اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 164
غرناطہ کی عدالت خاص میں مقدمہ پیش ہوا۔ یہ ایک انوکھی عدالت تھی کہ انصاف کی کرسی پرباپ بیٹھا تھا اور ملزموں کے کٹھہرے میں مصنف کا اکلوتا بیٹا عبداللہ بن ملی کھڑا تھا۔ عدالت میں لوگوں کا بے پناہ ہجوم تھا۔ میں بھی عدالت کے ایک کونے میں فیصلہ سننے کے لئے بیٹھا تھا۔ قاضی نے مقدمے کے کاغذات کو دیکھا۔ گواہوں نے شہادت دی۔ اس کے بعد قاضی نے ملزم، یعنی اپنے اکلوتے بیٹے کی طرف دیکھا اور بارعب آواز میں پوچھا
’’تم اس مقدمے کے بارے میں کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘
عبداللہ بن علی نے کہا ’’میرے محترم باپ میں۔۔۔‘‘
قاضی القصنانہ نے گرج کر کہا ’’یہاں تم ملزم کی حیثیت سے لائے گئے ہو۔ میرے بیٹے کی حیثیت سے نہیں اس لئے کسی رشتے ناطے کو زبان پر مت لاؤ۔‘‘
عدالت میں سناٹا چھاگیا۔ میں بھی قاضی صاحب کی عدل گستری پر دنگ رہ گیا۔ عبداللہ بن علی نے عاجزی سے کہا ’’میں عدالت سے رحم کی درخواست کرتا ہوں۔‘‘
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 163 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس پر قاضی القصناتہ اور قاتل کے والد گرامی نے انصاف کی بلند مسند پر بیٹھے بیٹھے کہا ’’دنیا سے انصاف اٹھ چکا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک بندے حضرت محمد ﷺ کو دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ دنیا میں حق و انصاف کا بول بالا ہوا۔ ظلم و ستم کا دور ختم ہوا۔ ہم سب اللہ جل شانہ، کے احسان مند ہیں کہ اس نے ہمیں اییک ایسی مکمل ہدایت سے مشرف فرمایا کہ جس میں نہ کسی کمی بیشی کی گنجائش ہے اور نہ اس کی حاجت ہے۔ میں بھی اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ اور اس کے رسول مقبول صعلم کا ادنیٰ ترین غلام ہوں۔ اگرچہ میرا دل اپنے اکلوتے بیٹے کی محبت سے لبریز ہے۔ مگر انصاف کا خون ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ میں جس قانون کا امین بنایا گیا ہوں اس میں مرتے دم تک خیانت کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ تم پر ایک عیسائی کا قتل ثابت ہوگیا ہے۔ اب میں تمہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم سناتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں خون کا بدلہ خون قرار دیا ہے۔ اس کی رو سے میں تمہیں قتل کے جرم میں سزائے موت کا حکم سناتا ہوں۔ ماسوائے اس کے کہ مقتول کے وارث قتل کے بدلے خون بہالینے پر تیار ہوں۔‘‘ قاضی نے اپنے فیصلے پر عدالت کی مہر ثبت کردی۔ عدالت میں سناٹا چھاگیا۔ اس فیصلے پر مسلمانوں کے علاوہ یہودی اور عیسائی بھی عش عش کر اُٹھے، کئی لوگ فرط عقیدت سے زار و قطار رونے لگے۔ قاضی نے مقتول کے وارثوں سے پوچھا۔ ان کا جواب نفی میں تھا۔ وہ خون بہالینے پر راضی نہ تھا۔ وہ عبداللہ کو قتل ہوتا دیکھنا چاہتے تھے۔ قاضی نے دوسرے روز صبح کے وقت عبداللہ کی گردن اڑا دینے کا حکم صادر فرمادیا۔
میں نے خانقاہ میں واپس آکر عذرا کو یہ جانکاہ خبر سنائی تو وہ غش کھا کر گر پڑی۔ عیسائی پادری بھی غم زدہ ہوگیا کہنے لگا ’’مسلمانوں کا یہی عدل و انصاف ہے جس کی وجہ سے ملک اندلس میں امن وامان کی حکمرانی ہے۔ سوائے اس قسم کی مشتعل وارداتوں کے کبھی کسی کا قتل نہیں ہوا۔‘‘ میں نے ان سے پوچھا کہ اب کیا ہوگا؟ عذرا تو زندہ نہ بچ سکے گی۔ عبداللہ کی موت کے ساتھ ہی وہ بھی مر جائے گی۔ پادری بولا ’’میں اس بارے میں کیا کرسکتا ہوں۔‘‘ پھر میری طرف روشن نظروں سے دیکھا اور کہا ’’ہاں اگر تم اپنے طور پر کچھ کرسکتے ہو تو میں تمہیں نہیں روکوں گا۔‘‘ عذرا کو ہوش آیا تو وہ زار و قطار رونے لگی۔ مجھ سے اس کی حالت زار دیکھی نہیں جاتی تھی۔ پادری نے مجھے اشارہ دے دیا تھا۔ انصاف کے تقاضے پورے ہوگئے تھے۔ اب میں محبت کے تقاضے پورے کرنا چاہتا تھا۔ میں نے فیصلہ کرلیا کہ عبداللہ بن علی کو موت کے منہ میں نہیں جانے دوں گا۔ مجھے معلوم تھا کہ اس کے لئے مجھے ایک ایسا قدم اٹھانا پڑے گا۔ جس کے باعث کئی محافظ میرے ہاتھوں مارے جائیں گے میں اسی کشمکش میں تھا عذرا نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ رات ہوگئی تھی۔ میں عذرا کے پاس ہی بیٹھا تھا کہ مجھے محسوس ہواجیسے کوئی مجھ سے سرگوشیوں میں کہہ رہا ہے’’عاطون! تم نے غلط فیصلہ کیا ہے۔ انصاف کے تقاضے پورے نہ ہوئے تو عدل کے ترازو کاپلڑا جھک جائے گا۔ معاشرے سے امن وامان اٹھ جائے گا۔ خلق خدا کی زندگیاں غیرمحفوظ ہ وجائیں گی اور اگر تم ان دو محبت کرنے والوں کی زندگیاں بچانا چاہتے ہو تو تمہیں اپنے آپ کو پیش کرنا ہوگا۔‘‘
میں نے قدرے تعجب سے اپنے آپ کو پیش کرنے کے ضمن میں ان دیکھی ہستی سے وضاحت چاہی تو سرگوشی کرنے والی ہستی نے جو کچھ بتایا وہ یہ تھا کہ مجھے شب کی تاریکی میں غرناطہ کے شاہی قلعے کی غربی دیوار کے پاس جاکر تکونی چٹان کے نیچے آنکھیں بند کرکے لیٹ جانا ہوگا۔ خانقاہ میں عیسائی پادری کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتا کر جانا ہوگا کہ میں عبداللہ بن علی کو قید سے نکالنے جارہا ہوں۔ چنانچہ جب تھوڑی دیر بعد وہ خانقاہ میں پہنچنے کو اسے عذرا کے ہمراہ خانقاہ میں ہی اس وقت تک چھپا کر رکھا جائے جب تک کہ میں واپس نہ آجاؤں۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ خانقاہ میں اندر آیا تو عذرا ایک بار پھر بے ہوش ہوچکی تھی اور پادری اس کو لخلخہ سنگھار رہا تھا۔ میں نے پادری کو ایک طرف لے جاکر کہا
’’اس حقیقت کا مجھے کسی نہ کسی طریقے سے علم ہوچکا ہے کہ آپ میری زندگی کے خفیہ راز اور خفیہ طاقت سے باخبر ہیں۔ زیادہ تفصیل میں جانے کا یہ وقت نہیں ہے۔میں عبداللہ بن علی کو قید خانے سے چھڑانے جارہا ہوں۔ میرے جانے کے بعد وہ خانقاہ کا دروازہ کھٹکھٹائے گا۔ آپ اسے فوراً عذرا کے ساتھ ہی خانقاہ کی کسی کوٹھری میں چھپا دیں۔ اگرچہ عبداللہ بن علی آپ کے پاس محفوظ ہوگا مگر کل صبح ایک اور عبداللہ بن علی کی گردن سب کے سامنے اڑادی جائے گی۔ یہ میں ہوں۔ اس کا ذکر آپ کو عبداللہ اور اس کی بیوی عذرا سے ہرگز نہیں کرنا۔ آپ ایسا کریں گے کہ جب میری لاش کو سر اور دھڑ سمیت رواج کے مطابق دریا میں پھینک دیا جائے گا تو آپ آگے جاکر اسے پانی کی لہروں سے نکال لیں پہھر میرے سر کو گردن کے ساتھ لگا کر آپ خاموشی سے بیٹھ جائیں گے جو کچھ ہو گا آپ کو خود بخود معلوم ہوجائے گا۔ اب میں جارہا ہوں۔ میرے پاس وقت بہت کم ہے۔ جیسا میں نے کہا ہے آپ ویسے ہی کریں۔‘‘
پادری بڑی محویت کے ساتھ ہونٹوں پر ہلکی سی دلکش مسکراہٹ لئے میری باتیں سنتے رہے۔ جب میں جانے لگا تو میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’میرے بیٹے! میں جانتا تھا تم ضرور ان کی مدد کرو گے۔ جاؤ تم نے جیسا کہا ہے میں ویسے ہی کروں گا۔‘‘
میں گھوڑے پر سوار ہوا اور رات کی تاریکی میں غرناطہ کے قلعے کی طرف نکل گیا۔ ہر طرف ہوکا عالم تھا۔ دور قصر الحمرا کی فصیل پر کہیں کہیں شمع دان روشن تھے۔ میں قلعے کی غربی دیوار کی طرف آیا تو یہاں دیوار سے ہٹ کر ایک تکونی چٹان اوپر کو اٹھی ہوئی تھی۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں مجھے لیٹ جانے کے لئے کہا گیا تھا۔ میں نے گھوڑ کو ایک طرف باندھا اور چٹان کے سائے میں زمین پر چت لیٹ گیا۔میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ چند ثانیوں بعد مجھے ایک ہلکا سا جھٹکا لگا۔ میں نے آنکھیں بند رکھیں مگر میں نے محسوس کیا کہ میں کھلی ہوا میں نہیں ہوں اور میرے نیچے کی زمین کی بجائے سخت پتھریلا فرش ہے۔ میرے کان میں پھر سرگوشی ہوئی ’’عاطون! آنکھیں کھول کر دیکھو کہ تم کہاں ہو۔‘‘
میں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ ایک تنگ کوٹھڑی میں پڑا ہوں۔ دیوار گیر میں ایک چراغ جل رہا ہے۔ میرا رنگ گورا ہوگیا تھا۔ میں نے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو چہرے کے نقوش بدلے ہوئے پائے یہ میرا چہرہ نہیں بلکہ عذرا کے خاوند عبداللہ بن علی کا چہرہ تھا۔(جاری ہے)