بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ آزادی کے بعد بھارت کے حصے میں آنے والے علاقوں میں کوئی ایسا علاقہ بھی ہے جو آبادی اور رقبے کے لحاظ سے اقوامِ متحدہ کے بہت سے ممبر ممالک سے بڑا ہے اور جہاں مسلمانوں کی بہت واضح اکثریت ہے۔ اس علاقے کی زیادہ تر زمینیں بھی مسلمانوں کی ملکیت ہیں اور یہاں مسلمانوں کا آج تک بھی اسی طرح زور ہے، جیسے کبھی گئے وقتوں میں پورے ہندوستان میں تھا۔ جی ہاں اس علاقے کا نام ہے میوات اور اس میں آباد مسلم اکثریت میو را جپوتوں کی ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے، جسے ہندونفرت سے ’’منی پاکستان‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے بعد بھارت میں یہ واحد اور یوپی میں منقسم ہے ۔ اس تقسیم کی واحد وجہ میو راجپوتوں کی وحدت کو توڑنے کی سوچ ہے۔ پہلے انگریز نے اس علاقے کو مختلف صوبوں اور ریاستوں میں تقسیم کیا تاکہ متحدہ میوات کی حریت پسندی کا تدارک کرسکے۔ اب ہندو اسے چار انتظامی یونٹس میں بکھیرے ہوئے ہیں تاکہ متحدہ میوات میں مسلمان وزیر اعلیٰ یا مسلم اکثریتی کابینہ کا خطرہ باقی نہ رہے۔ ایک سروے کے مطابق، جس کا ہندو لکھاریوں نے اپنی تحریروں میں حوالہ دیا ہے، میوات کے ہزاروں دیہات میں 2003ء میں میوؤں کی آبادی جو جغرافیائی طور پر متحد ہے، ایک کروڑ سے زیادہ تھی۔ یہ بات 2003ء کی ہے، آج یہ آبادی یقیناًاس سے کہیں زیادہ ہے۔ ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے دیگر لاکھوں میو اس تعداد کے علاوہ ہیں۔ دہلی، گوڑگاؤں ، نوح ، پلول، فرید آباد، بلب گڑھ، ہوڈل، الور، بھرتیور، دھولپور، متھر اور ریواڑی کے اضلاع پر مشتمل یہ علاقہ میوات اپنا ایک خاص تاریخی و ثقافتی پس منظر رکھتا ہے۔ تقسیم کے وقت ہونے والے ہنگاموں کے نتیجے میں لاکھوں میو پاکستان ہجرت کر آئے اور باقی نے اپنے آبائی علاقوں میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔
آج ستر برس بعد یہ مسلم اکثریتی علاقہ ایک نئے بحران سے دوچار ہے اور اس بحران کے پیچھے کار فرما ہے مسلمانوں سے تعصب اور نفرت کی ہندو سوچ۔ سال ہا سال سے اس علاقے کی نمائندگی راجستھان اور ہریانہ کی اسمبلیوں میں میو ہی کرتے رہے ہیں۔ کچھ ایسی میو شخصیات بھی گزری ہیں جو اپنی صلاحیتوں کے بل پر لوک سبھا کے ممبر بھی منتخب ہوئیں اور بھارت کی مرکزی کابینہ میں بھی رہے، جبکہ راجستھان اور ہریانہ کی صوبائی کابینہ میں تو اکثر میو نمائندگی رہی ہیں، پچھلے چند برس سے برسر اقتدار مودی کی متعصب ہندو نواز حکومت کو کب یہ گوارہ ہو سکتا تھا کہ بھارت کے دارالحکومت سے متصل اتنی بڑی میو آبادی بالا دست بن کر اپنے علاقے پر قابض رہے۔ مودی حکومت نے آتے ہی میوات میں سیکیورٹی فورسز کی تعداد میں اضافہ کیا۔ مقامی ہندوؤں کو اکسایا اور میوؤں سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی ، پھر مسلمانوں کی نسل کشی کے اپنے گھناؤنے ایجنڈے پر میوات میں بھی کام شروع کردیا ۔ اس ایجنڈے پر مودی سے بھی پہلے راجستھان میں برسر اقتدار بی جے پی کی صوبائی حکومت کام شروع کئے ہوئے تھی۔ اس ضمن میں پہلا واقعہ ستمبر 2001ء میں گوپال گڑھ ضلع بھرتپور میں رونما ہوا ، جب صوبائی حکومت اور پولیس کی شہ پر ہندو گوجروں نے گوپال گڑھ قصبے کی قدیم مسجد پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ میوؤں نے مزاحمت کی تو جدید اسلحہ سے لیس پولیس نے فائرنگ کرکے 9 میوشہید کردیئے، اس واقعے میں 23 میوشدید زخمی ہوئے۔ نہتے مسلمانوں پر بلاوجہ فائرنگ کے کسی ملزم کو آج تک کوئی سزانہیں مل سکی۔
