کیف/ واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن) عالمی رہنما ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد ان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن یوکرین اس معاملے میں سب سے آگے ہے۔ سی این این کے مطابق یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے نئے سال کی تقریر میں کہا کہ انہیں یقین ہے کہ نئے امریکی صدر "امن قائم کرنے اور پیوٹن کی جارحیت ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔"
زیلنسکی نے حالیہ دنوں میں ایک امریکی پوڈکاسٹر کو بتایا کہ ٹرمپ کملا ہیرس سے زیادہ طاقتور امیدوار تھے اور انہوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر اس عہدے کے اہل ہیں۔ یوکرین کی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے نومبر میں ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے بھی نامزد کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق یہ حکمت عملی زیلنسکی کے لیے نئی نہیں ہے۔ 2019 میں ایک بدنامِ زمانہ کال کے دوران زیلنسکی نے ٹرمپ کو "ایک عظیم استاد" کہا تھا۔ ٹرمپ نے زیلنسکی سے جو بائیڈن اور ان کے بیٹے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
یوکرین کے لیے موجودہ حالات انتہائی اہم ہیں۔ روس کے خلاف جنگ میں یوکرینی افواج مشرق میں مشکلات کا شکار ہیں، جہاں روسی افواج کی تعداد زیادہ ہے۔ صدر جو بائیڈن کے تحت امریکہ یوکرین کو سب سے زیادہ فوجی امداد فراہم کرنے والا ملک تھا لیکن یوکرین کو اب ٹرمپ کی حمایت حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
سی این این کے مطابق زیلنسکی نے ٹرمپ کی کاروباری سوچ کو اپیل کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ اکتوبر میں پیش کردہ "وِکٹری پلان" میں یوکرین نے امریکہ کے ساتھ معدنیات کے ایک اہم معاہدے کی پیشکش کی جو کہ اقتصادی فوائد کی ضمانت دے سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زیلنسکی کا یہ طرزِ عمل ان کی مجبوریوں کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ یوکرین کو امریکی حمایت کے بغیر روس کے خلاف جنگ میں مزید نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