ایک اور فیصلہ آ گیا،ایک اور سابق وزیراعظم کو سزا ہو گئی۔فرق صرف اتنا ہے کہ اس سے پہلے سزا پانے والے وزرائے اعظم کو تنہا سزا دی گئی تھی،یہ سزا عمران خان کو اہلیہ بشریٰ بی بی کے ساتھ دی گئی ہے۔ فیصلے کے بعد عالمی میڈیا پر سارا دن یہ خبر چلتی رہی۔پاکستان میں عدالتی سزاؤں پر تبصرے کیے گئے۔اتنی بڑی بڑی سزائیں اتنی آسانی سے سنا دی جاتی ہیں اور پھر اگلی عدالت میں معطل ہو جاتی ہیں یہ ایک کھیل ہے جو ٓج سے نہیں کئی دہائیوں سے لگا ہوا ہے،کسی نے کیا سچ کہا ہے پاکستان میں آپ نے اگر وزیراعظم بننا ہے تو پھر جیل جانے کے لئے بھی تیار رہیں۔ جیل نہیں جانا چاہتے تو ملک سے بھاگ جائیں وگرنہ دھر لئے جائیں گے۔بعض لوگ کہتے ہیں شکر کرو ذوالفقار علی بھٹو سب کا کفارہ ادا کرگئے،ایک بڑی سزا پا کر دنیا سے چلے گئے۔اُن کے بعد سزائیں عمر قید یا14 سال تک رہ گئی ہیں،پیا من بھا جائیں تو سزائیں ختم بھی ہو جاتی ہیں،سب کچھ سوائے قید کے ماہ و سال کے واپس بھی مل جاتا ہے۔ صاحبو!ستر کی دہائی سے سیاست میں حصہ لینے اور پھر سیاست کے مدو جزر دیکھنے ان پر لکھنے کے بعد بھی یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی ایسا ہوتا کیوں ہے، کیوں وزیراعظم کو گھر بھیجنا پڑتا ہے اور پھر اُسی پر اکتفا نہیں کیا جاتا اسے گھر سے اُٹھا کر جیل میں بھی ڈالنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو،نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، سید یوسف رضا گیلانی کس کس کا نام لیا جائے۔ہاں یہ ضرور ہے عمران خان ان سب سے منفرد مقام پا گئے ہیں۔اُن پر دو سو سے زائد مقدمات درج ہو چکے ہیں ایک کی سزا معطل ہوتی ہے تو دوسرا مقدمہ تیار ہوتا ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے وزرائے اعظم کے ساتھ یہ سب کچھ کوئی غیر معمولی بات نہیں تو وہ لگتا ہے کافی: سمجھدار: ہے۔ اس ملک میں اقتدار صرف وزیراعظم کے پاس تو نہیں ہوتا اس میں تو کئی حصہ دار ہوتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ بذات خود ایک بڑی حصہ داری کا استحقاق رکھتی ہے۔پھر یہ کیوں ہوتا ہے کہ جیل میں صرف وزیراعظم کو ڈالا جاتا ہے، سب سے پہلے اِس سوال کو نواز شریف نے پوری شدت سے اٹھایا تھا۔وہ یہ سوال نہ اٹھاتے تو دوسری بار بھی اقتدار سے محروم نہ کئے جاتے۔ سیاستدانوں کو یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اُن کے ساتھ ہوتا کیا رہا ہے۔ آج جو کہہ رہے ہیں عمران خان کی کرپشن ثابت ہو گئی انصاف کا بول بالا ہو گیا۔وہ ذرا ماضی میں دیکھیں،اسی قسم کا انصاف جب نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہوا تھا تو اُن کے مخالفین بھی یہی کہہ رہے تھے، سوائے ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی گئی،موت کی سزا پر عملدرآمد کے اس ملک میں سابق وزرائے اعظم کی کن سزاؤں پر مکمل عمل ہوا ہے۔ سب کو رہائی ملتی رہی اور اگلے ہدف کی طرف رُخ کیا جاتا رہا۔عقل والوں کے لئے نشانیاں تو ہمیشہ رہی ہیں مگر ہمارے سیاستدان عقل کو مستقل طور پر دیس نکالا دے چکے ہیں وہ دشمن کے مرنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں یہ نہیں سوچتے ایک دن سجنا نے وی مر جانا ہے۔
ایک ہی کہانی کو اتنی بار دہرانے کی مثال تو شاید دنیا میں کہیں نہ ملتی ہو۔صرف کرداروں کے نام بدل جاتے ہیں واقعات وہی رہتے ہیں۔آج عمران خان زد میں ہیں تو کون جانے کل کون ہدف بنتا ہے۔سوائے کرپشن کے ہمارے وزرائے اعظم کو شاید اور کسی بات کی سوجھتی نہیں۔ کم از کم تاریخ تو یہی بتاتی ہے۔تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ سرے محل،ایون فیلڈ اور سوئس اکاؤنٹس ایک مرتبہ تو کوہ ہمالیہ بنائے جاتے ہیں، لیکن پھر انہیں ریت کا گھروندہ بنا کر مسمارکر دیا جاتا ہے۔آج کے یہ کیسز جن کا نام توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ ہے،تاریخ میں کیا مقام پاتے ہیں اس کے لئے ہمیں کچھ انتظار کرنا پڑے گا،اس کھیل میں ملک کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا ہے،جمہوریت کی جو درگت بنائی جاتی رہی ہے، معیشت کے ساتھ جو کھلواڑ ہوتا رہا ہے،اس پر ہمیں غور کرنے کی فرصت نہیں،جنہیں اقتدار مل جاتا ہے وہ نہال ہو جاتے ہیں۔یہ نہیں سوچتے وہ بھی اب لائن میں لگ گئے ہیں باری کا انتظار کر رہے ہیں بہت سے دائروں کی طرح ہم اس دائرے میں بھی مقید ہیں،مسلسل گھوم رہے ہیں،کئی دہائیوں تک ایک ہی سکرپٹ کے تحت نظام کو چلایا جائے تو جمود کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔قومیں اس طرح آگے نہیں بڑھتیں،نظام کو مضبوط کرتی ہیں اور مضبوط نظام خودبخود اُن کی تمام خرابیوں کا علاج ثابت ہوتا ہے،جن کے نام پر ہم ہر بار سرجری کرتے ہیں اور زخم مندمل ہونے کی بجائے کچھ مزید گہرے ہو جاتے ہیں اب اس فیصلے کے خلاف بھی اپیل ہو گی۔دوسرے کیسوں کی طرح اِس مقدمے میں بھی ریلیف مل سکتا ہے،مگر سوال یہ ہے اس کھینچا تانی میں ملک کے اندر جو عدم استحکام آتا ہے، سیاسی بے چینی بڑھتی ہے،اس کے نتیجے میں معیشت دباؤ میں آتی ہے اور بیرونی سرمایہ کاری رُک جاتی ہے،اس کا ازالہ کیسے ہو گا۔
سیاستدان سزاؤں سے ختم نہیں ہوتے۔ایسا ہوتا تو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ملنے کے بعد اُن کا نام بھی ختم ہو گیا ہوتا۔سیاست دانوں کو صرف عو ام اوپر لاتے اور وہی انہیں نظروں سے گرا کے مٹا سکتے ہیں، نواز شریف تین بار اس لئے وزیراعظم بنے کہ عوام کے دِلوں میں اُن کی جگہ موجود تھی۔ بے نظیر بھٹو بھی بار بار وزیراعظم اسی وجہ سے بنتی رہیں وگرنہ یہ تو سب کو یاد ہی ہو گا کہ اُن کو نکالنے کے بعد مٹھائیاں بھی تقسیم کرائی جاتی تھیں،مگر اُن کے بغیر سیاسی خلاء بھی پورا نہیں ہوتا تھا۔عمران خان بھی ایک ایسا ہی کردار ہیں دو سال سے جیل میں ہیں،مگر سیاست اُن کے گرد گھوم رہی ہے۔اب انہیں 14 سال کی سزا ہو گی، تو کیا اس کے بعد سیاست میں اُن کا کردار ختم ہو گیا ہے؟اس کے برعکس سیاسی بے یقینی اور بے چینی مزید بڑھ گئی ہے۔ اعلیٰ عدالتیں اس سزا کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہیں،اس کے لئے تو انتظار کرنا پڑے گا تاہم مفاہمت کی وہ اُمید جو کچھ ہفتہ پہلے مذاکرات کی وجہ سے پروان چڑھی تھی دم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔ گویا ہم نے بے یقینی کا نیا روزن کھول دیا ہے۔کل پی ٹی آئی کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ مذاکرات ختم کر دیئے گئے ہیں اور ایک بار پھر اسلام آباد کی طرف مارچ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔26 نومبر کی تلخ یادیں ابھی ہمارا پیچھا کر رہی ہیں، کیا ہم کسی اور ایسے سانحے کو برداشت کر سکتے ہیں آج کے منظر نامے میں جو چیز سب سے زیادہ ناپید نظر آ رہی ہے وہ ہم آہنگی کی فضاء ہے اس فضاء کو جنم دینے کے لئے کسی کو ایک قدم پیچھے اور کسی کو ایک قدم آگے بڑھانا پڑتا ہے تو اس میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ ملک کو سیاسی بحران اور بے یقینی سے نکالنے کے لئے، سیاسی بصیرت اور جرائت سے کام لینے کی ضرورت ہے،جہاں مرہم کی ضرورت ہے،وہاں آپ چیرہ لگائیں گے تو تکلیف بڑھے گی کم نہیں ہو گی۔
٭٭٭٭٭