مودی نے اقتدار سنبھالتے ہی میوات میں نئی فوجی چھاؤنیوں کی تعمیر شروع کی اور میوؤں کے بلاوجہ قتل کے واقعات تسلسل سے ہونے لگے، مگر پچھلے سال عید قربان سے پہلے ہونے والے ایک بہیمانہ واقعے نے سارے بھارت کے مسلمانوں کو دہشت زدہ کردیا۔ ضلع نوح کے قصبے تاؤڑو کے نزدیک واقع میو گاؤں میں ہندو غنڈے ایک میو کے گھر میں گھس گئے اور تمام گھر والوں کے سامنے ان کی دو جوان لڑکیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور گھر کے سربراہ اور دو خواتین کو مزاحمت پر گولی مار کر قتل کردیا۔ میوؤں نے قانونی کارروائی کو تسلی بخش نہ پاکر احتجاج کیا تو گائے کے گوشت کی بریانی بیچنے کے جھوٹے الزام میں بہت سی جگہوں پر مقدمات درج کرکے میوات کے مسلمانوں کو اس قدر ہراساں کیا گیا کہ پچھلے سال عید قربان پر ماسوائے چند لوگوں کے کسی کو قربانی کی جرأت نہ ہوئی۔ ستم یہ کہ میو خواتین کے قتل و زیادتی کے مقدمے میں سابق وزیر داخلہ اندر جیت سنگھ نے ذاتی مداخلت کرکے ملزمان کے خلاف ہونے والی تفتیش کو متاثر کرنے کی بھی بھرپور کوششیں کیں، جس سے میوات کے طول و عرض میں شدید انتقامی لہر اٹھی اور موضع کو لانی میں میوؤں نے سرعام درجنوں گائیں ذبح کرکے ہندوؤں کے متعصب ٹولے کو چیلنج کیا اور تاؤڑو میں زیادتی کیس کے مرکزی ملزم کے والد کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ اسی دوران ضلع نوح کے میو دیہات پر چھاؤنی کے لئے زمین حاصل کرنے کے بہانے سے قبضہ کرنے کی ناکام کوشش بھی کی گئی۔ ابھی ان واقعات کی بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ چند روز پہلے چلتی ٹرین میں تین میو بھائیوں پر گائے کا گوشت رکھنے کا الزام لگا کر چھریوں سے حملہ کیا گیا۔ اس حملے میں سولہ سالہ حافظ جنید میو شہید اور اس کے دو بھائی زخمی ہوگئے۔
حالات یہ ہیں کہ اس وقت ہندوستانی مسلمان دنیا کی مظلوم ترین قوم ہیں جن کا نہ کوئی بیرونی سہارا ہے، نہ اندرونی محافظ۔ جب میوات جیسے علاقے میں، جو جنگجو میوؤں کا علاقہ ہے، یہ حال ہے تو بقیہ جگہوں پر جہاں مسلمان ہیں ہی کمزور اقلیت، کیا حال ہو سکتا ہے۔ آئے دن ہندو مسلم فساد کے بہانے مسلمانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ مال و دولت لوٹ کر عزت آبرو کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور مسلمان ’’ نہ پائے رفتن نہ پائے ماندن ‘‘ کے مصداق مظلومیت کی زندہ تصویر بنے زندگی کے دن پورے کررہے ہیں۔ ان مظلوموں کی اُداس آنکھوں میں کتنے ہی سوال ہیں، جو جواب طلب ہیں۔ کتنے ہی شکوے ہیں، جو سرحد کے اس پار ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ ہمیں احساس ہی نہیں کہ محض چند میل دور ہمارے بھائی کس کرب میں مبتلا ہیں اور ہمارے ذمے ان کے حوالے سے کیا ذمہ داریاں ہیں؟ وہ علاقہ میوات جو پاکستان بھارت میچ کے بعد ہر بار میدان جنگ بن جاتا ہے اور جہاں کے باشندوں کی پاکستان سے محبت کی وجہ سے اس کا نام ہی منی پاکستان پڑ گیا ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت جانتی ہی نہیں کہ اس نام کا بھی کوئی علاقہ ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہم کتنی جلدی اپنے ان بھائیوں کو بھول گئے ہیں جن کا خون بھی اس ملک کی بنیادوں میں شامل ہے، جو پاکستان میں شامل علاقوں کے مسلمانوں سے زیادہ پاکستانی تھے۔ ہم نے بالکل فراموش کردیا ہے کہ مسلم دور اقتدار کی تمام تاریخی اور تہذیبی نشانیاں بھی ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ بھارت تو دشمن ہے، اس کا مفاد اسی میں ہے کہ بھارتی مسلمان پاکستان کے لوگوں سے بالکل لاتعلق ہو جائیں۔ رشتے ناطے کرنا بند کریں، تاکہ انہیں یہ احساس رہے کہ اب وہ بے سہارا ہیں، کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا۔ بدقسمتی دیکھئے کہ اس مقصد میں بھارت کامیاب بھی ہو رہا ہے۔
بھارت کے ان علاقوں میں جہاں مسلمان کم تعداد میں ہیں، وہ صرف نام کے مسلمان بنتے جارہے ہیں۔ ان کا رہن سہن، وضع قطع سب ہندو وانہ ہوتی جارہی ہے، مگر ہمیں کیا ہوا ہے۔ ہم کیوں نہیں سوچتے کہ بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے ہماری بہر حال کوئی ذمہ داری بنتی ہے۔ تحریک پاکستان کے قائدین نے ان سے کچھ وعدے کئے تھے۔ ان وعدوں کی پاسداری ہماری ذمہ داری ہے۔ بھارت ہمیں ویزہ نہ دے تو بات سمجھ میں آتی ہے، مگر ہم بھارتی مسلمانوں کے لئے اپنی ویزہ پالیسی کو نرم کیوں نہیں کرتے؟ کیوں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں کو، طلباء کو دانشوروں کو سرکاری سطح پر مدعو نہیں کیا جاتا۔ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کو سفارتی وبین الاقوامی سطح پر اٹھانے سے ہمیں کون سی قوت روک رہی ہے؟ آزادی کے وقت پوری دنیا کا خیال تھا کہ پاکستان ایک ایسا پروگریسو اسلامی ملک ہوگا جو برصغیر کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہوگا، جس میں ذات پات اور چھوت چھات کے تعصب کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی، جبکہ بھارت کے بارے میں عالمی نقطہ نظریہ تھا کہ اس کے تعصبات اور ذات پات کا نظام ہی اسے لے ڈوبے گا۔ بدقسمتی دیکھیں کہ بھارت کے بارے میں کی گئی پیشین گوئیاں اپنی جگہ، مگر تعصبات کے لحاظ سے ہم بھی ابھی تک متحدہ برصغیر کے دور میں ہی جی رہے ہیں۔ ہمارے گروہی ونسلی اور مسلکی اختلافات نے ہمیں اس قابل چھوڑا ہی نہیں کہ ہم اس سمت میں سفر کرسکیں، جس سمت کا تعین ہمارے عظیم قائدنے کیا تھا۔ ایسا پاکستان جو اسلام کا قلعہ اور اُمت مسلمہ کا رہبر تھا۔ اس سے بڑھ کر بھی کوئی بدقسمتی ہوگی کہ قائد اعظمؒ جیسے ایماندار رہنما کے بنائے پاکستان میں ایوب خان کے دور سے اب تک حکمران قومی دولت کو ذاتی خواہشات کے لئے خرچ کرنے اور اپنی اولادوں کے لئے جمع کرنے میں مصروف ہیں۔یہ بات کسی شخص کو بھی سمجھ کیوں نہیں آتی کہ حکمرانوں کے لئے رعایا بھی اولاد سے کم اہم نہیں ہوتی۔۔۔ کوئی محرومی سی محرومی ہے۔