یہ کام خطرناک تھا، گھوڑے اجنبی کو دیکھ کر بدک سکتے تھے اور ان کی ہنہناہٹ کی آواز پر دونوں ہسپانوی جاگ کر عذرا کے لئے موت کا فرشتہ بن سکتے تھے۔ میں ایک ہسپانوی سے عذر اکی جان بچاسکتا تھا لیکن دوسرا اس پر وار کرسکتا تھا۔ اس کے باوجود عذرا کی تجویز قابل غور تھی۔ اگر میں اسے ساتھ لے کر نکل بھی جاتا تو دن نکلنے پر ہسپانوی ہمارے قدموں کے نشان لیتے ہم تک پہنچ جاتے، پھر ان ٹیکریوں میں گھنے جنگل بھی نہیں تھے بس کہیں کہیں سرو اور ایلوا کے درختوں کے جھنڈ کھڑے تھے۔ تیسری بات یہ تھی کہ میں اس علاقے سے ناواقف تھا۔ عذرا کی زبانی مجھے اتنا معلوم ہوگیا تھا کہ ہم اندلس کے جنوبی ساحل پر ملاکا کی بندرگاہ سے کچھ ہی فاصلے پر تھے۔ عذرا سے میں اس سے زیادہ نہیں پوچھ سکتا تھا۔ آخر میں اسی نتیجے پر پہنچا کہ مجھے گھوڑے کھولنے کی خطرناک غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ میں نے عذرا کو ساتھ لیا اور ہم تیز تیز چلتے ہوئے درختوں کے جھنڈ سے نکل کر شمال کی طرف ایک ٹیکری کے دامن میں آگئے۔ میں نے عذرا سے پوچھا کہ کیا وہ ان علاقوں سے واقف ہے؟ اس نے جواب میں بتایا کہ شمال مشرق کی جانب غرناطہ کا شہر ہے جو وہاں سے اونٹوں پر چار دن کی مسافت پر ہے۔ اس کے سوا اسے کچھ معلوم نہیں تھا۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 161 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میرا ذہن بڑی تیزی سے کام کررہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ ہسپانوی دوشیزہ عذرا زیادہ دور تک میرا ساتھ نہیں دے سکے گی۔ وہ تھک جائے گی۔ اس لئے ضروری تھا کہ کوئی ایسا محفوظ ٹھکانہ تلاش کیا جائے جہاں عذرا کو چھپادیا جائے، زمین پر گھاس بالکل نہیں تھی اور وہاں ہمارے قدموں کے نشان پڑرہے تھے۔ جو عذرا کے رشتے دار ہسپانوی گھڑ سواروں کو اس کی خفیہ کمین گاہ تک پہنچا سکتے تھے۔ یہ ساری باتیں میرے پیش نظر تھیں۔ سامنے حد نظر تک چھوٹے چھوٹے اونچے اونچے ٹیلوں کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا جہاں کہیں کہیں درختوں کے جھنڈ سیاہ دھبوں کی طرح لگ رہے تھے۔ ہسپانوی گھڑ سوار کسی وقت بھی بیدار ہوکر عذرا کی تلاش میں نکل سکتے تھے اب رات بھی ڈھلنا شروع ہوگئی تھی۔ اندلس کا مشرقی آسمان ابھی زمرد کے رنگ کا ہوگیا تھا۔
آخر وہی ہوا۔ عذرا تھک کر بیٹھ گئی۔ اس نے کہا کہ اس سے آگے نہیں چلا جاتا۔ میں نے دائیں بائیں نظریں دوڑائیں۔ مجھے کچھ فاصلے پر اندھیرے میں ایک ایسی چیز نظر آئی جس نے ایک پل کے لئے مجھے متعجب کردیا اور میں نے ازسرنوغور کیا کہ کہیں میں غلطی سے اندلس کی بجائے اپنے آباؤ اجداد کی قدیم سرزمین مصر میں تو نہیں آگیا، یہ تعجب خیز چیز اہرام کی طرز کا ایک مخروطی ٹیلہ تھا۔ حیرانی کی یہ بات تھی کہ اگر یہ اندلس کی سرزمین ہے تو یہاں یہ اہرام کہاں سے آگیا۔ میں نے ایک بار پھر ہسپانوی دوشیزہ سے سوال کیا کہ کیا ہم اندلس میں ہی ہیں نا؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ میرے پاس غوروفکر کا وقت نہیں تھا۔ میں نے عذرا کو ساتھ لیا اور اہرام کی طرف بڑھا۔
قریب جاکر دیکھا تو وہ واقعی ایک پرانا اہرام تھا۔ جس کی مخروطی دیوار کے بڑے بڑے پتھر جگہ جگہ سے ٹوٹ کر جھڑے ہوئے تھے۔ ہسپانوی دوشیزہ کو اس اہرام کے بارے میں صرف اتنا ہی علم تھا کہ یہ ایک قدیم کھنڈر ہے۔
میں نے عذرا کو ایک طرف بیٹھنے کے لئے کہا اور خود اس بوسیدہ اہرام کے کھنڈر کا تینوں جانب گھوم کر جائزہ لیا۔ میں دیوار میں اس جگہ کو تلاش کررہا تھا۔ جہاں تین پتھروں کو ایک خاص شکل میں جوڑ کر ایک دوسرے سے ہم آہنگ کیا جاتا ہے۔ آخر وہ جگہ مجھے مل گئی۔ یہاں تین پتھروں کو اس طرح جوڑا گیا تھا کہ ان کے درمیان چھوٹی سی تکون بن گ ئی تھیَ یہی اہرام میں داخل ہونے کا پوشیدہ دروازہ تھا۔ میں نے ایک پتھر کو اپنی گرفت میں لے کر ہلایا۔ وہ اپنی جگہ سے ہل گیا۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد میں نے اس پتھر کو اور پھر دوسرے پتھر کو باہر نکال لیا۔ اندر سے بھاری نم آلود خاص پراسرار اہرامی خوشبوئیات میں ڈوبی ہوئی ہوا کا جھونکا بڑی تیزی سے باہر کو نکلا۔ میں نے جھانک کر اندر دیکھا۔ گھپ اندھیرا تھا۔ دو سیڑھیوں کے پتھر دیوار کے اندر کی جانب بنے ہوئے تھے۔ میں دیوار کی اوٹ سے نکل کر عذرا کے پاس گیا اور اسے اپنے ساتھ لے کر اہرام کے خفیہ دروازے پر آگیا۔
وہ خستہ حال اہرام کی دیوار میں شگاف دیکھ کر حیران رہ گئی۔ میں نے اس کو مطمئن کرنے کے لیے کہا کہ یہاں پہلے ہی سے یہ پتھر اکھڑا ہوا تھا۔ وہ اندر جاتے ہوئے گھبرارہی تھی لیکن اب صبح کی روشنی چاروں طرف پھیل چکی تھین۔ ہمیں دور سے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنائی دینے لگی۔ میں نے عذرا سے کہا کہ اس کے ظالم رشتے دار اسے گرفتارکرنے چلے آرہے ہیں۔ اس پر وہ گھبرا کر اہرام کی طرف بڑھی۔ میں نے اسے روک دیا اور خود شگاف میں سے اندر اہرام کے گھپ اندھیرے میں اترگیا۔ سیڑھیوں کے دو پتھروں کے نیچے ریتلی زمین تھی میں نے عذرا کو بھی اندر کھینچ لیا۔ اسے اہرام کی اندرونی دیوار کے ساتھ بیٹھنے کو کہا۔ خود شگاف سے باہر آکر پتھروں کو دیوار میں اس طریقے سے جمایا کہ عذرا کو تازہ ہوا اندر ملتی رہے۔ میں نے اسے بتادیا تھا کہ میں اس کا تعاقب کرتے سرداروں کو غلط راستے پر ڈالنے کے لئے باہر جارہا ہوں۔
میں اہرام کے سامنے مہندی کی جھاڑیوں کے پاس آکر زمین پر بیٹھ گیا۔ میں نے ایک چلاکی یہ کی کہ شور زدہ زمین پر بنے ہوئے اپنے اور عذرا کے قدموں کے نشان دور تک مٹادئیے۔ اتنے میں دونوں ہسپانوی اپنے ساتھ عذرا کا خالی گھوڑا لئے میرے قریب آکر رک گئے۔ ان میں جو ڈان پیڈرو تھا۔ اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا میں نے وہاں سے کسی نوجوان دوشیزہ کو جاتے دیکھا ہے؟ میں نے کچھ سوچ کر ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہاں تھوڑی دیر پہلے اس طرف ایک عورت کو میں نے بھاگتے ہوئے دیکھا تھا۔ دونوں سرداروں نے میرا شکریہ ادا کیا اور دوسری جانب گھوڑے ڈال د ئیے۔ جب وہ گھڑ سوار میری نگاہوں سے اوجھل ہوگئے تو میں اٹھا اور اہرام کی دیوار کے پتھر کو باہر کھینچ کر اندر داخل ہوگیا۔ میں نے پتھر کو کھینچ کر دوبارہ اس کی جگہ پر اس طرح جوڑ دیا کہ تازہ ہوا اندر آتی رہے۔ میں چاہتا تھا کہ جب گھڑ سوار اس علاقے سے دور نکل جائیں تو میں عذرا کو وہاں سے نکال کر جہاں وہ جانا چاہتی ہے وہاں پہنچادوں۔
اندھیرے میں مجھے ہسپانوی دوشیزہ وہاں نظر نہ آئی۔ میں نے اسے آواز دی تو اس کی بڑی کمزور سی آواز اہرام کے ایک کونے سے آئی۔ میں اس کی طرف لپکا۔ میں اہرام کے گھپ سیاہ اندھیرے میں بھی پتھروں کے دھندلے خاکے دیکھ سکتا تھا۔
کونے میں ایک جگہ ممی کا تابوت اپنے چبوترے سے لڑھک کر ایک طرف اوندھا پڑا تھا۔ چبوترے میں گہرا شگاف تھا۔ عذرا اسی شگاف میں پڑی تھی۔ میں نے اسے بڑی مشکل سے باہر نکالا۔ اس نے بتایا کہ وہ شگاف کو جھک کر دیکھ رہی تھی کہ کسی نے اسے پیچھے سے دھکا دے کر اس میں گرادیا۔ میں نے جھک کر دیکھا۔ گڑھے میں اس قسم کے لکڑی اور پتھر کے گول ڈبے ٹوٹے پڑے تھے جن میں فرعونوں کے گھروں میں بیگمات اپنے قیمتی جواہرات رکھا کرتی تھیں۔ اس قسم کے کچھ ڈبے اوندھے پڑے تابوت کے پاس بھی بکھرے ہوئے تھے۔ مجھے اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہ لگی کہ اس اہرام کو چور اور ڈاکو لوٹ چکے ہیں کیونکہ وہاں سوائے نیزوں اور بھالوں کے کوئی سونے چاندی کا برتن، سونے کی بگھی اور جواہرات سے مزین عقاب اور بلی کا کو ئی بت بھی نہ تھا۔ عذرا سخت گھبرائی ہوئی تھی جب اسے معلوم ہوا کہ میں نے اس کے رشتے دار سرداروں کو غلط راستے پر ڈال دیا ہے۔ تو وہ اہرام سے باہر نکلنے کے لئے بے تاب ہوگئی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اسے کچھ دیر مزید وہاں ٹھہرنا ہوگا تاکہ دشمن کافی دور نکل جائے۔ وہ سہم کر ایک طرف دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی۔ وہ اوندھے پڑے تابوت کی طرف خوفزدہ نگاہوں سے دیکھتی ہوئی بولی ’’مجھے اس سے ڈر لگتا ہے۔‘‘ وہ پریشان ہو کر اٹھی او ربولی ’’خدا کے لئے یہاں سے نکل چلو۔ یہاں میرا دل گھبرارہا ہے۔‘‘ میں نے عذرا کو ساتھ لیا اور اہرما سے باہر نکل آیا۔ میں نے باہر آتے ہی پتھروں کو اس طرح دیوار سے جوڑ دیا کہ کسی کو شک نہ ہو کہ یہاں سے کوئی خفیہ راستہ اندر جاتا ہے۔(جاری ہے)