فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر554
خورشید بانو کے بارے میں ہم مختصر تذکرہ پہلے بھی کر چکے ہیں۔ اس بار لازم ہوگیا کہ قدرے تفصیل سے ان کا ذکر کیا جائے۔
خورشید بانو نے پندرہ سال کی عمر میں پہلی بار لاہور کی فلم ’’سورگ کی سیڑھی‘‘ میں کام کیا تھا پھر وہ کلکتہ چلی گئیں جہاں انہوں نے عشق پنجاب عرف مرزا صاحبان میں کام کیا۔ یہ پنجابی فلم تھی۔ اس فلم کی تکمیل کے بعد وہ اپنے بھائی کے ساتھ بمبئی چلی گئیں اور وہاں سپر اسٹار بن گئیں۔
خورشید بانو کی پہلی فلم ’’سورگ کی سیڑھی‘‘ کے لیے سید امتیاز علی تاج نیانہیں کام کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ قابل ذکر بات یہ تھی کہ یہ مشورہ علامہ اقبال کے گھر پر دیا گیا تھا۔ خورشید بانو چھوٹی عمر میں ہی علامہ اقبال کے گھر جانے لگی تھیں۔ علامہ اقبال تک ان کی رسائی بھی ان ہی کی ایک نظم کے ذریعے ہوئی تھی۔ یہ ایک دلچسپ اور تاریخی داستان ہے۔
خورشید بانو لاہور کی تحصیل چونیاں میں پیدا ہوئی تھیں۔ تاریخ پیدائش تو انہیں یاد نہیں لیکن ان کی یادداشت کے مطابق ان کی ولادت 1920ء میں ہوئی تھی۔ ان کا تعلق ایک سیدھے سادے مذہبی گھرانے سے تھا۔ مذہب اس زمانے میں مسلمانوں کی زندگی میں بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔ کیونکہ قریب قریب ہر گھر میں روزہ، نماز اور دیگر عبادات معمولات زندگی کا ایک حصہ تھیں۔ خورشید بانو ان کا پیدائشی نام ہے۔ فلموں میں بھی انہوں نے اسی نام سے کام کیا اور اس زمانے کے رواج کے مطابق ہندوانہ نام رکھنے سے گریز کیا۔ ان کے والد کا نام چراغ دین تھا۔وہ ٹھیکیدار کیاہل مد تھے۔ اس لیے لوگ انہیں منشی چراغ دین کے نام سے پکارتے تھے۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر553پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ان کی عمر چار سال چار ماہ ہوئی تو محلے کی ایک خاتون نے انہیں تعلیم دینی شروع کر دی۔ انہیں نورانی قاعدہ اور پھر عربی زبان کا سبق دیا۔ پانچ سال کی عمر میں انہیں اسکول میں داخل کر دیا گیا۔ وہ تیسری یا چوتھی جماعت میں تھیں جب ان کے والد کا تبادلہ لاہور ہوگیا اور ان کے گھرانے نے بھاٹی گیٹ میں رہائش اختیار کر لی۔ ان کے والد اب کچہری میں کام کرتے تھے جس کا فاصلہ بھاٹی دروازے سے بہت دور نہ تھا۔ پیدل ہی چل کر وہ کچہری چلے جایا کرتے تھے۔
ان کے والد نے تو اپنی سہولت کی خاطر بھاٹی گیٹ میں رہائش اختیار کی تھی لیکن انہیں معلوم نہ تھا کہ یہ سب کچھ اللہ کی جانب سے ہو رہا ہے۔ اگر وہ بھاٹی گیٹ میں رہائش پذیر نہ ہوتے تو شاید خورشید بانو کبھی اداکارہ اور گلوکارہ نہ بنتیں۔ اپنی ابتدائی زندگی کے یہ واقعات انہوں نے ایک انٹرویو میں معروف صحافی یاسین گوریجہ کو بتائے تھے۔ گوریجہ صاحب نے یہ انٹرویو1992ء میں ان سے کراچی جا کر لیا تھا۔ ہوا یہ کہ انور مقصود صاحب نے پی ٹی وی سے اپنا پروگرام سلور جوبلی شروع کیا تو یاسین صاحب نے ایک روز نیرہ نور کو یہ گیت گاتے ہوئے دیکھا اور سنا۔
گھٹا گھنگھور گھور
مور مچاوے شور
مورے سجن آجا۔۔۔آجا
مورے سجن آجا
یہ گانا خورشید بانو نے فلم ’’تان سین‘‘ کے لیے گایا تھا۔ اس فلم میں ان کے گائے ہوئے چھ گانے شامل تھے۔ حالانکہ کے ایل سہگل جیسے مایہ ناز گلوکار اور اداکار بھی اس فلم میں کام کر رہے تھے۔
اس پروگرام میں خورشید بانو بھی بہ نفس نفیس موجود تھیں اور ان کے کلوزاپ بھی گانے کے دوران میں اسکرین پردکھائے گئے تھے۔ خورشید بانو خود اپنا ہی گایا ہوا مقبول نغمہ نیرہ نور کی خوب صورت آواز میں سنتے ہوئے ماضی کے خیالوں میں کوئی ہوئی نظر آتی تھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ نیرہ نور نے بھی اس نغمے کے ساتھ پورا انصاف کیا تھا۔ اسی پروگرام میں نیرہ نور نے خورشید بانو کا گایا ہوا ایک اور گیت بھی سنایا۔
پنچھی باورا
چاند سے پریت لگائے
انور مقصود کے اس ہر دل عزیز پروگرام میں وہ مشہور و معروف ہستیوں کو مدعو کیا کرتے تھے جن کا تعلق مختلف شعبوں سے تھا اور جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں نا قابل فراموش کارکردگی کا مظاہرہ کرکے شہرت دوام حاصل کی تھی۔ اسی پروگرام میں ماضی کے معروف باؤلر اور اوول کے ہیرو فضل محمود صاحب بھی موجود تھے۔ نیرہ نور جب تک خورشید بانو کے گیت سناتی رہیں سننے اور دیکھنے والوں پر ایک سحر انگیز کیفیت طاری رہی۔ خورشید بانو بھی ماضی کے حوالے سے اور نغموں کی خوب صورتی کے باعث خیالوں میں کھوئی ہوئی نظر آرہی تھیں۔
گیت کے خاتمے پر انور مقصود کے اصرار پر خورشید بانو اسٹیج پر تشریف لائیں تو سارا ہال پر جوش تالیوں سے گونج اٹھا۔ ایک نہایت خوب صورت اور باوقار شخصیت ٹیلی وژن کے کیمرے کے سامنے موجود تھی۔ جن لوگوں کو خورشید بانوکی فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا ان کی نگاہوں میں خورشید بانو کی جوانی کے ایام کی تصویر جگمگانے لگی۔ وہ دراز قد، مشرقی ، نقش و نگار کی مالک ایک پر اثر اداکارہ تھیں جن کی شخصیت، آنکھیں اور سنجیدہ تبسم ان کی شخصیت کا نمایاں حصہ تھا۔ جب وہ تمکنت حسن و وقار کے ساتھ اسکرین پر نمودار ہو کر اپنی سیرلی آواز کا جادو جگاتی تھیں تو دیکھنے واور سننے والے دم بہ خود رہ جاتے تھے۔
یاسین گوریجہ صاحب نے بڑے احترام کے ساتھ ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی۔ خورشید بانو کو یہ احساس تھا کہ لاہور کا ایک معتبر صحافی ان سے انٹرویوکا طالب ہے۔ ان دنوں وہ فالج کے ہلکے سے حملے کے باعث صاحب فراش تھیں مگر انہوں نے یاسین صاحب کو ملاقات کا وقت دے دیا۔ آپ کے سامنے ان کی نجی زندگی کے واقعات کے حوالے سے جو معلومات پیش کی جا رہی ہیں وہ خود ان کی بیان کردہ ہیں جو انہوں نے انٹرویو میں یاسین گوریجہ صاحب کو بتائی تھیں۔ یہ داستان خود ان کی زبانی سنئے۔
’’بھاٹی دروازے کے پرائمری گرلز اسکول میں داخل کے بعد مجھے پہلی بار یہ احساس ہوا کہ میری آواز بہت اچھی ہے۔ میں ابھی نو عمر بچی ہی تھی اور موسیقی کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی اسکول میں پڑھائی شروع کرنے سے پہلے بچے دعا پڑھتے تھے ایک بار ٹیچر نے مجھے کلاس میں بلا کر اپنے پاس کھڑا کیا اور بلند آواز میں دعا سنانے کو کہا۔ میں نے
لب پہ آتی ہے دعا بن کر تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری(جاری ہے)
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر555 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں