فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر553
تان سین کو مکمل صحت یاب ہونے میں تین چار ماہ کا عرصہ لگ گیا۔ روپا اور تان سین کی بیٹی سرسوتی نے جی جان سے اس کی تیمارداری اور خدمت کی۔ یہاں تک کہ وہ مکمل ور پر تندرست ہوگیا اور دوبارہ دربار میں حاضری دینے لگا۔ اب اس کی حیثیت مستند ہوچکی تھی۔ اس کے حریفوں نے بھی اس کی برتری تسلیم کر لی تھی اور شہنشاہ تو اس پر پہلے سے زیادہ ناز کرنے لگا تھا۔ تاریخی واقعات میں اس بات کی باقاعدہ وضاحت موجود نہیں ہے کہ تان سین اور روپا نے اس کے بعد شادی کر لی تھی یا نہیں لیکن یہ ایک یقینی امر ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے جیون ساتھی بن گئے ہوں گے۔
فلم ’’تان سین‘‘ میں ان واقعات کو قدرے مختلف انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ تان سین دربار میں دیپک راگ گاتا ہے۔ دیے روشن ہو جاتے ہیں اور اس کی حالت بہت بگڑ جاتی ہے۔ اس کی درخواست پر اسے اس کے گاؤں بھیج دیا جاتا ہے جہاں تانی اس کی یہ حالت دیکھ کر تڑپ اٹھتی ہے۔ تان سین کو کھلے آسمان تلے ایک چارپائی پر لٹا دیا جاتا ہے اور تانی راگ ملہار گاتی ہے۔ خورشید نے یہ گانا بہت خوب صورتی سے گایا تھا جو آج بھی یادگار ہے۔
تان سین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جن دنوں وہ ایک گائیک اور موسیقار کی حیثیت سے ابھر رہا تھا۔ اس وقت ہندوستان کی کلاسیکی موسیقی اپنے عروج پر تھی۔ موسیقی کا ٹھاٹیں مارتا ہوا ایک سمندر تھا جس میں ہر موسیقار ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس وقت کلاسیکی راگوں کی تعداد چار ہزار کے قریب تھی۔ ظاہر ہے کہ ان تمام راگوں پر عبور حاسل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی۔ اس سمندر سے سیراب ہوتا تو ہر کسی کے بس میں نہ تھا۔ ہر ایک اپنی استطاعت کے مطابق قطرے سمیٹ لیتا تھا۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر552پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
تان سین نے ان تمام راگوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد بے شمار راگوں کو بے سود اور غیر ضروری قرار دیا اور صرف چار سو راگ منتخب کیے۔ ایک باقاعدہ ترتیب اور نظام کے تحت ان راگوں کی درجہ بندی کی گئی۔ ان چار سو راگوں میں وہ راگ بھی شامل تھے جو تان سین نے تخلیق کیے تھے اور اس کے بعد کلاسیکی موسیقی کا حصہ بن گئے۔ تان سین نے دھرید راگ بھی ایجاد کیا تھا۔ دراصل یہ دیو تاؤں کی تعریف میں گایا جانے والا راگ تھا۔ تان سین کے بعد دھرید راگ آج بھی موجود ہے۔ ہندو اسے دیوی دیوتاؤں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گاتے ہیں اور مسلمان شہنشاہوں اور تاج داروں کے دربار میں پیش کرتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق تان سین کی دو بیویاں تھیں۔ ان میں سے ایک کا تعلق ہندو گھرانے سے تھا ور دوسری بیوی مسلمان خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ مسلمان بیوی سے متاثر ہو کر تان سین نے بھی اسلام قبول کر لیا اور میاں تان سین کہلایا جسے مسلمان موسیقار استاد اعظم کا درجہ دیتے ہیں۔ تان سین کی اولاد میں چار بیٹے اور ایک بیٹی سرسوتی شامل ہیں۔ سرسوتی کو تان سین نے بذات خود موسیقی اور گائیکی کی تربیت دی تھی۔ تان سین کے بیٹوں کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے اپنے مایہ ناز باپ سے کتنا فیض حاصل کیا تھا مگر موسیقی کی تاریخ میں اس کے کسی بیٹے کا تذکرہ موجود نہیں ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر مقام حاصل نہیں کر سکے تھے۔ البتہ اس کی موسیقی کے ورثے کو دوسروں تک پہنچانے میں اس کے داماد مصری سنگھ کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اس کے دو بیٹے بھی اس کے فن کو دوسروں تک پہنچانے کا ذریعے بنے تھے۔
کچھ ہندو مورخین نے لکھا ہے کہ اکبر نے شاہی خاندان کی ایک شہزادی سے تان سین کی شادی کر دی تھی۔ اس کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ تان سین دربار اکبری سے وابستہ ہونے سے گریز کر رہا تھا اس لیے اسے اپنے دربار کی رونق بنانے کے لیے شہنشاہ نے ایک شہزادی سے اس کی شادی کر دی تھی لیکن یہ ایک ناقابل یقین اور بودی دلیل ہے۔ بھلا کس کی مجال تھی جو شہنشاہ اکبر کے حکم سے سرتابی کرتا اور شہنشاہ کی عزت افزائی کے باعث خوشی سے پھولا نہ سماتا لہٰذا یہ ایک فرضی داستان معلوم ہوتی ہے۔
تان سین نے 26اپریل1586ء کو وفات پائی تھی۔ اس کی تجہیز و تکفین اسلامی طریقے سے کی گئی تھی۔ شہنشاہ اکبر بذات خود جنازے میں شریک ہوا اور اس کے درباریوں نے بھی جوق در جوق جنازے میں شرکت کی۔ جنازے کے ساتھ سازندے ساز بجاتے ہوئے چل رہے تھے۔ یہ ایک عظیم المرتبت موسیقار اور کئی راگوں اور سازوں کے خالق کے لیے ان کی طرف سے عقیدت بھرا نذرانہ تھا۔ تان سین کی وصیت کے مطابق اس کی میت کو گوالیار لے جایا گیا اور وہیں اسے دفن کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ اس کے استاد اور پیر محمد غوث بھی اس موقع پر بہ نفس نفیس موجود تھے۔ تان سین ان کا قابل فخر نامور شاگرد تھا۔ ایسے شاگرد پر وہ کیوں نہ ناز کرتے؟
تان سین کو ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کا باوا آدم اوربے تاج بادشاہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ تان سین نے ہندوستانی موسیقی میں عربی اور فارسی کی آمیزش سے جدت پیدا کر دی۔ موسیقی سے تعلق رکھنے والے گھرانے اس کی موسیقی کو روحانیت کے اعتبار سے بھی باعث تعظیم جانتے ہیں۔
تان سین ایک حقیقی جیتا جاگتا انسان تھا یا ایک افسانوی اور دیو مالائی کردار؟ یہ بجائے خود ایک تحقیق طلب موضوع ہے۔ بھارت میں اس ضمن میں کچھ کام کیا گیا ہے مگر پاکستان میں اس پہلو پر کسی نے توجہ نہیں دی۔
میاں تان سین کی کہانی آپ نے سنی۔ اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا افسانہ؟ یہ جاننے کے لیے ضرورت اس بات کی تھی کہ تقسیم ملک سے پہلے ہی اس شخصیت کے بارے میں تحقیق کی جاتی جبکہ یہاں تان سی کا وجود تاریخی حوالوں سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ تاریخی اکبری میں شہنشاہ کے نورتنوں کے ضمن میں گویے تان سین کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ موسیقی کے حلقوں میں بھی تان سین کو ہمیشہ اچھے الفاظ سے یاد کیاجاتا رہا ہے۔ یہ روایت تو ہم نے اپنے بچپن میں بھی سنی ہے کہ بہت سے موسیقار اور گویے گوالیار جا کر تان سین کی قبر پر لگے ہوئے درخت کے پتے چبا کر سریلے بننے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ گوالیار میں تان سین کی قبر بھی موجود ہے اور اس کے بارے میں مختلف کہانیاں بھی مشہور ہیں اس کے باوجود حیرت کی بات یہ ہے کہ تان سین کے بارے میں کبھی تحقیقی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
فلم ’’تان سین‘‘ میں مرکزی کردار اس زمانے کے نامور اور یکتا گلوکار کے ایل سہگل نے ادا کیا تھا۔ سہگل نے اس کردار کو زندہ جاوید کر دیا۔ اس فلم میں ’’تانی‘‘ کا کردار خورشید بانو نے کیا تھا جو اپنے زمانے کی معروف اداکارہ اور گلوکارہ تھیں۔ اس زمانے میں چند ہی اداکارائیں ایسی تھیں جو گلوکاری بھی کرتی تھیں۔ اس کی بہت زیادہ قدر و منزلت کی جاتی تھی اور انہیں معاوضے بھی دیے جاتے تھے۔ برصغیر کی فلمی تاریخ میں ایسے فن کاروں اور فن کاراؤں کی تعداد بہت کم ہے ۔ ان میں سہگل، پنکج ملک، کانن بالا، منا ڈے (یہ بنگالی فنکار تھے) خورشید بانو، نور جہاں، ثریا، سریندر قابل ذکر ہیں۔ تان سین کا اتنی تفصیل سے ذکر کیا جائے اور اس کی فلمی محبوبہ اور نئی زندگی دینے والی مغنیہ ’’تانی‘‘ کو فراموش کر دیا جائے یہ انصاف سے بعید ہے۔ا س لیے فلم ’’تان سین‘‘ میں ’’تانی‘‘ کا کردار ادا کرنے والی فنکارہ خورشید بانو کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ضروری سمجھا گیا۔
خورشید بانو اپنے زمانے کی مانی ہوئی اداکارہ اور گلوکارہ تھیں۔ انہیں ’’بلبل ہند‘‘ کا خطاب دیا گیاتھا۔ وہ غالباً برصغیر کی پہلی گلوکارہ اور فن کارہ تھیں جنہیں موسیقی اور گلوکاری میں نمایاں حیثیت کی وجہ سے ’’بلبل ہند‘‘ کا خطاب ملا تھا۔ انہوں نے اپنی سریلی آواز اور فطری بے ساختہ اداکاری کے حوالے سے بہت نام پیدا کیا اور کئی سال تک فلمی دنیا پر راج کرتی رہیں۔
فلم ’’تان سین‘‘ 1943ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس وقت خورشید بانو اپنے عروج پرتھیں ۔ ہماری عمر اس وقت صرف دس سال کی تھی مگر فلم بینی کے شوق اور اچھی موسیقی سے دلچسپی کے باعث ہم نے بہت ضد کرکے یہ فلم بھوپال ٹاکیز میں دیکھی تھی اور زنانہ کمپارٹمنٹ میں خواتین کے ہمراہ دیکھی تھی۔ یہ خواتین فلم کے مختلف حصوں میں غمگین ہوتی رہیں۔ کبھی کبھی سسکیوں کی آوازیں بھی آجاتی تھیں۔ تان سین کے جسم پر آبلے پڑے تو خواتین بے اختیار رونے لگیں۔ جب تانی نے راگ ملہار شروع کیا تو انہوں نے دعائیں مانگنی شروع کر دیں کہ یا اللہ تان سین کو صحت مند کر دے۔ ان دل گداز مناظر سے ہم بھی بہت متاثر ہو رہے تھے اور ہمہ تن فلم میں کھوئے ہوئے تھے یہاں تک کہ فلم کے خوش گوار انجام نے ہم سب کو خوش کر دیا اور خواتین رشتے داروں کے ساتھ ہم بھی خوشی خوشی سینما سے واپس گھر آگئے۔ خواتین نے حسب معمول فلم کی کہانی لفظ بہ لفظ نہایت تفصیل کے ساتھ ان خواتین کو سنانی شروع کر دی جو کہ فلم دیکھنے سے محروم رہ گئی تھیں۔ ہمارے بچپن میں یہ ایک معمول بن گیا تھا کہ جو خاتون فلم دیکھ کر آتی تھیں وہ اس کی کہانی حرف بہ حرف تمام تفصیلات اور اپنے تاثر و جذبات کے ساتھ دوسروں کو ضرور سناتی تھیں۔ وجہ یہ تھی کہ سینما گھر جا کر فلم دیکھنے کی اجازت ہر ایک کو نہیں ملتی تھی اس لیے وہ ان خوش قسمت خواتین کی زبانی فلم کی کہانی سن کر لطف اندوز ہوتی تھیں۔
فلم ’’تان سین‘‘ ہمیں بھی انتہائی خوب صورت اور پر لگی تھی۔ دربار اکبری کے شان و شکوہ اور تان سین کے گیتوں نے ہمیں کافی عرصے تک اپنے سحر میں جکڑے رکھا بلکہ آج بھی ہم ان گیتوں کو فراموش نہیں کر سکے ہیں۔ تانی کے حسن وجمال اور سریلی آواز نے بھی ہمارے دل و دماغ پر گہرا اثر کیا تھا۔ کئی روز تک ہم ’’تان سین‘‘ کے جادو میں کھوئے رہے۔ تان سین، تانی اور اکبر ہمارے خوابوں میں آتے ہرے۔ چند سال کے بعد جب ہم میرٹھ چلے گئے اور اپنی بہن سے ملنے کے لیے اکثر دہلی جانے لگے تو دوبارہ فلم تان سین دیکھنے کا موقع ملا اور اس بار ہم اس فلم کو دیکھ کر پہلے سے بھی زیادہ متاثر ہوئے۔ ’’تان سین‘‘ کے نغمے آج بھی ہمارے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ اس فلم کے ریکارڈ ہم نے پاکستان آنے کے بعد حاصل کیے تھے پھر کیسٹ کا زمانہ آیا تو کیسٹ بھی تلاش کر لیے۔ سہگل اور خورشید بانو کے گانوں نیایک زمانے کو اپنا گرویدہ کر لیا تھا۔ جن کی مثال آج بھی پیش نہیں کی جا سکتی۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)