آتے ہیں۔ آخر اس کا سبب کیا ہے؟ ہم لوگ ہر ایجاد کی خرابیوں کو ہی کیوں اپناتے ہیں۔ ان کی خوبیوں سے فیض یاب کیوں نہیں ہوتے؟ اس بارے میں ہم پہلے بھی اپنا نقطہ نظر بیان کر چکے ہیں۔ جن قوموں میں باشعور اور فہمیدہ قیادت کا فقدان ہوتا ہے وہ اپنی راہ متعین نہیں کر سکتیں۔ اسی طرح گمراہی میں بھٹکتی رہتی ہیں اور زمانے کے تیز رفتار قاموں تلے کچلی جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں صرف دولت ہی سب سے اہم اور قابل قدر چیز ہے۔ اس کے جائز و ناجائز حصول کے لیے سب بکٹٹ اس کے پیچھے دوڑ رہے ہیں لیکن وقت اور زمانے کی دوڑ میں اتنے پیچھے رہ گئے ہیں کہ آگے جانے والے ان کی نظروں سے اوجھل ہو چکے ہیں۔ یہ ترقی معکوس کہاں جا کر رکے گی۔ ختم بھی ہوگی یا نہیں؟ اسے کون روکے گا؟ حالات اور معاشرے کو کون بدلے گا؟ قوم کو صحیح راستوں کی جانب کون لے جائے گا؟ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ جس کے سائز میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہر شخص مجسم ایک سوال بن کر رہ گیا ہے۔ جب سبھی سوال ہوں تو جواب کون دے گا؟
اس اندھیرے میں کبھی کبھی بھٹکے ہوئے جگنو کی طرح روشنی کی ایک ہلکی سی جھلک بھی نظر آجاتی ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی ذرہ چمک رہا ہے۔ ایسے ہی ایک صاحب کے بارے میں پچھلے دنوں معلوم ہوا تو حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ کوئی ایک فرد واحد جو دولت مند اور صاحب وسائل بھی نہ ہو ایسے کام کیسے کر سکتا ہے؟ مگر کرنے والے کرتے ہیں ، کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
ان سے ملئے۔ ان صاحب کا نام اللہ داد ہے۔ پختہ عمر کے خوش ذوق انسان ہیں۔ سنگلاخ علاقے کے شہر پشاور میں رہتے ہیں۔ درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے ہین مگر موسیقی سے محبت کے معاملے میں بہت رئیس اور غنی ہیں۔ انہوں نے تن تنہا پرانے گانوں کی ایک لائبریری بنائی ہے جو ایک بڑے کمرے پر مشتمل ہے۔ فرش پر قالین ہے۔اس کے علاوہ کوئی فرنیچر نہیں ہے۔ ہر طرف پرانی موسیقی کے ریکارڈ اور ریڈیو پروگرام بڑے سلیقے سے رکھے ہوئے ہیں۔ اس کمرے میں سات ریڈیو گرام ہیں۔ اللہ دادا صاحب کو پرانے ریکارڈ جمع کرنے کا شوق بلکہ جنون ہے۔
قدیم ترین ریکارڈ ان کی اس ’’لائبریری‘‘ میں موجود ہیں۔ برصغیر کے ہر نامور اور قابل ذکر گلوکار کے ریکارڈ اس کمرے میں موجود ہیں۔ قدیم ترین ریکارڈ1905ء میں بنایا گیا تھا۔ یہ مغنیہ گوہر جان کے گانوں پر مشتمل ہے۔گوہر جان کے بارے میں ہم اور آپ شاید نہیں جانتے تو پھر ان کا ریکارڈ کس نے سنا ہوگا؟َ گوہر جان ایک پختون خاتون تھیں مگر کلکتہ میں رہتی تھیں۔ ان کا پہلا ریکارڈ1905ء میں بنا تھا یہی اللہ داد صاحب کی لائبریری کا قدیم ترین ریکارڈ ہے۔ اسے آپ برصغیر کا قدیم ترین ریکارڈ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی یہ ریکارڈ93سال پرانا ہے۔ اگر کسی اور صاحب کے پاس اس سے زیادہ پرانا کوئی ریکارڈ ہو تو وہ بتائیں۔ موسیقی کے رسیاؤں کے لیے یہ ایک خوش خبری ہوگی۔
اللہ داد صاحب نے صرف ریکرڈ ہی اکٹھے نہیں کیے ہیں۔ ان کے پاس آٹھ سو پرانی کلاسیکی فلموں کا ذخیرہ بھی موجود ہے۔ ان میں وہ فلمیں بھی شامل ہیں جن کے پرنٹ اب دستیاب نہیں ہیں اس لیے ان کے ویڈیو بھی نہیں بنائے جاسکتے۔ ان فلموں کی خصوصیت یہ یہ کہ ان کی موسیقی لاجواب اور لازوال ہے۔ انہیں موسیقی سے لگاؤ ہے اس لیے انہوں نے فلمیں بھی وہی سمیٹ کر رکھی ہیں جو اپنی موسیقی کے حوالے سے یادگار ہیں۔
آٹھ سو فلموں کے علاوہ ان کے پاس ۱۴ ہزار ریکارڈ بھی ہیں۔ چودہ ہزار کا عدد کہنے کو آسان لگتا ہے مگر کوئی ۱۴ سو ریکارڈ بھی جمع کرنے نکلے تو شاید بے نیل و مرام واپس لوٹ آئے۔
برصغیر کے سبھی پرانے اور ممتاز گلوکاروں کے ریکارڈ اس ذخیرہ میں شامل ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہندوستان کے طول و عرض میں نامی گرامی گلوکاروں کی آوازین گونجا کرتی تھیں۔ ابھی ہندوستان تقسیم نہیں ہوا تھا۔ جغرافیہ تبدیل نہیں ہوا تھا اور پھر آواز تو سرحدوں کی پابندی سے آزاد ہوتی ہے۔ ایک لمحے میں ہوا کے دوش پر یہ ایک ملک سے دوسرے ملک تک اور ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک پہنچ جاتی ہے۔ا س کے لیے کسی پاسپورٹ اور ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ایک زمانے میں کملا جھریا کی آواز سارے ہندوستان میں گونجتی تھی۔ کملا جھریا کلاسیکی گانے گاتی تھیں۔ غزلیں، قوالیاں، پکے راگ اور ان کی آواز میں ڈھل کرناقابل فراموش موسیقی میں تبدیل ہو جاتے تھے۔ کملا جھریا نے ایک نعت بھی گائی تھی جو اس زمانے میں انتہائی مقبول ہوئی تھی۔ نعت کے بول ملاحظہ کیجیے۔ ہندی زبان کی نعت آپ نے شاید پہلے کبھی نہ سنہ ہو۔
تمرے دیا کی ہے آس محمد ؐ
پاپی ہوں کچھ نہیں پاس محمدؐ
ایک ہندو مغنیہ کی ہندی زبان میں گائی ہوئی یہ نعت سننے والوں پر ایک عجیب کیفیت طاری کر دیتی ہے۔ روح کی گہرائیوں کو چھو لیتی ہے۔ دل و دماغ کو اپنی گرفت میں جکڑ لیتی ہے۔ ایسے گانے سن کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وقت تھم گیا ہو اور آواز زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہوگئی ہو۔
اللہ داد صاحب کی لائبریری میں اردو ، ہندی، فارسی، پشتو، مراتھی، بنگالی یہاں تک کہ انگریزی کلاسیکی گانوں کے ریکارڈ بھی موجود ہیںَ ان میں فلمی گانے بھی ہیں اور غیر فلمی نغمے بھی ہیں۔ غزلیں، قوالیاں، نعتیں، بھجن ہر طرح کے گانے انہوں نے سمیٹ لئے ہیں۔ یہاں تک کہ فارسی زبان میں استاد میراں بخش کا گایا ہوا ایک قصیدہ بھی ان کے خزانے میں محفوظ ہے۔ یہ قصیدہ انہوں نے افغانستان کے شاہ امان اللہ خان کے دربار میں گایا تھا۔ اللہ داد صاحب کے پاس یہ اصلی ریکارڈ موجود ہے۔ ان کے پاس کون سے گانے والے کا ریکارڈ نہیں ہے۔ آپ نام لیجئے اور وہ ان کے گانوں کے ریکارڈوں کا ڈھیر آپ کے سامنے نکال کر رکھ دیں گے اور سنا بھی دیں گے۔ اس معاملے میں وہ بہت فیاض ہیں۔ شوقین اور صاحب ذوق لوگ ہر روز ان کی اس لائبریری میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ اپنی اپنی پسند کے گانوں کی فرمائش کرتے ہیں۔ اللہ داد صاحب خندہ پیشانی سے ان کی فرمائش پوری کرتے ہیں۔ انہوں نے تمام ریکارڈ بہت سلیقے اور نفاست سے اس ترتیب سے رکھے ہیں کہ ایک لمحے میں مطلوبہ ریکارڈ نکال کر ریڈیو گرام میں رکھ دیتے ہیں ۔ ان میں اختری بائی فیض آبادی، موتی بائی اور روشن آرا بیگم کی مایہ ناز غزلیں بھی شامل ہیں۔ نور جہاں، ثریا اور امیر بائی کرناٹکی کے سب سے پہلے گانوں کے ریکارڈ بھی ان کے پاس موجود ہیں۔ کے ایل سہگل کے تمام فلمی اور غیر فلمی گانوں کے ریکارڈ ان کے پاس حفاظت سے رکھے ہوئے ہیں۔ جنہیں وہ فرمائش کرنے پر بلا تامل بجا کر سنا دیتے ہیں ۔ کنجوسی سے کام نہیں لیتے بلکہ انہیں صاحب ذوق لوگوں کو ان کے پسندیدہ گانے سنا کر دلی مسرت ہوتی ہے۔ (جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر559 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں