اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 163
کھلی ہوا او رروشن دھوپ میں آکر عذرا نے اطمینان کا سانس لیا۔ ہم نے ایک ٹیلے پر چڑھ کر چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ گھڑ سوار وہاں کہیں نہیں تھے۔ اب میں نے عذرا سے پوچھا کہ وہ کہاں جانا چاہتی ہے ہم مہندی کی جھاڑیوں کے سائے میں بیٹھ گئے۔
عذرا نے اب مجھے اپنیم حبت کی داستان سنائی۔ یہ ہسپانوی دوشیزہ غرناطہ کے ایک نواب ڈان کارلوس کی اکلوتی بیٹی تھی۔ غرناطہ میں قربہ کے دربار کے امیر اور قاضی القصناۃ محمد بن علی کے اکلوتے لڑکے عبداللہ بن علی کی ایک چھوٹی سی جاگیر تھی۔ یہ جاگیر قرطبہ کے قاضی کے بیٹے کو خلیفہ مسترشد نے بخشی تھی۔ خلیفہ، قاضی صاحب کی اعلیٰ دینی اور منصبی خدمات سے خوش ہوکر یہ جاگیر انہیں بخشنا چاہتا تھا لیکن قاضی صاحب کی اعلیٰ دینی اور منصبی خدمات سے خوش ہوکر یہ جاگیر انہیں بخشنا چاہتا تھا لیکن قاضی صاحب نے یہ کہہ کر اسے لینے سے انکار کردیا۔ ’’مجھے اللہ تعالیٰ نے ضروریات کے لئے کافی دیا ہے۔ میری کوئی ضرورت رکی ہوئی نہیں ہے۔ ضرورت سے زیادہمال انسان کو تباہ کردیتا ہے۔ اس وقت تو خلیفہ خاموش رہا لیکن کچھ ایام گزرجانے پر اس نے یہی جاگیر قاضی کیا کلوتے اور نوجوان بیٹے عبداللہ بن علی کو بخش دی جو قرطبہ سے اٹھ کر غرناطہ اپنی جاگیر پر آیگا۔ اگرچہ قاضی صاحب نے سلطان سے منت کی کہ جاگیر اس کے بیٹے کو نہ دی جائے مگر سلطان نے ان کی ایک نہ سنی۔ روانگی کے بعد قاضی صاحب نے اپنے بیٹے کو خط لکھ کر نصیحت کی کہ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا۔ صرف رضائے الہٰی کی خاطر اس کے بندوں کی خدمت کرنا۔ کسی پر زیادتی اور ظلم نہ کرنا۔ مگر عبداللہ بن علی حسینا ور نوجوان تھا۔ پھر دولت کی کثرت ہوگئی۔ چنانچہ اس نے غرناطہ کے ایک ہسپانوی عیسائی جاگیردار ڈان کارلوس کی اکلوتی بیٹی سے عشق کرنا شرو ع کردیا اور شادی کی کوشش میں ناکامی کے بعد اسے اپ نے ساتھ لے کر ملاکا کی طرف نکل گیا۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 162 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس کے بعد کے حالات مجھے معلوم ہی تھے۔
عذرا نے خواہش ظاہر کی کہ میں اسے ملاکا میں واپس اس کے محبوب عبداللہ بن علی کے پاس پہنچادوں۔ جہاں وہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ یہ بڑی جائز اور خوش آئندہ بات تھی۔ میں نے ہامی بھرلی اور غور کرنے لگا کہ کہیں سے دو گھوڑوں کا انتظام ہوجائے تو عذرا کو ساتھ لے کر ملاکا کی طرف کوچ کرجاؤں۔
عذرا نے میرے بارے میں دریافت کیا تو میں نے اسے بتایا کہ میں ایک مصری سیاح ہوں۔ دنیا کی سیاحت پر نکلا ہوں۔ ساتھ ساتھ جڑی بوٹیوں کا بھی دھندہ کرتا ہوں اور میرا نام بھی عبداللہ ہے، وہ بڑی خوش ہوئی کہ اس میں اس کے محبوب کا ہم نام ہوں۔ وہ وہاں سے نکل جانے کو بے تاب تھی۔ میں نے گھوڑوں کے بارے میں بات کی تو اس نے اپنی سونے کی صلیب اتار کر کہا ’’یہاں سے سات کوس پیچھے کی جانب ایک گاؤں ہے۔ یہ صلیب فروخت کرکے ہم وہاں سے تازہ دم گھوڑے حاصل کرسکتے ہیں۔۔۔‘‘ میں نے صلیب اس کے گلے میں ہی پڑی رہنے دی اور اسے ساتھ لے کر واپسی کا سفر شروع کردیا۔ ایک امیر گھرانے کی چشم و چراغ نازک اندام دوشیزہ کے لئے پرخطر بیاباں میں سات کوس پیدل سفر کرنا بہت مشکل تھا۔ عذرا اپنے محبوب سے ملنے کے جذبے میں تیز تیز چل رہی تھی۔ کسی نہ کسی طرح گرتے پڑتے اس نے میرے ساتھ سات کوس کی مسافت طے کرلی۔ ہم ایک گاؤں میں پہنچ گئے۔ یہ عیسائی ہسپانوی کا گاؤں تھا۔ یہاں ایک چھوٹا گرجا بھی بنا ہوا تھا۔ مکانوں کی چھتیس ڈھلانی تھیں اور ہرمکان کی دیوار پر سرخ جنگلی پھولوں کی بیل چڑھی ہوئی تھی۔ ملاکا ں یہاں سے ایک دن اور ایک رات کے فاصلے پر تھا۔ مجبوراً عذرا کو اپنی سونے کی صلیب بیچنی پڑی ہم نے دو گھوڑے حاصل کرلئے کچھ سوکھا پھل اور گوشت اور پانی کی چھاگل ساتھ لے لی اور آگے کو روانہ ہوگئے۔
عذرا کو ایک ہی ڈر لگا تھا کہ کہیں اس کا محبوب عبداللہ بھی وہاں سے چلا نہ گیا ہو لیکن جب ہم ملا کا شہر کے باہر انجیر کے باغ میں پہنچے تو ہمیں پتہ چلا کہ ہسپانوی دوشیزہ کا محبوب عبداللہ بن علی وہاں موجود ہے اور غرناطہ جاکر عذرا کے باپ سے ملنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔دونوں محبت کرنے والے ایک دوسرے کو ایک بار پھر اپنے سامنے پاکر خوشی سے نہال ہوگئے۔ عذرا نے اپنے محبوب سے میرا یوں تعارف کرایا کہ اگر میں اس کی مدد کو نہ آتا تو وہ واپس نہیں آسکتی تھی۔ عبداللہ بن علی ایک وجیہہ اور عالی نسب نوجوان تھا۔ اس نے مجھے گلے لگالیا اور شکریہ ادا کیا۔ اسی روز عذرا اور عبداللہ بن علی کی شادی ہوگئی۔ عذرا نے اسلام قبول کرلیا۔ اب عبداللہ بن علی نے اپنی بیوی کو ساتھ لے کر واپس غرناطہ جانے کا منصوبہ بنایا تاکہ وہ عذرا کے باپ کو صورتحال سے آگاہ کرکے اپنی جاگیر پر ہنسی خوشی زندگی بسر کرسکے۔ عذرا اس منصوبے کے خلاف تھی مگر عبداللہ نے اسے راضی کرلیا۔ میں خود غرناطہ جانے کا خواہشمند تھا۔ چنانچہ ایک روز ہم غرناطہ جانے والے قافلے میں شامل ہوگئے۔ چار دن کی مسافت کے بعد ہمارا قافلہ غرناطہ پہنچ گیا۔ سیر انواز کی برف پوس چوٹیوں کے دامن میں خلیفہ مسترشد اول کے عہد کا شہر غرناطہ ایک نگینے کی طرح دمک رہا تھا۔ ایک ٹیلے پر دور ہی سے ہمیں الحمرا کے باغات کے اشجار نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔ قصر الحمراء کے سرخ رنگ کے مربع برجوں کی چوٹیاں نیلگوں آسمان کی دھوپ میں چمک رہی تھیں۔
غرناطہ شہر کے باہر ایک حسین و جمیل وادی میں عبداللہ بن علی کی جاگیر تھی جہاں انگور و انجیر کے باغات میں ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے رواں تھے۔ میں نے اس محبت کرنے والے نوبیاہتا جوڑے کے ساتھ قیام کیا۔ شام کے وقت عبداللہ بن علی تلوار لٹکا کر گھوڑے پر سوار ہوا اور عذرا کے باپ کی حویلی کی طرف روانہ ہوگیا۔ عذرا نے ایک بار پھر اسے آنسوؤں بھری آنکھوں کے ساتھ رخصت کیا، اس کا دل گھبرارہا تھا۔ وہ اسے اپنے باپ کی جاگیر پر جانے سے منع کرنا چاہتی تھی مگر عبداللہ بن علی جانے کا فیصلہ کرچکا تھا تاکہ حالات معمول کی شکل اختیار کرسکیں۔ وہ اکیلا ہی گیا اس نے مج ھے بھی اپنے ساتھ لے جانے کی ضرورت محسوسنہ کی۔ عذرا دل تھام کر رہ گئی میں اسے حوصلہ دینے لگا۔ کوئی ایک گھنٹے بعد ایک گھڑ سوار گھبرایا ہوا آیا، اس نے بتایا کہ عبداللہ بن علی کا ڈان کارلوس کی حویلی میں عذرا کے ماموں سے جھگڑا ہوگیا۔ عبداللہ بن علی نے اسے قتل کردیا اور سپاہی اسے پابہ زنجیر کرکے غرناطہ کے گورنر کے محل میں لے گئے ہیں۔ عذرا پر تو گویا بجلی گرپڑی۔ گھڑ سوار نے یہ بھی بتایا کہ ڈان کارلوس خود اپنی بیٹی کو لینے وہاں آرہا ہے۔ عذرا کا رنگ سفید پڑگیا اس نے گھبرائی ہوئی آواز میں مجھے بتایا اس کا باپ اسے زندہ نہیں چھوڑے گا۔ ’’خدا کے لئے مجھے یہاں سے کہیں لے چلو۔‘‘ میں نے اسی وقت گھوڑوں پر زین کسی۔ عذرا کو گھوڑے پر بٹھا کر ساتھ لیا اور ہم جاگیر کے باغات سے نکل کر دریائے ویگا س کو عبور کر کے غرناطہ کے شمال کی جانب روانہ ہوگئے۔ عذرا اس سارے علاقے سے واقف تھی۔ اس نے بتایا کہ دریائے ویگاس مرسیلانہ کی پہاڑیوں سے جہاں نکلتا ہے وہاں ڈھلانی جنگل میں ایک پرانی خانقاہ ہے جس کا متولی ایک نیک دل بوڑھا عیسائی پادری ہے جو اسے بچپن میں اسے کھلایا کرتا تھا۔ ہم نے دریا کے منبع کی جانب گھوڑے ڈال دئیے۔
نصف شب کے بعد ہم ڈحلانی جنگل میں واقع پرانی خانقاہ میں پہنچ گئے، بوڑھا عیسائی پادری شمع دان ہاتھ میں لئے خانقاہ سے باہر آگیا، اس نے عذرا کو پہچان لیا۔ اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔ عذرا نے اسے سارے حالات بتادئیے، بوڑھا پادری پدرانہ شفقت سے مسکرایا اور بولا ’’خدا معاف کرنے والا ہے۔ میرے ساتھ آؤ۔ جب تک تمہارے خاوند کا کوئی فیصلہ نہیں ہوتا تم میری پناہ میں رہوگی۔ ‘‘ وہ مجھ سے بھی بڑے اخلاق سے پیش آیا۔
عذرا اپنے کاوند کی گرفتاری پر بہت پریشان تھی۔ عیسائی پادری نے فکر انگیز انداز میں کہا ’’بیٹی! مسلمانوں کے عہد حکومت میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہے تمہارے خاوند کے ساتھ پورا پور انصاف کیا جائے گا۔‘‘
عذرا نے آنسو بھر کر کہا ’’مقدس باپ نے مسلمانوں کے انصاف ہی سے خوفزدہ ہوں۔ یہ لوگ کسی سے رو رعایت نہیں کرتے صرف انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔ ڈرتی ہوں کہ کہیں میرے خاوند کو۔‘‘ وہ رونے لگی۔ پادری نے اسے تسلی دی اور پھر ایک کوٹھری میں بستر ڈال کر اسے سلادیا۔ اس کے بعد وہ میرے پاس آکر بیٹھ گئے اور کچھ دیر باتیں کرتے رہے۔ میں نے کو بھی اپنے بارے میں یہی بتایا کہ میں ایک مصری سیاح ہوں اور عذرا کی مدد کے خیال سے اس کے ساتھ آگیا ہوں۔ پادری مسکرایا ’’مبارک ہیں وہ لوگ جو ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ اب تک بھی آرام کرو۔ باقی باتیں صبح ہوں گی۔‘‘ پادری اپنی کوٹھری میں چلا گیا۔ میں وہیں گھاس کے بستر پر لیٹ گیا۔
غرناطہ کے گورنر کو جب پتہ چلا کہ قاتل عبداللہ بن علی قطبہ کے قاضی القصناتہ محمد بن علی کا اکلوتا بیٹا ہے تو اس نے خلیفہ مسترشد کو سارا احوال لکھ بھیجا کہ اس مقدمے کے ابرے میں ان کی کیا رائے ہے۔ اصل میں غرناطہ کا مسلمان گورنر اتنی بڑی درباری شخصیت کے بیٹے کے خلاف خلیفہ کو مطلع کئے بغیر کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ خلیفہ مسترشد نے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے قاتل کے باپ یعنی قاضی محمد بن علی کو غرناطہ روانہ کردیا۔(جاری ہے)