اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ دوسروں کو الٹی سیدھی پٹیاں بہت اچھی پڑھا سکتے ہیں تو ضروری نہیں کہ تدریسی معاملات میں بھی اسی طرح ٹانگ اڑائی جائے،اس بدعت سے بہر حال گریز برتنا چاہئے کہ کسی بھی شعبہ مضمون کو پڑھانے کے لئے اس پہ عبور ہونا لازم ہے،مگر کیا ہے کہ اسی شعبہ کے لئے ہر کوئی خود کو موزوں ترین سمجھتا ہے، جس کی وہ الف ب سے بھی واقف نہیں ہوتا۔ شعبہ تدریس میں ایسے ایسے اساتذہ دیکھے ہیں جنہیں طفل مکتب بھی نہیں کہا جا سکتا، لیکن وہ ہیں کہ استادی دکھائے جارہے ہیں۔ پرائیویٹ سکولوں میں میٹرک فیل بچیاں نہم، دہم کلاس کے طالبعلموں پہ مسلط ہیں۔ بات اگر معاشرتی علوم پڑھانے تک رہتی تو پھر بھی ہضم ہوجاتی، لیکن غضب خدا کا کہ وہ ریاضی اور انگلش بھی پورے اعتماد کے ساتھ پڑھاتی ہیں لہٰذا نتیجہ وہی ہے جو بورڈ کے نتائج میں نکلتا ہے۔
یونیورسٹی لیول پہ ایسے اساتذہ سے بھی واسطہ پڑا ہے کہ لگتا ہے انہیں طلبا کو گالیاں سکھانے کے لئے تعینات کیا گیا ہے۔ طالبات کی موجودگی میں پروفیسر صاحب ایسی ایسی فحش گالیاں دیتے ہیں کہ سن کر لڑکیاں غش کھاتی ہیں اور لڑکے اش اش کرتے ہیں۔
پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی اپنی مجبوریاں ہیں کہ انہیں اپنا کامیاب بزنس چلانے کے لئے ماہانہ چند ہزار روپے ہی میں ملازم بھرتی کرنے ہوتے ہیں اور اب محکمہ تعلیم والوں پہ پڑی افتاد کی وجہ بھی سن لیں۔ ان بیچاروں کی مجبوری یہ ہے کہ اساتذہ کی تعیناتی کے لیئے پہلے ہی سے ”سیٹ ایڈجسٹمنٹ“ ہو چکی ہوتی ہے۔ ”ہون دسو چڑی وچاری کی کرے“۔ تعلیمی اداروں میں جب ایسے ضرورت مند مسلط ہوں تو پھر کوئی آئن سٹائن تو بن کر نکلنے سے رہا۔ ایسے مجبور اور بے بس اداروں سے فارغ التحصیل طالب علم گھوسٹ ملازمین ہی بنیں گے۔
دینی مدارس کی حالت تو اس سے بھی گئی گذری ہے۔ دنیاوی کی طرح دینی علم کی بھاگ دوڑ بھی ضرورت مندوں نے سنبھال رکھی ہے، بلکہ دبوچی ہوئی ہے۔
یہاں زیادہ تر اساتذہ سنی سنائی باتیں پھیلاتے ہیں، جہاں سنی سنائی بھی یاد نہ آئے وہاں موقع پر خود سے گھڑ لیتے ہیں۔ عام طور پہ مولوی کی مذہبی معلومات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ اسے اتنا ہی پتہ ہے جتنا اس نے سن رکھا ہے۔اکثر مولوی سینہ بہ سینہ چلتی روایات سے کام چلاتے ہیں۔ پڑھنے یا تحقیق کرنے کی جستجو ان میں نہیں ہوتی۔ ان کے خیال میں یہ کام ان کا نہیں۔ جب علم ادھورا ہو تو پھر وہ لوگوں میں تفرقہ بازی اور خوف کے سوا کیا بانٹ سکیں گے۔
ستم تو یہ ہے کہ بیشتر مدارس کے اساتذہ قرآن پاک کے صحیح تلفظ تک نہیں ادا کرنا جانتے ہوتے، جو چند ایک جانتے ہیں وہ بھی طالب علموں کو حروف کی درست ادائیگی کم ہی سکھاتے ہیں۔ بس چابک ہاتھ میں پکڑے قرآن کا رٹا لگواتے ہیں اور ہر معاملے میں شریعت لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ شرعی داڑھی رکھیں، شرعی کپڑے پہنیں۔ سپارہ پڑھنے کے لئے مسجد میں جانے والے پینٹ میں ملبوس بچوں کو مولوی صاحب گھر بھیج دیتے ہیں، کہ شلوار پہن کر آؤ۔ ہمارے ہاں کے مولوی کو بس یہ پتہ ہے کہ شلوار پہنے بغیر قرآن پڑھتے ہیں نہ نماز۔ اسے شاید یہ نہیں معلوم کہ پینٹ پہن کر نماز قرآن پڑھ لیا جائے تو گناہ ہرگز نہیں ہوتا۔ انہیں لگتا ہے مذہب میں ساری شریعت شلوار قمیض اور داڑھی میں ہے، جہاں شرعی سوال پوچھو تو ان کا سارا علم تیل لینے چلا جاتا ہے۔بعض تو منبر پہ بیٹھ کے ایسے ایسے واقعات بتاتے ہیں کہ سر پیٹ لینے کو دِل کرتا ہے، اپنا نہیں ان کا۔
حال ہی میں ایک دوست نے مجھے ایک واٹس اپ گروپ میں ایڈ کیا ہے۔ اس گروپ کی ایڈمن مدرسے کی معلمہ ہے۔ وہ جو سبق مدرسے میں طالبات کو پڑھاتی ہیں وہ واٹس اپ گروپ میں شیئر کر دیتی ہیں۔ ان کے پڑھانے کے انداز پر تو سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے، لیکن تفسیر پر نہیں۔ ترجمہ تو مترجم والا حرف بہ حرف پڑھ لیتی ہیں، لیکن تفسیر کے وقت الجھ کے رہ جاتی ہیں۔ بعض جگہوں پہ تو انہیں خود سمجھ نہیں آتی کہ وہ کہنا کیا چاہ رہی ہیں۔ موصوفہ پورے اعتماد کے ساتھ جو منہ میں آئے بولے چلے جاتی ہیں۔ جی میں آتا ہے انہیں کہوں بی بی تفسیر کے ساتھ مذاق کرنے سے بہتر ہے کہ آپ کسی اچھے مفسر کی کتب خرید لیں۔
وضاحت طلب باتوں کو اختصار بخشتی ہیں اور مختصر بات جیسا کہ گلاس ٹوٹنے پہ صبر کیسے کرنا اس پہ گھنٹوں سیر حاصل گفتگو فرماتی ہیں۔ نماز کی تفسیر بیان کرتے وقت وہ اس میں شلجم اور ساگ کو گھسیڑ لیتی ہیں اور انہی سبزیوں کو ہضم کرتے نماز ختم ہوجاتی ہے۔ ایک دن سورہئ فتح کی تفسیر بیان کر رہی تھیں کہ ایک طالبہ نے سوال اٹھایا۔ باجی قربانی تو حج میں ہوتی ہے تو صلح حدیبیہ میں عمرہ کے احرام کھول کر صحابہ نے قربانی کیوں کی۔ طالبہ کو تسلی بخش جواب دینے کی بجائے موصوفہ نے قرآن کی وہی آئیت دوبارہ پڑھی اور کہنے لگیں دیکھیں یہ لکھا ہوا ہے نا کہ انہوں نے احرام کھول کے قربانی کی اور جھٹ اگلی آیت پہ چلی گئی۔ لوگوں نے تدریس کو مذاق بنا رکھا ہے، جو بولنا جانتا ہے وہ خود کو استاد سمجھتا ہے۔ افسوس ادھوری معلومات پھیلا کر دین اور دنیا دونوں سے مذاق کیا جارہا ہے۔